اک نیا کوفہ ہے پاکستان اب !

جنوبی ایشیا کے دو پہلوانوں، پاکستان اور بھارت، کے درمیان نورا کشتی کا پہلا مقابلہ پاکستان نے جیت لیا !نورا کشتی کا ریفری ظاہر ہے کہ چچا سام کے علاوہ اور کون ہوسکتا تھا۔ پاکستان کے نام نہاد محافظ جرنیل تو آج سے نہیں پچھلی سات دہائیوں سے چچا سام کے بے دام غلام ہیں، یہ الگ بات ہے کہ چچا کبھی کبھار ترنگ میں آکے، خاص طور پہ جب انہیں اپنے پاکستانی غلاموں سے کوئی کام لینا ہوتا ہے تو، ان کے کشکولِ گدائی میں امداد کے چند سکےڈال دیتے ہیں اور غلام فخر سے پھولے نہیں سماتے۔ بھارت چچا سام کی بھیک کا محتاج نہیں لیکن اس کے پردھان منتری، مودی، کو یہ غلط فہمی ہوگئی تھی کہ بھارت دنیا کی ایک بڑی طاقت بننے جارہا ہے لہٰذا اس زعم میں اس نے چچا سام سے پینگیں بڑھانا شروع کیا اور ٹرمپ سے مودی کا قارورہ مل گیا اور دونوں میں گاڑھی چھننے لگی۔ اپنی مفروضہ طاقت اور ٹرمپ سے اپنے خصوصی بندھن کے نشہ میں مودی سرکار نے اپنے مقبوضہ کشمیر میں اپنے ہی سیاحوں کا خون بہاکے جو ڈرامہ لگایا تھا اس میں پاکستان کیلئے یہ کردار مودی کے عیار دماغ نے سوچا کہ اس خونی ڈرامہ کا الزام پاکستان پر لگادیا اور پھر دنیا بھر میں اپنا پسندیدہ واویلا مچایا کہ پاکستان حسبِ روایت دہشت گردی کی سرپرستی کر رہا ہے۔ مودی کو یہ خوش فہمی تھی کہ اس کا رچایا ہوا ناٹک دنیا بھر میں ہٹ جائے گا اور مغربی دنیا، جو بھارتی جمہوریت کی بہت دلدادہ اور مداح ہے بے چون و چرا بھارتی الزام کو تسلیم کرلے گی! مودی نے یہ اہتمام بھی کیا تھا کہ یہ ناٹک اس وقت رچایا جائے جب بھارت کے داماد، امریکی نائب صدر وانس اپنی ہندو پتنی کے ساتھ بھارت کے دورے پر تھے۔
بھارتی داماد وانس نے بھی اپنا کردار ناٹک میں یوں ادا کیا کہ وہ جاتے جاتے مودی سرکار کو یہ پروانہء اجازت دے گئے کہ بھارت پاکستان کے مبینہ دہشت گردوں کے خلاف محدود کارروائی کرسکتا ہے اور اپنے پاکستانی غلاموں کو یہ تاکید بھی کرگئے کہ وہ بھارت کے ساتھ تعاون کرے ! یہ اس کے باوجود تھا کہ وہ بذاتِ خود بھی پاکستان کے اس اصولی موقف سے اتفاق رکھتے تھے کہ پہلگام کے واقعہ کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کی جائے ! لیکن پاکستانی جرنیلوں کا انکل سام سے وفاداری اور عہدِ غلامی کا خمیر اتنا گاڑھا ہے، اور ہر دم تازہ بھی رہتا ہے، کہ انہوں نے بھرپور تعاون کیا۔
بھارت نے پاکستان میں ، مودی کے بقول، گھر میں گھس کر کارروائی کی۔ اسکے دعوی کے مطابق چھبیس (26) ٹھکانوں کو نشانہ بنایا لیکن پاکستانی افواج نے کوئی کارروائی نہیں کی، جواب میں انگلی بھی نہیں ہلائی بلکہ فوج کی تعلقات عامہ کے شعبہ کے ڈائرکٹر جنرل، احمد شریف جن کے چہرے پہ ہمیشہ ایسی لکیریں نمایاں نظر آتی ہیں جیسے دائمی قبض کے شکار ہوں، انہوں نے تو پاکستان کی زمیں جنبد نہ جنبد گل محمد جیسے رویہ کو یہ کہکرجواز دینا چاہا کہ پاکستان نے اپنے فضائی نظام کو محفوظ رکھنے کیلئے کوئی کارروائی نہیں کی! قربان جائیے ان کے اس استدلال کے۔ آپ اپنے گھر کے الارم کے نظام کو استعمال نہیں کرتے اس خام خیالی میں، بلکہ احمقانہ دلیل پر، کہ آنے والا چور کہیں اس کی خفیہ کوڈ نہ حاصل کرلے! ہمارے یزیدی جرنیلی ٹولہ کو یہ کامل یقین ہے، اور بلاوجہ نہیں ہے، کہ وہ جو بھی گولی مرض کے علاج کے طور پہ پاکستانی عوام کو پیش کرینگے عوام، اپنی سادہ لوحی یا حماقت میں، اسے بے
