ہفتہ وار کالمز

94 ارب

جس معاشرہ میں ہمدردی ، مدد کرنا، ہاتھ پکڑنا، دلجوئی جیسی اقدار موجود ہوں وہ معاشرہ بہت خوبصورت ہوتا ہے، ایک انسان کو دوسرے انسان کے مسائل سے آگاہی انسانیت کا بنیادی اصول ہے مساوات بہت اچھی چیز ہے مگر مساوات ایک خواہش ہی رہی، طبقاتی فرق ہو مگر اس کے ساتھ انسانی ہمدردی بھی موجود ہو تو مفلسی کے زخم کچھ بھر جاتے ہیں، یہ احساس بھی کیا کم ہے کہ انسانوں کے پیٹ کی بھوک کا مداوا ہو جائے، دنیا کے سارے مذاہب انسانیت کا ہاتھ تھامنے ہی آئے تھے ہر مذہب کی آنکھ انسان کے مسائل پر اشکبار رہی ہے، سو ایک سادہ سا حل تو یہ نکالا گیا کہ جن کے پاس ہے وہ ان لوگوں کو بھی دے دیں جن کے پاس نہیں ہے،اس احساس نے انسان دوستی کی بنیاد رکھ دی اور آگے چل کر یہ ایک سیاسی نظریہ بھی بن گیا جس کی بنیاد HAVES AND HAVES NOT پر رکھی گئی اور فرض کر لیا گیا کہ ALMS کی بنیاد پر سارے معاشرے کی ضروریات پوری نہیں کی جا سکتیں لہٰذا ہر شخص کو یکساں طور پر ضروریاتِ زندگی فراہم کرنے کے لئے تمام وسائل کو حکومت کی تحویل میں دے دیا جائے جو ملک میں موجود ہر فرد کی ضرورت پوری کرنے کی ذمہ دار ہو یہ نظریہ کمیونزم کہلایا اس نظریہ کو سرمایہ دار نے منظور نہیں کیا، اور کمیونزم کی سخت مخالفت نظر آئی، یہ مخالفت اس قدر شدید تھی کہ یہ بالاخر USSR کے خاتمے پر منتج ہوئی ، سرمایہ دار معاشرے میں بھی اس بات کو تسلیم کر لیا گیا کہ حکومت ہی سارا بوجھ نہیں اٹھا سکتی کچھ بوجھ خود معاشرے کو بھی اٹھانا چاہیے CHARITABLE ORGANIZATIONS کا بنیادی خیال یہاں سے ہی آیا ، CHARITABLE ORGANIZATIONS نے تعلیم اور صحت کے میدان میں بڑی کامیابیاں حاصل کیں اسکول کالج بنائے گئے یونیورسٹیاں بنائی گئیں، مخیر افراد نے ان کی کار کردگی دیکھی تو ان اداروں کو عطیات سے نوازا حکومتیں اپنے SURPLUS BUDGET سے ایک اصول کے تحت کارکردگی کی بنیا پر گرانٹ دیتی رہتی ہیں اور ان گرانٹس کا باقاعدہ آڈٹ ہوتا ہے جو بد عنوانی کو روکتا ہے، بڑی NGO,S کو بڑے بجٹ دئے جاتے ہیں مگر یہ سچ ہے کہ بد عنوانی کو روکنا مشکل ہوتا ہے، کہیں کہیں حکومتیں بھی آنکھیں میچ لیتی ہیں مگر قانون کی گرفت میں آجائیں تو بچنا مشکل ہم چونکہ ہر کام مذہب کی نظر سے دیکھنے کے عادی ہیں تو CHARITABLE ORGANIZATIONS قیام کو بھی اسی نظر سے دیکھا گیا، یہ سچ ہے کہ پاکستان میں خیرات ، زکاۃ ، صدقات اور فطرانہ کی مد میں کثیر رقم دی جاتی ہے مگر اس کا بڑا حصہ مسجد کی انتظامیہ اچک لیتی ہے ہر نماز جمعہ میں مسجد کی انتظامیہ نمازیوں کے سامنے ڈبے چلاتی ہے اور ہر نمازی ڈبے میں کچھ نہ کچھ ڈال دیتا ہے پھر ہوس بڑھ گئی ڈبوں کے نام رکھ دیئے گئے خیرات و صدقات، چندہ برائے تعمیر مسجد، چندہ برائے تزئین مسجد، چندہ برائے بجلی کے پنکھے پھر سال میں کئی دن منائے جاتے ہیں ان کے لئے چندہ الگ ہوتا ہے یہ کثیر رقم ساری کی ساری خرد برد ہو جاتی ہے، اسکول، کالج، یونیورسٹی بنانا اور چلانا مولویوں کے بس کی بات نہیں ملا کی دوڑ مدرسے تک ہی ہے اسے یہی گمان ہے کہ قرآن و حدیث اسے ہی آتا ہے تو مدرسہ ہی بناؤ اور جن کو یہ آتا ہے وہ ان کو مسجد میں پھٹکنے نہیں دیتا جامعات میں ایم اے اسلامک اسٹڈیز کرایا جاتا ہے مگر بھلا مجال ہے کہ کسی M.A. ISLAMIC STUDIES کو امام مسجد تعینات کر دیا جائے ، پھر ایک اور بھی مذاق ہے کہ معاشرے کا ہر فرد اس شخص با ریش انسان کو خواہ مخواہ متقی مان لیتا ہے اور سمجھتا ہے کہ داڑھی والا ہی پارسا اور ایماندار ہوتا ہے اب اس گمان کا کیا کیا جائے پھر یہ بھی ہے کہ جو کچھ خیرات، زکوٰۃ اور صدقات کی صورت میں جمع ہوتا ہے اس کا کبھی حساب نہیں