رحمان عباس کا نیا ناول نژداں!

جب بھی کوئی نیا اور مختلف ناول سامنے آتا ہے ، یا کوئی ناول نگار اعتماد سے بات کرتا ہے، تو اس بات پر یقین بڑھ جاتا ہے کہ اب اُردو دنیا کی ذہنی فضا اور فکر و نظر کی اقلیم میں تحمل، ٹھہراو، منطق اور معروضی اندازِ نظر جگہ بنا چکا ہے۔اب اُردو ذہن اس جہان سے سرسری طور پر گزرنے کی بجائے ہر جا جہان ِدیگر کے مشاہدے ، تجربے اور اپنے حاصلات کے تجزیے پر عامل ہو چلا ہے ۔ رحمان عباس اکیسویں صدی کا زرخیز ذہن ناول نگار ہے ۔اپنے سماج کے جملہ تضادات ، ان تضادات کے تخلیق کردہ کردار اور ان کرداروں کے فکر و عمل کے پیمانے رحمان عباس کی دلچسپی کے عنوان بنتے ہیں ۔ نژداں پڑھنے کے بعد میں نے خود سے سوال کیا کہ؛اس ناول سے میں نے کیا سیکھا یا کیا پایا ہے؟ آواز آئی کہ ناول درسی کتاب نہیں ہوتے جو اپنے نصاب کے مطابق کوئی نئی بات بتائیں یا سکھائیں، ہاں ناول زندگی کو دیکھنے والی آنکھوں کے سامنے سے دھند اور کہرے کو ہٹا دیتا ہے ،ناول اپنے قاری کی نظر کی عینک کا شیشہ صاف کر دیتا ہے ،مجھے اس ناول کے بیشتر کردار اپنےآس پاس اور اطراف میں چلتے پھرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اچھا ناول اپنی حدود بیان میں آنے والے جملہ مناظر اور موضوعات و معاملات کی بہ تمام و کمال تفہیم کو معنی کی مکمل کفالت کرنے والے متن سے،ممکن بنا دیتا ہے ۔بس اسی کام یا ناول کے اسی منصب کو احسن طریقے اور عمدہ سلیقے سے نبھاہنے والا ناول نگار اپنے مقصد میں کامیاب خیال کیا جاتا ہے۔نژداں میں رحمان عباس نے بیسویں صدی کے جن مناظر اور موضوعات کو اپنی فنکارانہ مہارت کے رنگوں سے مزئین کر کے توجہ کا مرکز بنایا ہے ، ان میں عنفوان شباب کے تحیئر، عصری تناظر کی تفہیم کے طریقے اور سلیقے سے آگاہی ، صنف مخالف میں جنسی کشش کے احساس کا آغاز ،اور اس کشش کو محبت اور عشق سمجھنے کی کوشش کی طرف رجحان ، معاشرتی ناہمواری اور اس کے پیدا کردہ جبر کی تصویریں، طبقاتی تقسیم اور انسانیت کی تذلیل پر دھرم اور عقیدے کا کامل اتفاق و اتحاد ، یہ ناول بتاتا ہے کہ جو ظلم اور ناانصافی مکار اور چالباز انسان خود نہ کر پائیں،وہ اپنے دھرم ،دیوتا اور عقیدے سے کروا لیتے ہیں۔ایسے میں سادہ لوح اور کمزور لوگوں کا زندگی کی بے رحم گھوڑ دوڑ میں زمین پر اُگی گھاس کی طرح کچلے جانا کبھی کسی خبر کا عنوان نہیں بن پاتا ۔یہ ناول بتاتا ہے کہ مردوں کے سماج میں عورت کے لیے برابر کی انسان بن کر جینا کس قدر مہنگا اور مشکل کام ہے۔