ہوشیار
قید!
وہ حزب اختلاف ہو کہ حزب اقتدار
دونوں ہی اپنے حال کے پنجرے میں قید ہیں
ڈوری ہلا رہا ہے بہت دور سے وہ اب
صیاد دور بیٹھا ہے یہ اس کے صید ہیں!
بدقسمتی سے برطانیہ میں تارکین وطن خصوصاً مسلمانوں کے خلاف ایک نفرت انگیز فضا پیدا ہوئی ہے یا کی گئی ہے اور خدانخواستہ 70 کی دہائی کے مناظر خال خال پھر لوٹ آئے ہیں۔ 70 کی دہائی میں مبینہ نفرت پھیلانے والے ممبر آف پارلیمنٹ اینوک پاول(Envck Powell)کی اس بات میں بہت شہرت ہوئی مرحوم کہتے تھے کہ میں ’’برطانیہ میں خون کی ندیاں بہتی ہوئی دیکھ رہا ہوں، یہ تارکین وطن ہمارا کلچر بدل دیں گے، ہمارے مکانوں اور ہمارے روزگار پر قابض ہو جائیں گے‘‘۔ ان کے اس بیان کے ردعمل میں برطانیہ میں جگہ جگہ فساد پھوٹ پڑے اور مسلمانوں کے خلاف ایک نفرت انگیز فضا پیدا ہو گئی۔ شمالی برطانیہ میں کئی مساجد کو نذر آتش کیا گیا اور مساجد میں ناپاک جانور کے سر کاٹ کر ڈالے گئے۔ بصد مشکل حکومت نے ان فسادات پر قابو پایا فسادات تو ختم ہو گئے لیکن انفرادی طور پر گلی محلوں میں کچھ فسادی جو ’’سرمنڈے‘‘ کہلاتے تھے تارکین وطن کو زدوکوب کرنے لگے۔ نوبت یہاں تک پہنچ کہ ہر تاریک وطن پر ’’پکی‘‘PAKI کا ٹھپہ لگا دیا گیا اکثر لوگ بھارت اور افریقہ کے مختلف ممالک سے برطانیہ آئے تھے وہ سب ’’پیکی‘‘ کہلاتے۔ ان فسادات اور سماجی منافرت کے پس پشت برطانیہ کی ایک سماجی جماعت BNPتھی برٹش نیشنل پارٹی سمجھتی تھی کہ بس ملک میں رہنے اور بسنے کا حق صرف اسی کو حاصل ہے لیکن رفتہ رفتہ صاحبان اقتدار نے اس حقیقت کا اندازہ لگا لیا کہ معاشرے کے امور کو چلانے کے لئے تارکین وطن بہت ضروری ہیں۔ انہیں تارکین وطن نے جنگ عظیم دوم میں برطانیہ میں جو تباہی پھیلی تو اسے دور کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ نیشنل ہیلتھ سروس، برٹش ٹرانسپورٹ، متعدد کارخانوں اور فیکٹریوں کو چلانے میں تارکین وطن نے ایک اہم کردار ادا کیا۔ پورے معاشرے اور حکومت نے اس حقیقت کو تسلیم کر لیا کہ برطانیہ میں رہائش پذیر تارکین وطن برطانوی معاشرے کا اہم جزو ہیں۔ بدقسمتی سے حالیہ انتخابات کے دوران نفرت کا یہ جذبہ کس حد تک پھر ابھر آیا مختلف جگہوں پر بی این پی کا ذہن رکھنے والے افراد تارکین وطن سے دشمنی کا اظہار کرنے لگے چند ہفتے پہلے متعدد جگہوں پر بلوائی جمع ہوئے اور چلتی ہوئی ٹریفک اور افراد پر حملے شروع ہوئے۔ کئی مساجد کو بھی نشانہ بنایا گیا لیکن غنیمت ہے کہ حکومت جلد ہی جاگ گئی اور پھر پوری طاقت سے بلوائیاں پر قابو پا لیا گیا۔ کئی سو افراد گرفتار ہوئے بہت سے لوگوں کو سزائیں ہوئیں اور خدا کا شکر ہے کہ حالات قابو میں آگئے۔ ہوا یہ ہے کہ Covid19کے بعد برطانیہ کی معاشی طاقت میں بڑی تیزی سے تبدیلیاں ہوئی ہیں۔ مہنگائی اپنی حدیں عبور کر چکی ہے۔ روزگار کا حصول عنقا ہو گیا ہے اور ایک گھمبیر قسم کی کساد بازاری نے برطانیہ کو اپنے چنگل میں لے لیا ہے۔ ان حالات میں نزلہ ہر عضوئے ضعیف کے مصداق تارکین وطن کے خلاف ایک طرح کی تعصب کی فضا قائم ہو گئی ہے۔ اس وقت بہت ضروری ہے کہ تارکین وطن خصوصاً پاکستانی خود کو منظم کریں سماج میں اپنے کردار کو اور فائدہ مند بنائیں اپنے بچوں کو بہرحال اعلیٰ تعلیم سے آراستہ کریں تاکہ معاشرے میں ان کی آواز میں اور جان پیدا ہو جائے۔ اس سلسلے میں ذرائع ابلاغ کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہو گا حالیہ ایک رپورٹ کے مطابق 11فیصد مسلمان سمجھتے ہیں کہ برطانوی ذرائع ابلاغ ان کے کردار کی منفی منظر کشی کرتے ہیں۔ 60فیصد مسلمان سمجھتے ہیں کہ ان کا مذہب ان کے ثقافتی ورثے سے جڑا ہوا ہے۔ کچھ برطانوی اس بات پر متفق ہیں کہ عام انتخابات میں رائے دہندگان نے اپنے مذہب کو مدنظر رکھا۔ بدقسمتی سے پوری دنیا کی طرح برطانیہ میں بھی مسلمان چند مختلف عقائد کے حامل ہیں۔ اس لئے تمام انسانوں کو مسلمانوں کو سمجھنے میں مشکل پیش آتی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اب مسلمان شعیہ، سنی، بریلوی، دیوبندی کی قید سے نکلیں اور صرف اسلام کو حزر جاں بناکر برطانوی معاشرے پر ثابت کریں کہ عقائد کے جزوی اختلاف کے باوجود وہ اول و آخر مسلمان ہیں اور ان کے بنیادی عقائد ایک اور صرف ایک ہیں۔ اگر مسلمانوں کو برطانیہ میں خود کو معاشرے کا ایک اور ضروری جزو تسلیم کرانا ہے تو انہیں اتحاد بین المسلمین پر عمل کرنا ہو گا اور برطانوی معاشرے میں اپنی اہم جگہ بنانی ہو گی۔ خدا اس باب میں ہماری مدد فرمائے۔