ہاؤس اریسٹ پاکستان !

آپ نے یہ کہاوت تو سنی ہی ہوگی، کس نے نہیں سنی، کہ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے۔ وہ چل نہیں سکتا اگرچہ جھوٹ کے بیوپاری اور ساہو کار یہ گمان رکھتے ہیں کہ ان کے جھوٹ کا سکہ بازار میں ہمیشہ چلتا رہے گا اور ہر بازار میں چلے گا!لیکن ایسے فاتر العقل لوگوں نے جن کی پوری زندگی جھوٹ کے سہارے چلتی ہے اور سدا اسی کی مرہونِ منت رہتی ہے اس قولِ صادق پر ایمان نہیں رکھتے کہ تم کچھ لوگوں کو ہمیشہ اپنے سحر میں مبتلا رکھ سکتے ہو، سب کو کچھ وقت کیلئے اپنا شکارکرسکتے ہو لیکن تمام دنیا کو ہمیشہ اپنا گرویدہ اور غلام نہیں رکھ سکتے۔ہمارے جرنیل، بلکہ ان ہوس گزیدہ جرنیلوں کا غاصب اور یزیدی ٹولہ جو عمران خان کو اقتدار سے محروم کرنے کے بعد سے ملک اور قوم کو اپنا یرغمالی بنائے ہوئے ہیں، عقل و دانش سے بے بہرہ ہیں اور علم کی کمی کے سبب ان کی نظر میں تاریخ کا یہ سبق بھی نہیں کہ کفر و طاغوت کی حکومت ہمیشہ جھوٹ و افتراء کی بیساکھیوں پر نہیں چل سکتی اور جلد یا بدیر اس کے ڈھول کا پول کھل جاتا ہے۔
لیکن غاصب کی عقل پر پردے یوں پڑجاتے ہیں کہ اسے سچ دکھائی ہی نہیں دیتا اورجب سچ اس کی نظر سے دور ہوجائے تو وہ ظلم کا سہارے اپنے اقتدار اور کرسی کو محفوظ رکھنے کیلئے ظلم پر ظلم کرتا چلاجاتا ہےاور یوں وہ قدرت کے اس لاابدی اور لازمی اصول کی تصدیق کرتا ہے کہ قدرت ہر ظالم کی قبر اس کے اپنے ہاتھوں سے کھدواتی ہے۔اور میرے مولا علی کا یہ قولِ صادق ہر ظالم کے ضمن میں سچ ہی رہتا ہے کہ کفر کی حکومت چل سکتی ہے لیکن ظلم کی حکومت کی حیات مختصر ہوتی ہے !
اسلام آباد میں ملک کے معروف دانشور اور تخلیق کار انور مقصود کا لکھا ہوا اسٹیج ڈرامہ،’’ہاؤس اریسٹ‘‘ چاردن تک دکھایا جاتا رہا لیکن پانچویں دن اس پر پابندی لگادی گئی۔ کیوں؟
انور مقصود ہمارے جامعہء کراچی کے رفیق ہیں اور ہم انہیں اس وقت سے جانتے ہیں جب وہ ایک طالبعلم تھے اور پاکستانی معاشرے کے سپر اسٹار نہیں بنے تھے۔ ان کی مزاح نگاری کا انداز اچھوتا ہے جو جرنیلوں کی موٹی عقل میں آسانی سے نہیں اترتا۔ یہی وجہ ہے کہ انور کا بھگو بھگو کے مارنا فسطائی دماغ کے مالک کی فہم کی گرفت میں دیر سے آیا لیکن جب آگیا یا کسی مشیر نے یزیدی ٹولے کو یہ باور کروایا کہ انور مقصود ان کی فسطائیت اور طاغوت پر اپنے اچھوتے اور منفرد انداز سے تازیانے برسارہے ہیں تو یزید عاصم منیر کے طاغوتی حکم پر اس اسٹیج ڈرامے کو جاری نہ رکھنے کا حکمنامہ صادر ہوگیا!انور مقصود کا ڈرامہ دو ایسی بزرگ بہنوں کے گرد گھوم رہا تھا جنہیں بڑی بہن کے لالچی بیٹے اور اتنی ہی حریص بہو کی لالچ ان کے اپنے گھر میں قید کردیتی ہے!