ناول بتاتا ہے کہ لڑکیاں بعض اوقات کس طرح اپنے نہایت قریبی رشتوں کی درندگی کا شکار ہو کر ،ساری زندگی اس زخم کے درد کو جھیلتی رہتی ہیں۔اس ناول میں پسے ہوئے ، معیشت میں بچھڑے ہوئے اور خودغرض و لاپروا دیوتاوں کے جکڑے ہوئے محروم و پسماندہ طبقات جیسے دلت ، شودر اور مکار لوگوں کی تراشیدہ توہمات کا شکار مخلوق کی حالت زار کا بیان ہے۔ ناول مکار ، نابکار اور ناکردہ کار دیوتاوں کے خلاف خوار و زبوں حال لوگوں کی بغاوت اور دیوتاؤں کی تدفین کے مناظر ، دھرم کے طلسم کے خاتمےاور عقیدے کی زنجیروں سے رہائی کے جشن دکھاتا ہے،ناول مضبوط اور باشعور عورتوں کی قوت مزاحمت کی تفصیل اور کامیابیوں کو کن اکھیوں سے دیکھتا اور سمجھتا ہے یہ تاثر درست نہیں ہے کہ’’ نژداں ‘‘رحمان عباس کی ذہنی سرگذشت ہے۔ناول زمان اور مکان کے دھاگوں میں الجھی یاد کی بازیافت پر مشتمل ہے۔اس ناول کا مرکزی کردار یادداشت کے یاد رہ جانے والے اجزاء کی نسبت یاد سے محو ہو جانے والے اجزاء کی تلاش اور تعبیر و تشکیل پر زیادہ توجہ دیتا نظر آتا ہے۔ ناول کا بہاو یاد کی ندی میں بہتا اور اچھلتا ہوا آگے بڑھتا ہے اور جہاں جہاں اس بہاو میں رخنہ آنے کا خدشہ ہو، ناول کا مرکزی کردار یاد کی زنبیل کو مکرر ٹٹول کر کوئی نہ کوئی کڑی نکال لاتا ہے۔ اپنی بچپن سے شروع ہو کر سن شعور تک کی توانا، یعنی زندہ اور یاد رہ جانے والی باتوں کو ترتیب سے لکھنے کے باوجود یہ سوال اس کے پیش نظر رہتا ہے،کہ؛ "…متن کی تعبیر کا امکان اس کے اندر ہے یا باہر یا دونوں جگہ، یہ بھی ممکن ہے یاد کے جن ٹکڑوں کو میں نے توانا تصور کیا، وہ موہوم ہوں اور تصور نے یادداشت میں رنگ اپنے شامل کئے ہوں؟ اور یہ بھی ممکن ہے کہ تعبیر رد تشکیل میں نہیں بلکہ لامکاں میں پوشیدہ ہو جو خیال کی آخری پناہ گاہ ہے ۔۔۔۔” زمان اور مکان اس ناول کی بُنت میں اساسی حیثیت رکھتے ہیں۔ناول کا زمان بیسویں صدی کے نصف آخر کے بایئس سال ہیں ،یعنی 1976ء سے لے کر 1996ء تک ، اور مکان کوکن اور اس کے اطراف ہیں۔ بمبئی کا بے حد مصروف اور معمور شہر بھی کوکن کے جنگلات جتنا وسیع ، گنجلک اور پرشور مقام ہے ۔فرق صرف ایک ہے، اگر کوکن کے جنگلات کے بوڑھے درختوں اور آسمان پر تیرنے والے بادلوں پر بھوت رہائش پذیر ہیں ، تو بمبئی ہر طرح اور ہر رتبے کے انسانوں سے بھرا ہوا شہر ہے ۔اس شہر میں بھوتوں کے لیے کوئی گنجائش نظر نہیں آتی ۔یہ ایک متحرک اور مصروف شہر ہے ۔اس شہر میں رہنے والوں کو اتنا زیادہ کام کرنا پڑتا ہے کہ کوئی بھوت اپنے تساہل اور اپنی سستی کو کسی شہر کی رونق کی نظر نہیں کر سکتا۔ کوکن کے سرسبز جنگلات ، ندیاں ، دریا ، پہاڑیاں اور وادیاں اپنے جمال کی فراوانی کی وجہ سے اپنے اندر ایک خاص کشش رکھتی ہیں۔یہ کشش پرندوں ، جنگلی جانوروں ، انواع و اقسام کی تتلیوں اور انسانوں کے علاوہ بھوتوں کو بھی اپنا اسیر بنا لیتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ کوکن کے جنگلات کے درختوں پر اور کوکن پر تیرنے والے بادلوں پر بھوت بڑے شوق سے رہائش اختیار کر لیتے ہیں ، اور گاہے گاہے گریہ بھی کرتے رہتے ہیں، ناول نگار کی تحقیق کے مطابق بارش اُداس بھوتوں کے آنسو ہوتے ہیں۔میں ابھی تک یہ جان نہیں پایا کہ ؛ بھوت کے ذکر کے ساتھ ہی ہمارا دھیان فو ر۱ً پریت کی طرف کیوں چلا جاتا ہے ۔ یہ جانتے ہوئے کہ بھوت ہمارے خوف اور توہمات سے ،جبکہ پریت ہماری جبلت اور خواہش سے تعلق رکھتی ہے ، رحمان عباس نے یہاں کے اسرار و رموز کو نہایت مہارت سے اپنے ناول کی فضا بندی کے لیے استعمال کیا ہے۔ ’’نژداں‘‘ اڑتالیس عنوانات میں منقسم ناول ہے ،جبکہ اس کے آخری عنوان کے ساتھ دو انجام بھی شامل ہیں ۔واقعات کی زمانی ترتیب میں تغیئر کی تکنیک نے یاد کی زنبیل میں سے نکلنے والے خزانے کو ماہ و سال کی پیہم تبدیلی کے ساتھ ناول کے عجائب گھر کی زینت بنا دیا ہے۔ زمانی تغیئر کی اس تکنیک کی وجہ سے اس دلچسپ ناول کا آغاز اس کے آخری باب سے ہوتا ہے، گویا ناول کے آخری عنوان کا پہلا صفحہ اس ناول کے طلسم کدے کا دروازہ "اُداسی جو دوسری اُداسیوں سے الگ تھی” کے عنوان سے کھول رہا ہے۔یہ پیراگراف شریفہ نامی کردار سے متعلق ہے۔شریفہ کے کردار کا ہمہ جہتی ارتقاء اس ناول کا نمایاں موضوع ہے ۔لیکن یہ واحد کردار نہیں۔ناول میں ماریہ، کلثوم ، رخسانہ اور شبنم کے کردار بھی ملتے ہیں۔مرد کرداروں میں شمبھو کے کردار کا ارتقاء اور انجام حد درجہ معنی خیز معلوم ہوتا ہے ،اسی طرح سلیمان سیٹھ جیسے ہشیار شکاری کا کردار ہے، کہ جس کی اپنی نظر ِکرم منتظر اور التفات کی آرزو مند اس پر سوار ہوکر اس کی داڑھی تک کو کھینچتے ہوئے کان پر کاٹ لیتی ہے۔اور پھر شاردا دیدی کی مختلف مساعی اور کشف المحجوب قسم کے افکار و خیالات بھی حیران کرتے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ناول نگار زندگی کی پیچیدہ گرہیں کھولنے اور انسانی فطرت کے سربستہ راز عیاں کرنے کے لیے عورت کے مطالعے ، مشاہدے اور تجزیے کو معاون بنا رہا ہے ۔عمومی طور پر رحمان عباس کے ناول کی عورت ایک مکمل اور بیشتر اوقات حاوی اور فیصلہ کن کردار کا مظاہرہ کرتی نظر آتی ہے۔