بنگلہ دیش آئینہ دکھا رہا ہے !

بنگلہ دیش آئینہ دکھا رہا ہے !

ہم یہ سطور لکھ رہے ہیں ایک ایسے دن جو ہماری پاکستانی تاریخ میں ایک بہت ہی اہم سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔
11 اگست 1947ء، پاکستان کے قیام سے تین دن قبل، پاکستان کی دستور ساز اسمبلی سے اپنے خطاب میں بابائے قوم، جو اسمبلی کے صدر بھی تھے اور پاکستان کے نامزد گورنر جنرل بھی، نے اپنی قوم اور نئے ملک کیلئے اپنے پہلے خطاب میں ان بنیادی خطوط کی نشاندہی کی تھی اور بہت وضاحت کے ساتھ، غیر مبہم الفاظ میں کی تھی جن پر ملک کا آئین اور قانون استوار ہونا تھا۔
بابائے قوم نے فرمایا تھا کہ پاکستان میں تمام شہریوں اور ان شہریوں میں مسلم اکثریت اور غیر مسلم اقلیت سب ہی شامل تھے کی جان، مال اور ان کے مذہبی اور مسلکی حقوق کا تحفظ ریاستِ پاکستان کی بنیادی اور اولین ذمہ داری ہوگی اور پاکستان کے شہریوں میں ان کے عقائد کی بنیاد پر کوئی تفریق یا امتیاز نہیں برتا جائے گا!
قائد کا یہ فرمان اتنا صاف اور شفاف تھا کہ اس کے بارے میں نہ کوئی شک و شبہ رہ سکتا تھا نہ ہی اس فرمان میں کوئی ایسی مشکل بات تھی کہ اس پر عمل کرنا دشوار یا ناممکن ہو۔
لیکن ہوا یہ کہ قائد کے اس فرمان کو صاحبانِ اختیار اور مذہب کی بنیاد پر سیاست کرنے والوں نے بہت جلد بھلا دیا اور اس کے نتیجہ میں جو ہوا وہ ہمارے ملک کی وہ دردناک تاریخ ہے جسے یہاں دہرانے کا کوئی محل، کوئی ضرورت نہیں ہے۔ بس یہ کہہ دینا کافی ہوگا، اشارے کیلئے ، کہ پاکستان میں پہلے مذہبی فسادات قائد کی آنکھ بند ہونے کے چار سال کے اندر ہی رونما ہوگئے جس کے نتیجہ میں ، 1953ء میں پاکستان میں پہلی بار مارشل لاء کا نفاذ ہوا اور اگرچہ وہ مارشل لاء زیادہ دن نہیں رہا لیکن اس نے وردی والے طالع آزماؤں کو حوصلہ بخشا کہ وہ جب چاہیں اپنی بندوقوں کے بل پر ملک کو اپنی تحویل میں لے سکتے تھے۔
طالع آزماؤں نے وہ سبق یاد رکھا لیکن قائد کا وہ فرمان بھلادیا جس میں انہوں نے اپنی رحلت سے تین مہینے پہلے کوئٹہ کے کمانڈ ایڈ اسٹاف کالج میں سینئیر فوجی افسروں سے اپنے خطاب میں دو ٹوک الفاظ میں انہیں تنبیہ کی تھی کہ ملک کی سیاست میں دخل اندازی کا سوچیں بھی نہیں۔ بابائے قوم نے فرمایا تھا کہ پالیسی بنانا سیاستدانوں اور سول انتظامیہ کا حق تھا جبکہ فوج کا کام صرف اتنا تھا کہ وہ ملکی سرحدوں کی حفاظت کرے اور سول حکومت کے احکام کی تعمیل کرے۔ لیکن طالع آزما تو عہد کرچکے تھے کہ وہ نئی ریاست کو اپنا غلام بنا کے رہینگے۔ سو وہ تاریخ مرتب ہوئی جس سے ہم سب واقف ہیں!