یزیدی ٹولہ کے مشیروں نے اسے یہ بتایا ہوگا کہ دو بزرگ بہنیں اپنے ہی پالے بیٹے اور بہو کی حرص و طمع کے ہاتھوں اپنے ہی گھر میں قید ہوجانے کا استعارہ من و عن پاکستان اور پاکستانی قوم کی سو فیصد درست اور چھبتی ہوئی منظرکشی ہے کہ جو ملک اور قوم اس فوج کی قیادت کے ہاتھوں ملک میں قید ہوکر، گُھٹ گُھٹ کر زندگی گذارنے پر مجبور ہے جسے وہ اپنا پیٹ کاٹ کر پال رہی ہے اس خیال سے کہ وہ پاکستانی قوم کے گھر، پاکستان، کی سلامتی کی ضامن ہوگی لیکن عسکری قائدین کی لالچ اور ہوسِ ملک گیری کے ہاتھوں اپنے ہی گھر میں، اپنے ہی وطن میں، قید ہوکر رہ گئی ہے !
ظالم جاہل بھی ہوتا ہے اور بزدل بھی اور اپنی ان دونوں کمزوریوں کو وہ ڈنڈے کے زور پہ دَبانے کی کوشش میں ظلم پہ ظلم کئے جاتا ہے اور بہت جلد اس کے پاپوں کی ناؤ اتنی بھرجاتی ہے کہ ڈوبنے کے سوا اس کا اور کوئی انجام ناممکن ہوجاتا ہے !
پاکستان کو اپنی جاگیر سمجھنے والے جرنیلی ٹولہ کا سرغنہ، یزید عاصم منیر، بھی اس جنون میں مبتلا ہے کہ اس کی فسطائیت کا راج ہمیشہ چلتا رہے گا، ہمیشہ جاری رہے گا، اور اس کے جہل کایہ عالم ہے کہ اپنے حافظِ قرآن ہونے کا دعویٰ لگ رہا، قرآن کے حوالے بھی جو وہ دیتا ہے غلط ہوتے ہیں لیکن ہر یزید اور ہر فسطائی کی طرح ان موصوف کو بھی یہ زعم ہوگیا ہے کہ ان کے منہ سے نکلا ہوا ہر لفظ حرفِ آخر ہے اور اسے، نعوذ باللہ، قرآنی اور خدائی حکم کا درجہ اور مرتبہ حاصل ہے۔ابھی حال ہی میں انہوں نے ان جاہل و نادان بیرونِ ملک پاکستانیوں کی ایک بھیڑ اسلام آباد میں جمع کی تھی۔ بیرونِ ملک پاکستانیوں کا ہنرمند اور باشعور، پڑھا لکھا ہر ایک فرد عمران خان کا مداح اور حمایتی ہے تو یزیدی ٹولہ کو بیرونِ ملک پاکستانیوں کی اس غالب اکثریت سے جو عمران خان کے ساتھ ہے اسلئے پرخاش ہے کہ عمران پاکستان کو ایک آزاد اور اپنے پیروں پر کھڑی ہوئی جمہوریت بنانا چاہتا ہے جبکہ پاکستانی جرنیل ستر برس سے امریکی سامراج کے غلام رہے ہیں اور آج بھی پوری تندہی سے سامراجی ایجنڈے پر کاربند اور عمل پیرا ہیں۔سو اپنے حلقہ بگوش بیرونِ ملک پاکستانیوں کو سرکار کے خرچ پرپاکستان بُلانے کے پس پردہ یہ باطل کوشش تھی کہ دنیا کو یہ باور کروایا جاسکے کہ بیرونِ ملک پاکستانی فسطائی ٹولہ کے حامی اور حمایتی ہیں۔ جہلاء کے اس کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے یزید عاصم منیر نے بلوچستان کے عوامی احتجاج اور بے چینی کا ذکر کرتے ہوئے فرعونیت کے ساتھ یہ بڑلگائی کہ یہ "دہشت گرد” اگر دس جنم بھی لے لیں تو ان کی نسلیں پاکستان کا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گی!فسطائی رویہ یہ ہے کہ جو اس کے طاغوتی ایجنڈا سے اختلاف کرے وہ ملک کا غدار اور دہشت گرد ہے۔ اور یہ اس فوج کا نظریہ ہے جس کا پاکستان بنانے میں کوئی کردار نہیں تھا بلکہ غیر منقسم برطانوی ہند کی دیسی فوج تو تقسیم کے بعد بھی تاجِ برطانیہ اور سامراج کی وفادار رہی تھی۔اور نسلیں بدل دینے کا خناس بھی پاکستانی جرنیلوں کا پرانا مرض ہے۔
وہ جنرل نیازی، جو بزعمِ خود "ٹائیگر” تھا لیکن بزدلی میں چوہا تھا، اس نے بھی 1971ء کے مشرقی پاکستان کے بنگالیوں کی نسل بدل دینے کا نعرہء مستانہ لگایا تھا۔ وہ تو اپنی نسل بھی نہ بچاسکا لیکن جن کی وہ نسل بدلنے کی دھمکی دے رہا تھا انہوں نے قائد کے پاکستان کا نقشہ ضرور بدل دیا !