چون و چرا نگل لینگے۔ تو نورا کشتی کا پہلا راؤنڈ تو بھرتی پہلوان کے نام ہوا اور مودی سرکار کے میڈیا بھانڈوں نے چیخ چیخ کر اپنے حلق خشک کرلئے کہ انہوں نے پاکستان کو سبق پڑھادیا جو وہ ہمیشہ یاد رکھے گا! لیکن پاکستان میں، تمام تر فسطائیت کی بندشوں کے باوجود جو عوامی احتجاج کی دبی دبی چیخیں
بلند ہوئیں تو یزیدی ٹولہ کو ہوش آیا کہ ہوا کا رخ ان کے خلاف ہورہا تھا۔ ایسے میں عاصم منیر نے وہ جوا کھیلا جو اس کے حق میں پو بارہ ثابت ہوا ! یہ عاصم منیر مقدر کا سکندر ہے۔ اس نے دو بار ملٹری اکیڈیمی، کاکول میں تربیت پانے کیلئے امتحان دیا تھا لیکن دونوں بار ناکام رہا پھر اسے اس اسکول میں داخلہ مل گیا جہاں سے دوسرے درجہ کے امیدوار فوج کے کمیشن کیلئے قسمت آزما سکتے تھے اور اس طرح یہ فوج میں کمیشن حاصل کرسکا۔
پھر یہ اس سے پہلے کہ میر جعفر قمر باجوہ کے جانشین کا انتخاب ہونے والا تھا یہ فوج سے ریٹائرہوگیا لیکن گیدڑِ پنجاب نواز شریف اور دختر، جن کی شہرت گندی ویڈیوز بنانے کے حوالے سے برسوں پرانی ہے، کو ایک ایسے کٹھ پتلی سالار کی طلب تھی جو عمران خان کے خلاف ان باپ بیٹی کے فاسد جذبہء انتقام کو انتہا تک لیجائے۔ تو باپ بیٹی کے اس شیطانی، ابلیسی، ٹولہ کی نظرِ انتخاب اس عاصم منیر پر پڑی جو بذاتِ خود بھی عمران کیلئے بے انتہا بغض رکھتا تھا اور رکھتا ہے۔ سو یہ لندن میں باپ بیٹی کے قدموں کو بوسہ دیکر پاکستان کا سپہ سالارہوگیا اور منصب سنبھالتے ہی اس یزید نے عمران کے خلاف انتقامی اسکرپٹ پر تن من سے کام شروع کردیا۔ انکل سام کو ایسے بے ضمیر پاکستانی جرنیل بہت مرغوب ہیں۔ اسی لئے تو پرویز مشرف ان کی آنکھوں کا تارا تھا لیکن عاصم منیر بھی غلامی کے آداب سے خوب واقف ہے!
لیکن فطرت میں اس کی چونکہ ایک شاطر چھپا بیٹھا ہے لہٰذا اس نے عوام کے احتجاج کو اپنے مفاد میں استعمال کرنے کیلئے ایک تیر سے دو شکار کرلئے۔ خدا آباد رکھے چین کی مدد سے ہم نے جو جنگجو جہاز بنایا ہے اس کی ٹیکنالوجی فرانس اور امریکہ اور روس سب کے مقابلہ میں کہیں زیادہ کامیاب ہے اور پھر اللہ ہمارے پائلٹوں کو سدا سلامت رکھے اور ان کا حوصلہ شاہین کے مانند بلند رکھے انہوں نے جو بھارتی جہازوں کا ہلواڑہ بنایا ہے اور مودی سرکار کی شیخیوں اور بلند بانگ دعووں کا جو منہ توڑ جواب دیا ہے اس نے پاکستانی قوم کا سر فخر سے بلند کردیا! دس (10) مئی ہماری ملی تاریخ میں ایک بہت ہی اہم سنگِ میل ہے۔ یہی دن تھا جب، 1857ء میں میرٹھ چھاؤنی سے فرنگی سامراج کے خلاف مزاحمت کا آغاز ہوا تھا، جسے فرنگی شاطرنے غدرکا نام دیا لیکن ہماری جنگِ آزادی کا وہ پہلا بھرپور وار تھا۔ تو اسی دس (10) مئی کو ہمارے دلیر ہوابازوں اور شاہینوں نے بھارت کے فوجی ٹھکانوں کو تباہ کرکے دنیا کو دکھادیا کہ جنگ ہتھیاروں سے نہیں بلکہ حوصلے اور جذبے سے لڑی اور جیتی جاتی ہے۔