12 اگست کو پاکستان میں اقلیتوں کا دن منایا جارہا ہے تاکہ قوم کو بابائے قوم کا فرمان یاد دلایا جائے لیکن اصل میں تو حکمرانوں نے اپنے حافظہ سے قائد کی نصیحت کو جان بوجھ کے فراموش کیا ہے کیونکہ ان کیلئے تو مشعلَ راہ، یا یوں کہنا چاہئے کہ ہدایت اور رہنمائی تو فرنگی راج کی تقسیم کرو اور حکومت کرو کی پالیسی رہی ہے جس کے بل پر فرنگی نے اس ہندوستان پر ڈیڑھ دو سو برس کامیابی سے حکومت کی جس میں بیشمار تہذیبیں تھیں، کتنے ہی مذاہب کے پیروکار تھے اور سینکڑوں زبانیں بولنے والے تھے۔
لیکن فرنگی راج کی جس روایت کو ہماری اشرافیہ نے دل و جان سے قبول کرکے اس پر آنکھ بند کرکے عمل کیا ہے وہ ہے ڈنڈے اور طاقت، دھونس اور دھاندلی کے ذریعہ قوم کو کچلنا، عوام کی زباں بندی کرنا اور ہر قانون کو اپنے پیروں اور بوٹوں تلے روندتے ہوئے شہریوں کے ساتھ وہ سلوک کرنا جو غیر ملکی، سات سمندر پار سے آئے ہوئے فرنگی کیا کرتے تھے۔
پاکستان جیسی فسطائیت بنگلہ دیش میں بھی رائج تھی ایک بنیادی فرق کے ساتھ۔پاکستان میں فسطائیت کے چودہری وردی والے ہیں جبکہ بنگلہ دیش میں حسینہ واجد، جو بظاہر جمہوری طریقہ سے منتخب ہوئی تھیں، اور گزشتہ پندرہ برس میں چار انتخابات تسلسل سے جیت کر بنگلہ دیش کی لیڈر تھیں، لیکن انہوں نے جمہوری لبادہ میں بنگلہ دیش کو ون پارٹی اسٹیٹ یا اپنی عوامی لیگ کی بلاشرکتِ غیرے ریاست بنادیا تھا۔
حسینہ واجد نے اپنے سیاسی حریفوں کو یا تو زندان میں ڈال دیا تھا یا انہیں دوسری دنیا میں بھیج دیا تھا۔ بنگلہ دیش کی جماعتِ اسلامی کے سربراہ، پروفیسر غلام اعظم، جو تحریکِ پاکستان کے بنگال میں سرکردہ رہنما رہے تھے انہیں 2012ء میں تیس برس کی سزا سناکر جیل میں 92 برس کی عمر میں قید کردیا گیا تھا جہاں دو برس بعد، وہ 94 برس ی عمر میں دارِ فانی سے کوچ کرگئے۔
حسینہ واجد بھی اپنے آپ کو بنگلہ دیش کی بے تاج ملکہ سمجھنے لگی تھیں جیسے ہمارے آج کے فوجی طالع آزما عاصم منیر خود کو پاکستان کا بے تاج بادشاہ بلکہ شہنشاہ سمجھ بیٹھے ہیں۔حسینہ واجد نے بھی سینکڑوں شہریوں اور سیاسی حریفوں کو ویسے ہی غائب کروادیا تھا جیسے پاکستان میں ہزاروں افراد فوج کی دہشت گرد تنظیم، آئی ایس آئی، نے غائب کروادئیے ہیں۔ لیکن بنگال کی تاریخ حسینہ واجد کو یاد نہیں رہی تھی کہ وہاں تو فرنگی راج اور فسطائیت کے خلاف بقیہ ہندوستان سے ایک صدی پہلے، 1757ء میں پلاسی کے میدان میں علمِ احتجاج کھل گیا تھا اور اگرچہ پلاسی کی جنگ میں نواب سراج الدولہ کو اپنے غدار سپہ سالار، میر جعفر کی ملت فروشی کے سبب شکست کا سامنا کرنا پڑا اور فرنگی کامیاب رہے لیکن بنگال کے باسیوں میں حریت کا جذبہ ٹھنڈا نہیں پڑا۔ وہ بیدار رہا اور اسی بیداری نے 1906ء میں ڈھاکہ میں مسلم لیگ کو جنم دیا۔
تو بنگلہ دیش کے غیور عوام نے، جن کی رگوں میں حریت اور آزادی کا گرم لہو آج بھی ویسے ہی دوڑ رہا ہے جیسے پلاسی کی جنگ میں دھائی سو برس پہلے دوڑ رہا تھا، حسینہ واجد کی فسطائیت کا تار و پود اُکھاڑ کے پھینک دیا اور یہ کارنامہ انہوں نے، خاص طور پہ ان کے جوانوں نے، ایک ڈیڑھ ماہ کے احتجاج کو بنیاد بناکے سر انجام دیا۔
ہم نے اپنا آخری کالم 4 اور 5 اگست کی درمیانی شب میں تحریر کیا تھا اور لکھتے وقت ہمیں کوئی گمان یا شد بد نہیں تھی کہ جب ہم اپنا کالم لکھ رہے تھے بنگلہ دیش کے عوامی احتجاج نے آمر حسینہ واجد کا تختہ الٹ کر اسے ملک سے فرار ہونے پر مجبور کردیا تھا۔ حسینہ واجد کی منزل ظاہر ہے کہ بھارت ہی ہوسکتی تھی کہ انہوں نے اپنے طویل اور ظالمانہ دورِ حکومت میں بنگلہ دیش کو نریندر مودی کا باجگذار اور طابع فرمان بنادیا تھا اور مودی سرکار ان کے اس کارنامے پر بہت خوش تھی۔
حسینہ واجد نے اپنے خلاف احتجاج کو فوج کی مدد سے کچلنے کا سوچا تھا لیکن بنگلہ دیش کی غیور اور ملت دوست فوج اور اس کے افسروں نے اپنے عوام کے سینوں پر گولی چلانے سے صاف انکار کردیا!
