الیکشن کمیشن، عدلیہ،آئین سب کچھ آزمالیا گیا، سب ایک شخص کے خلاف متحد ہیں لہٰذا اب صرف سڑک کا راستہ باقی ہے!
اس سیٹرڈے کو عمران خان نے پاکستانیوں کو سڑکوں پر آ کے احتجاج کرنے کی اپیل کی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تمام قانونی، آئینی، عدالتی اور انتخابی ذرائع کو استعمال کر لیاگیا اور آزما لیا گیا ہے۔ ایک طرح سے حجت تمام کر لی گئی ہے۔ پاکستان کے سارے ادارے بغض عمران میں آرمی اور جنرل عاصم کے سامنے سرنگوں ہو گئے ہیں۔ پاکستانی میڈیا تویوں لگتا ہے کہ وہ لیٹ ہی گیا ہے۔ حالت یہ ہو گئی ہے کہ نجی ٹی وی چینلز پر اینکرز اور تجزیہ نگار بھی جنرل کی مرضی سے لگائے اور نکالے جارہے ہیں۔ اے آر وائی کے پروگرام ’’دی رپورٹرز‘‘ کی مثال آپ کے سامنے ہے۔ ایک اینکر ارشد شریف کو مار دیا گیا، دوسرے اینکر صابر شاکر کو کینیڈا جا کر پناہ لینے پر مجبور کر دیا گیا۔ تیسرے اینکر عارف حمید بھٹی کو نکال دیا گیا اور اب آخری تجزیہ نگار چودھری غلام حسین کو آرمی کی ٹائیڈ لائن فالو نہ کرے پر چھٹی کرا دی گئی۔ اوپر سے ہٹ دھرمی یہ ہے کہ فوج نے اپنے حمایت یافتہ فوجی مخبروں حسن ایوب اور صدر نقوی کو زبردستی پروگرام میں بٹھا دیا ہے۔ اب دیکھتے ہیں کہ خاور گھمن کو کب فارغ کیا جاتا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ صحافت کی آزادی کی دعویدار تنظیمیں بھی خاموش ہیں اور پاکستان کے تیس ٹی وی نیوز چینلز بھی کوٹھے کی طوائف کی طرح سے آرمی کے نوٹوں کی ویلوں پر گھنگھرو باندھے محو رقص ہیں۔ کیسی صحافی آزادی اور کہاں کے اصول، ماریہ میمن نے بتایا کہ لوگوں کا اب ریگولر میڈیا سے اعتبار بالکل ختم ہو چکا ہے اور قارئین اور ناظرین کی اکثریت اب نیوز سننے اور پڑھنے کے لئے سوشل میڈیا کو اپنا میڈیم بنا چکی ہے۔ اس بات کا اندازہ ان تیس ٹی وی چینلز کو بھی خوب اچھی طرح ہے اور یہ اپنے سوشل میڈیا پر لائیو اسٹریمنگ اور پوسٹس میں لوگوں کو دھوکہ دینے کیلئے ایسی اور پوسٹ لگاتے ہیں جس میں لوگوں کی ہٹ حاصل کرنے کیلئے عمران خان یا تحریک انصاف کی جھوٹی خبریں اور سرخیاں لگائی جاتی ہیں اور جب صارف اسے کھولتا ہے تو وہاں کوئی ایسی خبر نہیں ہوتی یعنی ان لوگوں کو اپنا چورن تک بیچنے کیلئے عمران خان اور تحریک انصاف کی موافقیت کی سرخیاں لگانا مجبوری بن گئی ہے۔ ایک ایک شعبے پر آرمی کے کنٹرول کے بعد ملک کی اکثریت کو دیوار سے لگا دیا گیا ہے جس کے بعد اب اس کے سوا کوئی چارہ نہیں رہا کہ استنبول کے تحریر سکوائر کی طرح پاکستان کے ہر شہر کے مرکزی علاقے میں روزانہ کے بنیاد پر مظاہرے کئے جائیں اور دنیا کی توجہ اس طرف مبذول کرائی جائے کہ ملک میں کس طرح عوام کے مینڈیٹ کو لوٹا جارہا ہے اور پاکستان آرمی کی سربراہی میں منتخب نمائندوں کو اقتدار نہیں سونپا جارہا ہے بالکل اسی طرح سے جیسے ترکیہ میں طیب اردگان کو وہاں کی آرمی اقتدار میں آنے سے روکنے کی کوشش کررہی تھی مگر عوامی طاقت کے بل بوتے پر وہ اپنی حکومت حاصل کرنے میں آخر کار کامیاب ہو ہی گئے۔ اگر اب ان پرامن مظاہروں اور احتجاجوں کو بھی اپنی کھوکھلی طاقت کے بل بوتے پر چند جنرلوں نے دبانے کی کوشش کی تو پھر آخری نتیجہ فوج میں بغاوت پر اختتام پذیر ہو گا۔ جنرل قمر باجوہ کا یہ بیان ریکارڈ پر موجود ہے جس میں انہوں نے عمران خان سے کہا تھا کہ آرمی میں آپ کو اسی فیصد لوگ پسند کرتے ہیں۔ لہٰذا اگر سیٹرڈے کو شروع ہونے والے مظاہروں کو زبردستی دبانے کی کوشش کی گئی اور آرمی کے جوانوں کو عوام پر گولیاں چلانے کا جنرلوں نے حکم دیا تو وہ اسی فیصد فوجی ان جنرلوں کے خلاف بندوقیں اٹھالیں گے۔ ایک مثال لاہور کے جناح ہائوس یا آرمی ہیڈ کوارٹر کے کور کمانڈر کی پہلے ہی موجود ہے جس نے یہ کہہ کر لاہور میں 9 مئی کو پبلک پر گولیاں چلانے سے انکار کر دیا تھا جیسے بعد میں کورٹ مارشل کر کے غائب کر دیا گیا۔ اگرفوجی جرنیل یہ سمجھتے ہیں کہ 8 فروری کو کروڑوں ووٹرز نے اپنے ووٹوں کے ذریعے عمران خان کو سپورٹ کر کے ان جنرلوں کا منہ کالا کیا تھا وہ صرف PTIکے کارکن تھے تو یہ ان کی خوش فہمی ہے، یہ کروڑوں لوگ پاکستانی شہری تھے جنہوں نے اپنے ووٹوں سے ان کی چولیں ہلا کر رکھ دی تھیں۔ آٹھ فروری کو پاکستان میں ووٹوں کے ذریعے پرامن انقلاب آیا تھا۔ بہتر ہو گا کہ اسے تسلیم کر لیا جائے وگرنہ اگلی باری پھر خونی انقلاب کی ہو گی جس میں سب تخت گرائے جائیں گے۔