اب عاصم منیر کو یہ جنون ہے کہ وہ بلوچستان کے عوام کے جائز حقوق کو اپنے فوجی بوٹ کے تلے مسل دے گا اور بلوچی حریت پسندوں کی آواز کو بندوق کے دھوئیں میں تحلیل کردے گا۔ویسے ان دنوں یزید کا ستارہ عروج پر ہے ۔ نہیں، اسلئے نہیں کہ قدرت اس ظالم یزید کا ساتھ دے رہی ہے بلکہ سچ یہ ہے کہ قدرت اس یزید کی قبر بھی اس کے اپنے ہاتھوں کھدوا رہی ہے۔ آپ نے یہ تو سنا ہوگا کہ پانی میں ہاتھ پیر مارنے والے ڈوبتے ہوئے فرد کو پانی ایک بار اچھالتا ضرور ہے لیکن اس کے بعد اُسے ڈبودیتا ہے۔تو مودی سرکار نے، جو جمہوریت کی قبا کے پیچھے چھپی ہوئی اتنی ہی فسطائی ہے جتنی پاکستان کی کھلی ہوئی فسطائیت، جو یہ پہلگام میں دہشت گردی کا خونی ڈرامہ رچایا ہے اس کا سب سے زیادہ، اگرچہ عارضی، فائدہ تو یزیدی ٹولہ کو ہوا ہے۔اب ملک میں وہی ماحول پیدا کرنے کی ہر ممکن کوشش ہورہی ہے جو 1965ء میں بھارتی جارحیت کے وقت پیدا ہوا تھا لیکن اس وقت پاکستان کے عوام دل و جان سے فوج کے شانہ بشانہ کھڑے تھے اسلئے کہ فوج کی منافقت کا پول ان پر اس وقت نہیں کھلا تھا۔ لیکن آج، ساٹھ برس بعد عوامی تائید و حمایت کا فقدان ہے اور اسلئے ہے کہ یزیدی جرنیلوں کے چہروں کے نقاب اتر چکے ہیں اور ہر جرنیل، یزیدی ٹولہ کا ہر رکن، عوام کے سامنے بے لباس ہے۔!
تاریخ کا یہ لاابدی سبق ہے کہ دنیا کی کوئی فوج اپنے مشن میں کامیاب نہیں ہوتی اگر عوام اس کی پشت پر نہ کھڑے ہوں۔ دور کیوں جائیے مشرقی پاکستان کی مثال ہمارے سامنے ہے کہ جہاں عوام کی اکثریت جنرل یحییٰ اور اس کے استبدادی ٹولہ کے ساتھ نہیں تھی لہٰذا پاکستان کی افواجِ قاہرہ کو وہ تاریخی شکست اٹھانی پڑی جس کے بعد اگر ہماری عسکری قیادت میں حیا یا شرم ہوتی تو وہ دوبارہ وہ حماقتیں نہ کرتے جو پاکستان کے دولخت ہونے کا سبب بنی تھیں۔لیکن مشکل یہ ہے کہ ہوس نے ہمارے یزیدی جرنیلوں کی آنکھوں پر وہ جالے بُن دئیے ہیں کہ جس کے پار انہیں کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ ہمارے بزدل جرنیلوں کی جہالت اور گھمنڈ نے انہیں ساون کے اندھے بنادیا ہے جسے ہر طرف صرف ہرا ہی ہرا ہر طرف نظرآتا ہے۔ لیکن ہریالی کی خوگر آنکھیں اس اندھیرے کو دیکھنے سے قاصر رہتی ہیں جو ہریالی کے پردے میں ان کے اور قوم کے نصیب پر بربادی کی مہر لگانے والا ہے !مودی جو بھارت کی سیکیولر جمہوریت کے دنیا میں مشہور عمارت کی ایک ایک کرکے ہر اینٹ نکال رہا ہے، اپنی فسطائیت سے، اس نے یہ چال چلی تھی کہ پہلگام کا ڈرامہ رچاکر وہ ایک تیر سے بہت سے شکار کرلے گا۔