یہی تو سب سے بڑا فرق ہے غیور بنگلہ دیش اور سوئے ہوئے پاکستان میں۔ وہاں فوج اپنے شہریوں کواپنا سمجھتی ہے انہیں مقبوضہ عوام یا قوم نہیں گردانتی جبکہ پاکستانی جرنیلوں کی وردیوں پر سجے ہوئے تمغے صرف اور صرف اپنے عوام کو کچلنے اور غلام بنانے کی گواہی دیتے ہیں۔
ہمارے طالع آزما جرنیلوں کا اپنے عوام کے ساتھ رویہ اور سلوک تو من و عن وہی ہے جو فرنگی راج میں رائج تھا۔ ہندوستانیوں کو وہ حقیر سمجھتے تھے، ان کے نزدیک ہندوستانی عوام ان کی رعایا تھے، غلام تھے لہٰذا ان کا سلوک وہی تھا جو غلاموں کے ساتھ ہوتا ہے۔
فرنگی جرنیلوں کا رویہ سمجھ میں آتا ہے، اس کی منطق کا جواز تھا کہ وہ غیر ملکی تھے، سامراج کے نقیب اور پہریدار تھے لیکن پاکستان کے فرعون صفت اور یزید خصلت جرنیل تو اسی مٹی کی پیداوار ہیں جس نے پاکستانی قوم کو جنم دیا ہے۔ پھر ان کی فرعونیت کا کیا جواز ہے؟
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ ہمارے جرنیلوں کی چمڑی تو سفید نہیں ہے لیکن سوچ اور ذہنیت وہی ہے جو فرنگی راج کے چودہریوں کی تھی۔
وہ جسے میں نو آبادیاتی نظام کا سب سے کامیاب مفکر سمجھتا ہوں، لارڈ میکالے، اس نے یہی درس تو دیا تھا فرنگی راج کے ابتدائی دور میں کہ ہندوستان میں ایک طبقہ یا کلاس ایسی پیدا کرو جس کی سوچ ہم ، یعنی فرنگی، جیسی ہو تاکہ ہم ان کے ذریعہ سے اتنے بڑے ملک پر راج کرسکیں۔
تو پاکستان میں وہی فرنگی ذہنیت اور سوچ کام کر رہی ہے۔ عاصم منیر اور اس کا یزیدی ٹولہ پاکستان کو اپنا مقبوضہ سمجھتا ہے۔ اس کے سیاسی گماشتے پنجاب کی یونینسٹ پارٹی کی یاد دلاتے ہیں جو مسلمان جاگیرداروں اور ہندو بنیوں کی جماعت تھی اور پنجاب پر فرنگی راج کی نگہبان تھی 1946ء تک جب قائدِ اعظم کی قیادت میں مسلم لیگ نے انتخابی معرکہ میں اس کا جنازہ نکالا تھا۔
بنگلہ دیش کے عوام نے ایک فسطائی حکمران اور اس کے فسطائی نظام کو جڑوں سے اکھاڑ کر پھینک دیا اور صحیح معنوں میں اپنے ملک میں عوامی راج قائم کرلیا ہے۔
بنگلہ دیش کے حریت پسند اور حریت پرست پاکستانی عوام کو آئینہ دکھا رہے ہیں کہ دیکھو اس میں تمہیں اپنے خد و خال نظر آجائینگے۔ تم نے کن ظالموں کو اپنے اوپر مسلط ہونے کا موقع دیا ہوا ہے جو تمہاری زبانیں بند کر رہے ہیں اور تم کچھ نہیں بولتے، کچھ نہیں کرتے؟
یہ فسطائی تمہاری ماؤں، بیٹیوں اور بیویوں کو ننگے سر سڑکوں پر گھسیٹ رہے ہیں اور تمہاری غیرت کو جوش نہیں آتا۔ کیوں؟
انہوں نے میڈیا کا گلا گھونٹ دیا ہے، سوشل میڈیا کو یزید عاصم منیر دہشت گرد کہہ رہا ہے اور تم یہ سب خرافات خاموشی سے سن رہے ہو اور کچھ نہیں کہتے؟