مانگا جاتا اگر کوئی غلطی سے حساب مانگ لے تو پیش امام کی آنکھیں لال ہو جاتی ہیں اور وہ کہتا ہے بد بخت اللہ کے نام پر دے کر حساب مانگتا ہے، اللہ کو کیا منہ دکھائے گا اور حساب مانگنے والا گنہگار بن جاتا ہے ، ایدھی نے پہلی بار پاکستان میں دنیا کی سب سے بڑی NGO بنا کر دکھائی اور چلا کر دکھائی اور لوگوں کا اعتبار کمایا، دوسرا بڑا کام شوکت خانم کینسر ہسپتال کی صورت میں سامنے آیا، پھر کچھ لوگوں نے اپنا اعتبار بنایا اور وہ اچھا فلاحی کام کر رہے ہیں جس میں INDUS HOSPITAL کا نام لیا جاسکتاہے، رمضان کا چاند نظر آتے ہی پاکستان اور امریکہ میں بھی خیراتی ادارے کیڑے مکوڑوں کی طرح نکل آتے ہیں اور چندہ، خیرات، زکوٰۃ، عطیات صدقات طلب کرتے ہیں یہ ادارے کسی کار کردگی کی بنا پر چندہ جمع نہیں کرتے بلکہ اشتہاری مہم چلاتے ہیں اس اشتہاری مہم میں CRICKETERS/ACTORS کو استعمال کیا جاتا ہے ایکٹر ہو یا کرکٹر وہ تو اشتہار میں نظر آنے کا معاوضہ وصول کرکے گھر چلا جاتا ہے اس کے نام پر چندے اکٹھے ہوتے رہتے ہیں ان چندوں کا کبھی حساب نہیں مانگا جاتا اور نہ ہی ادارے کے منتظمین کل چندے کا حساب شائع کرتے ہیں، آج کل نیٹ کا زمانہ ہے مگر ادارے کبھی اپنا آڈٹ شدہ رپورٹ نیٹ پر نہیں لگاتے ہیں، ایک اشتہار میں تو مجھے انور مقصود بھی نظر آتے ہیں وہ بھی ایک ادارے کو ENDORSE کرتے ہیں یہ سلسلہ رمضان سے قربانی کی کھالوں کے جمع کرنے تک جاری رہتا ہے، مگر درون خانہ خیرات صدقات زکوٰۃ اور فطرانہ سب مولوی کی جیب میں جاتا ہے اس کی تازہ مثال وہ خبر ہے کہ مولانا طارق جمیل جو حوروں پر تحقیق کے حوالے سے مشہور ہیں ان کے بنک اکاؤنٹینٹ میں 94BILLIONS روپیہ موجود ہے جو غریبوں کی جیبوں سے نکالا گیا اور یہ کہہ کر نکالا گیا ہے کہ خیرات، زکوٰۃ اور صدقات کا پیسہ غریبوں کو دیا جائیگا یا ان کی فلاح پر خرچ ہو گا مگر ایسا نہ ہو کا اور اب یہ عالم ہے کہ مولانا جنہوں نے حوروں کا لالچ دے کر کئی نسلوں کو گمراہ کیا اب چوری کے الزام میں پکڑا گیا اور اب وہ کوئی صفائی دے نہیں پا رہا، ہم نے کہا تھا کہ پاکستان کے 129 مزاروں کی گدی کے نیچے تین کھرب روپیہ موجود ہے جو سب کا سب غریبوں کا دیا ہوا ہے، یہ پیسہ ضبط کیا جائے مولانا طارق جمیل جاگیر دار بھی ہے جس کی طاقت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ طارق جمیل کی مرضی کے بغیر علاقے کا SHO بھی تعینات نہیں کیا جا سکتا، یہ وہ لوگ ہیں جو رات دن کفر میں کیڑے نکالتے ہیں مگر یہ نہیں دیکھتے کہ کافروں کی CHARITABLE ORGANIZATIONS کس ایمانداری سے تمام CHARITIES کا حساب رکھتی ہیں اور سال کے آخیر میں نیٹ پر پوسٹ کرتی ہیں ۔میںپورے اعتمادسے SUSAN&KOMEN ST JUDE CHILDREN RESEARCH HOSPITAL کا نام لے سکتا ہوں جو REPUTED ORGANIZATIONS میں دیسی انجمنیں جو نیو یارک ایریا میں ہیں اور جو ایشیا اور افریقہ اور مشرق وسطیٰ میں خیراتی کام کرنے کی دعویدار ہیں اپنے حساب کتاب نیٹ پر نہیں لگاتیں اور نہ ہی اعلان کرتی ہیں کہ حساب نیٹ پر موجود ہیں ان کو دیکھا جا سکتا ہے مگر مومنین کا یہ حال ہے کہ خیرات اور صدقات آنکھ بند کرکے ان انجمنوں کو بھیج دئے جاتے ہیں، اب 94ملین کے اسکینڈل کے بعد کم از کم ہوش آ جانا چاہیئے کہ خیرات و زکوٰۃ اور صدقات ان کو دئے جائیں جن کی ایمانداری شک و شبہ سے بالاتر ہو دین کے نام پر دھوکہ دہی عام ہے تو بہتر ہے ان انجمنوں کو رقم کی ادائیگی کی جائے جو کام کرتی ہیں کام کر کے دکھاتی ہیں اپنا حساب دیتی ہیں اور آپ کے شہر کے غریبوں کے کام آتی ہیں، دین کے نام پر لوٹتی نہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button