وہ الجھے ہوئے سماج، بکھری ہوئی اقدار اور نفسیاتی طور پر سہمے ہوئے اور بزعم خود "بہادر،منہ پھٹ اور ہتھ چھٹ” مردوں کے مقابل اپنے جینے کے راستے کشادہ کرتی نظر آتی ہے ۔شاردا دیوی نژداں کا ایک دلچسپ ، حیران کن اور مثالی کردار معلوم ہوتا ہے ۔دھرم ، مذہب اور عقیدے کی مجروح کی گئی کمیونٹی کو نجات کی راہ دکھانے والی اور فاصلاتی نظام تعلیم کے ذریعے علم و شعور حاصل کرنے والی شاردا دیدی کے خیالات بڑے واضح اور قابل فہم نظر آتے ہیں، وہ کہتی ہےکہ؛ …ہر آدمی کنورٹیڈ یا جبرا ًکنورٹیڈ ہے ۔ بچہ بے مذہب پیدا ہوتا ہے ، شعور حاصل کرنے سے پہلے اسے مذہب کا اسیر بنا دیا جاتا ہے ۔ یہ بچپن کا بدترین استحصال ہے ۔ ہم سب بدلتے رہتے ہیں، خود تصور مذہب اور تصور خدا بھی بدلتا رہا ہے۔ بدلنا انتخاب سے زیادہ فطرت کا ایک قانون ہے ۔ ہر مذہب کا خالق سیاست کا ایندھن ہے ۔ مذہب کے نام پر ذات پات کا نظام تشکیل دیا گیا تھا جس نے صدیوں ہمارا استحصال کیا ۔ چنانچہ ہم نے مذہب اور دیوتاؤں کو خیر باد کہہ دیا۔ ” شاردا دیدی دلت کمیونٹی کو بدنصیبیوں کے چنگل سے نکالنے کے لیے مسلسل جدوجہد میں مصروف ہے۔ ناول کا مرکزی کردار مسلمان ہے اور اس کی قریبی دوست اور مرکز التفات پیہم ، ماریہ مسیحی کمیونٹی سے تعلق رکھتی ہے ،لیکن یہ دونوں مذہب ، دھرم اور عقیدے کی سطح سے بہت اوپر اٹھ کر انسانیت کے رشتے کی اہمیت کے قائل اور معترف ہو چکے ہیں۔ان کے لیے شاردا دیدی سے گفتگو سننے ،سمجھنے اور سیکھنے کی ایک صورت ہوا کرتی تھی۔ایک بار دوران گفتگو شاردادیدی کا فکر مندی سے کیا گیا استفسار یہاں وہاں کی مسلم کمیونٹی کے حوالے سے بنیادی اہمیت رکھتا ہے کہ؛ ” ہم دلتوں کی ذلت بھری زندگی کا سبب ذات پات کا نظام ہے , کیا مسلمانوں کی بربادی کی وجہ تعلیم سے دوری اور مذہب کی ناقص تعبیر ہے؟۔۔۔۔ہم دلتوں کو تعلیم اور حقوق سے محروم کرنے کے لیے مذہب کا استعمال ہوا ،تمہیں تو معلوم ہو گا۔ یہ ضروری نہیں ایک کا مذہب صرف دوسرے کے مذہب کا دشمن ہو، ایک کا مذہب اس کے اپنے ماننے والوں کا بھی دشمن ہو سکتا ہے۔” بیسویں صدی کے نصف آخر میں مذہب ، دھرم اور عقیدے کے نام پر پرامن اور علم دوست انسانوں کو انتشار و افتراق اور باہم منافرت کا شکار کرنے کا چلن عروج پر رہا ۔اس علت نے مجموعی طور پر انسان کی ذلت میں اضافہ کیا۔’’نژداں‘‘ ایک بڑے کینوس کا ناول ہے ۔اس نے بیسویں صدی کی ستر، اسی اور نوے کی دہائیوں میں اس خطے کے انسان کے اجتماعی ذہنی اور سماجی احوال کو نہایت دلچسپ اسلوب میں پیش کیا ہے۔