تمہارے ملک میں انٹرنیٹ پر طرح طرح کی پابندیاں لگی ہیں لیکن تمہاری جانب سے نہ کوئی آواز اٹھتی ہے نہ کوئی احتجاج ہوتا ہے، ایسا کیوں؟
تمہارا چیف جسٹس کھلے بندوں یزیدی طاقت کا ساتھ دے رہا ہے، اس کا ہمنوا اور نقیب ہے لیکن تم اسے برداشت کئے جارہے ہو۔ دیکھو ہمارا چیف جسٹس بھی ایسا ہی تھا، حسینہ واجد کا غلام لیکن ہم نے اسے چوبیس گھنٹے کے نوٹس پر مستعفی ہونے پر مجبور کردیا۔ وہ بھی شریف تھا کہ اس نے اس مدت کے ختم ہونے سے پہلے استعفی دے دیا جبکہ تمہارا بے شرم اور بے غیرت چیف جسٹس مسلسل تمہارے سینوں پر مونگ دل رہا ہے اور تمہارے حلق سے آواز تک نہیں نکلتی۔ کیوں؟
پاکستانی قوم کو اس آئینہ میں جو ان کے بنگلہ دیشی بھائیوں نے ان کے سامنے رکھ دیا ہے اپنے خد و خال کو دیکھنا بھی ہوگا اور ان تمام سوالوں کے جواب بھی دینے ہونگے جو بنگلہ دیشی عوام پوچھ رہے ہیں۔ آخر کب تک پاکستانی عوام صحرا کے اونٹ کی طرح ریت کے تودے میں اپنا منہ چھپائے رہینگے اس آس پر کہ جس طوفان نے ان کے آگے بڑھنے کی راہ مسدود کی ہوئی ہے وہ خود ہی اڑجائے گا؟
ارشد ندیم نے پیرس اولمپکس میں ملک کیلئے چالیس برس بعد طلائی تمغہ جیت کر بھی قوم کو ایک طرح سے آئینہ دکھایا ہے کہ اس نے اپنی لگن، اپنی محنت سے یہ کارنامہ سر انجام دیا اس کے باوجود کہ سرکار کی طرف سے اسے کوئی سرپرستی حاصل نہیں تھی۔ اس غریب کے پاس تو نیزہ خریدنے کیلئے بھی پیسے نہیں تھے۔ اب حکومتی گماشتے یہ کہہ رہے ہیں کہ پیرس جانے کیلئے اسے دو کڑوڑ روپے دئیے گئے تھے جبکہ بھارت کی حکومت نے اپنے جیولن کے جوان، نیرج چوپڑا پر 19 کڑوڑ صرف کئے ہیں۔
ہم نے کھلاڑی تو گنتی کے سات (7) بھیجے لیکن ان کی رکھوالی کے نام پر اکیس (21) سرکاری مفت خورے ساتھ میں گئے جن میں رسوائے زمانہ رانا ثناء بھی بیگم کے ہمراہ تھا اور وہ سرکار کے خزانے کو لٹاتے ہوئے پیرس سے وینس کی سیاحت کیلئے بھی اس تاریخی شہر کو آلودہ کرنے وہاں پہنچ گیا۔
بنگلہ دیش کے غیور عوام نے پندرہ برس صبر کرنے اور ایک ظالم فسطائی حکومت کو برداشت کرنے کے بعد اپنے گلے سے اس کی غلامی کا طوق اتار پھینکا۔ پاکستانی قوم ستر برس سے اپنے وردی پوش آمروں اور ان کے سیاسی گماشتوں اور شعبدہ بازوں کو سر پہ بٹھائے ہوئے ہے۔ اس میں تاریخی عوامل کا دخل تو سمجھ میں آتا ہے لیکن کیا بنگلہ دیش کے عوام اور پاکستانی عوام میں حریت اور غیرت کا فرق بھی شامل ہے؟
ہم تو اپنے ان چار مصرعوں میں اس بحث کو سمیٹتے ہوئے کہتے ہیں:
حریت کیا ہے سبق سیکھو یہ بنگلہ دیش سے
ظلم سے طاغوت سے ممکن رہائی کیسے ہو
سر قلم کردو ہر اک ظالم کا جتنی جلد ہو
اپنی آزادی کا پرچم کھولنا پھر ایسے ہو!

kamran