مودی سرکار کا جو منہ کالا ہوا تو انکل سام کو تشویش ہوئی کہ ان کا چیلا کہیں بالکل ہی بے لباس نہ ہوجائے۔ سو صدر ٹرمپ نے اپنے دونوں چیلوں سے کہا کہ بس، بہت ہوچکی، اب جنگ بند کردو۔ اور چیلے یا غلام اتنے مرعوب ہیں اپنے آقائے نامدار سے کہ دونوں نے فوری اسے قبول کرلیا اور یوں نورا کشتی کا اختتام ہوا۔ نورا کشتی کا پہلا راؤنڈ بھلے مودی نے جیت لیا ہو لیکن دوسرے راؤنڈ میں جو کالک مودی کے غلیظ اور کریہہ چہرے پر ملی گئی ہے وہ ایسی ہے کہ چھٹائے نہیں چھٹے گی! مودی میں اگر کوئی حیا، کوئی شرم یا غیرت ہوتی تو اب تک اسے استعفٰی دے دینا چاہئے تھا لیکن چمار اس مقولہ پر کاربند رہتا ہے کہ دوچار تھپڑوں سے کہاں عزت جاتی ہے اور دس بیس کوئی مارتا نہیں! لیکن بھارت میں وہ غیر جانبدار اور صحیح العقل تبصرہ نگار جنہیں اندازہ ہے کہ بھارت کی کیسی جگ ہنسائی ہورہی ہے وہ البتہ مودی کو شرم دلا رہے ہیں لیکن مردِ ناداں پر کلامِ نرم و نازک بے اثر اصل فائدہ تو پاکستان کے یزیدِ وقت اور فرعون عاصم منیر کا ہوا ہے۔ اس کی تو اس فتح کے بعد پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑھائی میں چلاگیا ہے ! مودی نے یہ سوچا تھا کہ وہ ناٹک رچاکے ایک تیر سے دو شکار کرلے گا لیکن عاصم منیر نے بھارتی سینا کے خلاف جو کارروائی کی اس نے یقیناًایک تیر سے دوشکار کرلئے!
طالع آزما عاصم منیر کا ستارا یوں اور عروج پہ چلا گیا ہے کہ پاکستانی قوم اپنی اس فطرت کو بدلنے سے کوتاہ ہے کہ یہ ہرطالع آزما کیلئے بھانڈ بن جاتے ہیں اور اس کی تعریف میں جاہلوں کی طرح بھنگڑے ڈالنے لگتے ہیں۔ یزیدی جرنیل اپنی قوم کی اس کمزوری سے خوب واقف ہیں اور کیوں نہ ہوں کہ ستر برس سے قوم کے سینے پر مونگ دلتے آئے ہیں۔ وہ عوام کی اس فطری کمزوری سے اپنے حق میں خوب فائدہ اٹھاتے ہیں اور کیوں نہ اٹھائیں کہ عوام کا حافظہ انتہائی کمزور ہے اور انہیں یہ یاد ہی نہیں رہتا کہ یہی جرنیل ہیں جنہوں نے تاریخ رقم کی تھی جب نوے ہزار فوجیوں نے بھارتی سینا کے آگے ہتھیارڈال کر قوم کا سر شرم و ندامت سے خم کردیا تھا! عوام کو تو اپنے جنون میں یہ بھی یاد نہیں کہ یہی یزیدی ٹولہ ہے جس نے ان کے جمہوری حق پر ڈاکہ ڈالا تھا۔ انہیں تو یہ بھی ہوش نہیں کہ یہی ٹولہ ان کے انسانی حقوق کو اپنے بوٹوں تلے روندتا آیا ہے اور آج بھی روند رہا ہے! عوام کو تو یہ بھی یاد نہیں رہا کہ ان کا محبوب لیڈر عمران خان آج بھی جیل کی سلاخوں کے پیچھے قید ہے اور عاصم منیر اور اس کے یزیدی گروہ کے انتقام کی آگ میں جل رہا ہے۔ آج پاکستان کا نقشہ من و عن وہی ہے جو امامِ عالی مقام، سید الشہداء، امام حسین کے وقتِ ابتلا میں کوفہ کا تھا۔ اس وقت کے شاعرِ بیمثال فرزدق نے وہ تاریخی کلمہ کہا تھا جو آج کے پاکستانی عوام پر سو فیصد صادق آتا ہے۔ اس کا قول تھا کہ کوفہ والوں کے دل حسین کے ساتھ ہیں لیکن تلواریں یزید کے ساتھ ! آج کے کوفہء پاکستان کے باسیوں کے دلوں میں عمران بستا ہے لیکن ان کی زبانیں یزید عاصم منیر اور اس کے ملت فروش ٹولہ کے حق میں نعرے لگارہی ہیں، ان کی تعریف و توصیف میں رطب اللسان ہیں! یہ فعل ، یہ کردار، اسی بصیرت سے محروم قوم کا ہوسکتا ہے جس کی آنکھیں وقت کے چمکتے سورج نے چندھیادی ہوں اور وہ جوش کے بادلوں کے پیچھے چھپی ہوئی تاریکی کو دیکھنے کا ہوش کھوچکی ہو۔ ایسی ناعاقبت اندیش قوم کے مستقبل کیلئے فاتحہ ہی پڑھی جاسکتی ہے اور کیا! یہ چار مصرعے ہمارے اسی کے عکاس ہیں:
اک نیا کوفہ ہے پاکستان اب
بارآور ہر یزیدی چال ہے
اوج پر ہے بختِ طالع آزما
قوم پسماندہ ہے اور بدحال ہے !