ایک طرف پاکستان پر اس دہشت گردی کا ملبہ گرا کر وہ اپنے روایتی حریف کو دنیا میں اچھوت بنادے گا تو دوسری طرف اپنی ڈوبتی ہوئی ناؤ کو بہار کے آنے والے عام انتخابات میں بھرپور سہارا دے سکے گا۔لیکن ہوا وہ جو مودی جیسے عیار نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔مودی نے تو اپنا شیطانی تیر ایسے وقت میں چلایا تھا جب بھارت سرکار کے امریکی داماد، امریکی نائب صدر جے ڈی وانس اپنی بھارتی نژاد پتنی کے ساتھ بھارت کے دورے پر تھے لیکن داماد وانس نے ہی بھارتی اسکرپٹ کو قبول کرنے سے یہ کہہ کر رد کردیا کہ پاکستان کے خلاف اگر کوئی ثبوت ہے تو سامنے لایا جائے!یہی رویہ بھارت نواز مغربی ممالک کا بھی ہے۔ ان کا بھی یہی کہنا ہے کہ ثبوت پیش کئے جائیں لیکن ثبوت ہوں تو سامنے آئیں؟ وہاں تو سارا ڈرامہ مودی اور اس کے مدد گار اور اس کی ہی طرح مسلم دشمنی کے جنون کا شکار وزیرِ داخلہ امیت شاہ نے رچایا تھا جو اب ان کے گلے پڑگیا ہے۔لیکن مودی کی شیطانی چال نے اس کے پاکستانی حریف، یزید عاصم منیر کو ایسا تحفہ دیا ہے جس کی یزید کو کبھی امید نہیں تھی۔ تو اگر یہ کہا جائے کہ ایک شیطان نے دوسرے شیطان کو اپنی نادانی میں نعمت سے نواز دیا ہے تو غلط نہیں ہوگا،یزیدی ٹولے پر مودی نے نہ چاہتے ہوئے احسان کیا ہے لیکن جن کٹھ پتلیوں کو عاصم منیر نے اپنے اقتدار کو دوام دینے کی نیت سے اور عمران دشمنی میں اندھے ہوکر ملک و قوم پہ مسلط کیا ہے وہ اس بہتی گنگا میں خوب خوب ہی ڈبکیاں لگا رہی ہیں۔ڈکیت صدر زرداری نے آج ہی ایک صدارتی آرڈی نینس کے ذریعہ حکومتی وزراء کی تنخواہوں میں تھوڑا بہت نہیں بلکہ اکٹھا تین گنا اضافہ کردیا ہے۔ابتک ہر وزیر کی تنخواہ، ماہانہ، ایک لاکھ اسی ہزار روپے ( 180,000) تھی جسے اب 519,000 روپے کردیا گیا ہے۔ اور یہ تنخواہ تو جیب خرچ کی طرح ہے اسلئے کہ پاکستانی پارلیمان کے اراکین اور کابینہ کے وزراء کو جو مراعات اور سہولتیں میسر ہیں ان کا تو مغربی جمہوریتوں میں تصور بھی نہیں ہے۔
ملک کا خزانہ مانگے تانگے کے زرِ مبادلہ سے برائے نام بھرا جاتا ہے لیکن بھکاری کٹھ پتلی وزیر اعظم، شہباز شریف، جو بے حیائی سے دنیا بھر میں کشکولِ گدائی لئے پھرتا ہے، اس بے غیرت نے اپنی کابینہ کے وزراء کی تعداد بھی دوگنی کردی ہے۔ اب پاکستان کی کابینہ میں 22 کے بجائے 43 وزیر ہیں۔ یہ اللے تللے اس نادار ملک کے بھکاری رہنما کے ہیں جو دنیا بھر سے قرضے مانگتا رہتا ہے۔یہ ان کا انداز ہے جنہیں شاید یہ اعتبار نہیں کہ مرنا بھی ہے اور مالکِ ازل کے سامنے، جو ایسا منصف ہے کہ اس کے سامنے کوئی جھوٹی شہادت نہیں دی جاسکتی، ہر عمل کا جواب بھی دینا ہے۔پاکستانی قوم تو ایک مدتِ دراز سے بدنصیبی کی گرفت میں ہے لیکن بھارتی جمہوریت، جس کی مضبوطی کا دنیا بھر میں چرچا ہے، بھی فسطائیت کے چنگل میں اپنے عوام کو جکڑے ہوئے ہے اور مسلم دشمنی کا انہیں مسلسل زہر دے رہی ہے۔ ایسے میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ لکیر کے دونوں اطراف عام آدمی فسطائی طاقت کے ہاتھوں پس رہے ہیں، دونوں ممالک ظلمت کے حصار میں ہیں اور سحر کے آثار ناپید ہیں۔
اک لعین کا غلبہ ہے پڑوسی بھارت پر
اور یزیدی ٹولے کا ہے غلام پاکستان
بد نصیب ہیں دونوں، ماننا یہ پڑتا ہے
ظالموں کے چنگل میں ہے فلاکتِ انسان!