ہفتہ وار کالمز

امن کا نوبیل پرائز فیلڈ مارشل کی گلے کی ہڈی بن گیا!

مشہور کہاوت ہے کہ زبان سے نکلا ہوا لفظ اور کمان سے نکلا ہوا تیر واپس نہیں آتا۔ کچھ ایسی ہی صورتِ حال کا سامنا اس وقت ہمارے ملک کے خود ساختہ فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر اور جعلی حکومت کو ہے۔ پچھلے ہفتے جب جنرل سید عاصم منیر شاہ امریکہ آئے ہوئے تھے، واشنگٹن میں دو ایونٹس ساتھ ساتھ ہورہے تھے۔ ایک طرف امریکن آرمی کی تقریب میں فیلڈ مارشل صاحب شرکت کررہے تھے تو دوسری طرف پورے امریکہ سے آئے پاکستانی نژاد امریکی شہری اور تحریک انصاف کے امریکہ میں مقیم ہزاروں افراد ،پاکستان کے امریکہ میں سفارت خانے کے باہر پرجوش نعروں اور لعنتی نعروں اور پلے کارڈز کے ساتھ جنرل صاحب کے خلاف مظاہرہ کررہے تھے۔ سننے میں آرہا ہے کہ جنرل صاحب کی ملاقات صدر ٹرمپ کیساتھ اس شرط پر کرائی گئی تھی کہ وہ ٹرمپ کے ساتھ ملاقات میں چاپلوسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ سرپرائز دیں گے کہ پاکستانی حکومت امن کیلئے پریزیڈنٹ ٹرمپ کی بے پایاں خدمات کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کی امن کے نوبیل پرائز کیلئے نامزد کریں گے۔ جب سے صدر ٹرمپ نے دوسرے دور اقتدار کو سنبھالا ہے ان کی دلی خواہش ہے کہ کوئی ان کو امن پرائز کے لئے نامزد کرے، یعنی ایک طرح کا ٹریڈ آف ہو گا۔ ایک طرف فیلڈ مارشل کی صدر ٹرمپ کیساتھ ملاقات کی خواہش بھی پوری ہو جائے گی تو دوسری طرف ٹرمپ کی نوبل امن کی نامزدگی کی خواہش پوری ہو جائے گی۔ یاد رہے کہ یہ سب کچھ اس خوفناک اور خونریز صورت حال کے درمیان ہورہا تھا جب اسرائیل نے ایران پر جارحانہ حملہ کیا ہوا تھا اور ڈونلڈ ٹرمپ کی مکمل آشیرباد کیساتھ وہ ایران پر بڑھ چڑھ کر حملے کر کے کبھی ایرانی فوج کے کمانڈروں کو مار رہا تھا اور کہیں ایران کے سائنسدانوں کو قتل کررہا تھا۔ اس کے علاوہ ٹرمپ کی مکمل سپورٹ کیساتھ اسرائیل غزہ میں مسلسل بمباری کررہا تھا۔ اس ٹرمپ، منیر ملاقات سے پہلے تک امریکہ نے براہ راست اس جنگ میں حصہ لینے کا اعلان نہیں کیا تھا، کہتے ہیں کہ ایک پلان انسان بناتا ہے اور ایک پلان اللہ کا ہوتا ہے۔ جس دن عاصم منیر کے کہنے پر حکومت پاکستان نے سرکاری سطح پر صدر ٹرمپ کی نوبل امن انعام کیلئے نامزدگی کا اعلان کرتے ہوئے لیٹر روانہ کیا اور دوسرے ہی دن ٹرمپ نے ایران کیخلاف جنگ کا اعلان کرتے ہوئے ایران کی تین جوہری تنصیبات فردو، اصفہان اور نطنز پر حملہ کر کے ہزاروں ٹن وزنی بم گرا دئیے۔ یعنی ایک طرف پاکستانی کے نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے ریاست پاکستان کی جانب سے ناروے میں نوبل انعام کی کمیٹی کو صدر ٹرمپ کی نامزدگی کا خط رولز کیا تو دوسری جانب ٹرمپ نے ایران پر حملہ کرنے کیلئے اپنے B-52روانہ کر دئیے۔ اس شرمناک نامزدگی کی شرمندگی پر پاکستان پوری دنیا میں اپنا لال چہرہ لے کر شرم اور ندامت کا سامنا کرتا رہا اور آج تک کررہا ہے۔ اسی دوران پاکستان میں ایران کے سفیر رضا امیری مقدم صدر ٹرمپ کے ایران پر حملے کے حوالے سے پریس کانفرنس کررہے تھے تو نوبل انعام کے لیٹر کے حوالے سے کیے گئے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ اگر پاکستان نے ٹرمپ جیسے حملہ آورجنگجو کو امن کے انعام کیلے نامزد کیا ہے تو اس انعام کیلئے حقدار کون ہوگا۔ یعنی فیلڈ مارشل جنرل سید عاصم منیر شاہ نے چاپلوسی کی انتہا کرتے ہوئے اور جلد بازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پوری دنیا میں پاکستان کو ندامت سے دوچار کر دیا۔ پھر جب پاکستان کے لاء میکرز نے یہ خط واپس لینے کا مطالبہ کیا تو وہ بھی نہیں مانا گیا کیونکہ اگر پاکستان وہ لیٹر اور نامزدگی واپس لیتا تو صدر ٹرمپ کیلئے نہایت خفت اور شرمندگی کا باعث ہوتا۔ لہٰذا جنرل صاحب کے گلے میں یہ ہڈی ایسی پھنس گئی کہ نہ نگل سکتے ہیں نہ اُگل سکتے ہیں۔ اسی لئے کہتے ہیں کہ تعلیم انسان کو بہتر سوچنے اور سمجھنے کی صفت عطا کرتی ہے مگر حافظ جی تو ہائی سکول سے آگے پڑھ ہی نہ سکے اور سیدھا اور ٹی سی میں بھرتی ہو گئے۔ اپنی اس کم علمی، تعلیم کے فقدان، نیچی گھٹیا اور سطحی سوچ اور خوشامدی رویے کے باعث نہ صرف ایرانی ریاست، قیادت اور عوام کے سامنے پاکستان کا سر جھکا دیا بلکہ پوری دنیا میں ملک کی بدنامی ہوئی۔ چلیں ہمیں اس ذہنی طور پر مفلوج فیلڈ مارشل کی خجالت کی تو اتنی پراہ نہیں افسوس اس بات کا ہے کہ اس شخص نے دنیا کی پانچویں بڑی پاکستانی فوج کو بھی شرمسار کر دیا، یقینا ہمیں اپنی فوج سے بہت پیار ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button