میٹھی عید کے بعد امید تھی کہ عیدالاضحی پر شاید چیزیں بہتر ہو جائیں گی امید پر دنیا قائم ہے لیکن دو مہینے دس دن کے بعد بھی Covidجانے کا نام ہی نہیں لے رہا ہے۔
امریکہ میں 150,000سے زیادہ لوگ کووڈ کی وجہ سے موت کے منہ میں جا چکے ہیں، جب فروری 2020ء میں کووڈ کی خبر آئی تھی توCDCنے کہا تھا کہ ایک سے دو لاکھ لوگ تک اس وائرس سے موت کے منہ میں جا سکتے ہیں، صرف یو ایس اے میں جس پر سب لوگ پریشان ہو گئے تھے اورحیرت کا اظہار کرنے لگے تھے لیکن صدر ٹرمپ نے فوراً اعلان جاری کیا تھا کہ نہیں یہ گنتی صرف ساٹھ ہزار اموات تک پہنچے گی، اس سے زیادہ نہیں لیکن یہ بات بھی ان کی باقی باتوں کی طرح نکلی، آج یو ایس اے میں 150,000سے زیادہ اموات ہوچکی ہیں اور کووڈ جانے کا نام ہی نہیں لے رہا ہے۔
بقر عید آئی اور ہم نے سوشل ڈسٹنس کے ساتھ منائی، یو ایس اے کی بیشتر مسجدوں میں عید کی طرح بقر عید کی نماز کا اہتمام نہیں کیا گیا جہاں کیا گیا وہاں فاصلوں کا خیال رکھا گیا ،ہر شخص چھ فٹ دور تھا، ایک دوسرے سے، کئی مساجد میں بکنگ سسٹم رکھا گیا، ہر شخص چھ فٹ دور تھا، جہاں500لوگ نماز پڑھ سکتے تھے، وہاں صرف پچاس افراد کی اجازت تھی، آپ آن لائن جائیے اور مسجد کی ویب سائٹ پر بکنگ کروائیے، اگر آپ شروع کے پچاس لوگوں میں آگئے تو ٹھیک ہے ورنہ اگلی شفٹ میں نام لکھوائیے لیکن سو لوگوں کے علاوہ مزید کی گنجائش نہیں تھی، دو شفٹوں کے بعد جس طرح لاٹری سسٹم میں لوگ نماز پڑھ رہے تھے ٹھیک اسی طرح لا ٹری سسٹم میں ہی دوستوں، رشتے داروں سے بھی ملا جارہا تھا، یعنی کس کس سے، ایک ساتھ تو بالکل بھی نہیں، دو سے چار لوگ ہو جاتے تو چور چور ہو جاتے کہ ہم غلط کررہے ہیں۔
فیس بک پر لوگ ڈرتے ڈرتے تصویریں ڈال رہے ہیں جن میں چار چھ لوگ نظر آرہے ہیں تو سٹیٹس میں یہ ضرور ڈال دیتے کہ ہم Social Distanceکا خیال رکھ کر عید منارہے ہیں لیکن پھر بھی کمنٹس کرنے والوں میں سے کوئی نہ کوئی یہ ضرور کہہ دیتا ’’ارے فاصلہ تو رکھا ہی نہیں‘‘ پوسٹ کرنے والا وضاحتیں ہی دیتا رہ جاتا۔
لوگ ملنے سے باہر جانے سے گھبراتے رہے اور اس میں عید گزر گئی، بقر عید بھی گزر گئی، لوگوں کو 2020ء کی بقر عید ہمیشہ یاد رہے گی جن میں روایتی چہل پہل اور رونقیں ناپید تھیں چاہے وہ پاکستان ہو یا یو ایس اے۔
2020ء ہماری زندگیوں کا عجیب و غریب وقت ہے، تاریخ میں یہ ہمیشہ یاد رکھا جائے گا کیونکہ یہ وقت وہ ہے جو انسان نے پچھلے سو سال میں نہیں دیکھا، سو سال پہلے جب دنیا کو وائرس نے لپیٹ میں لیا تو ہر واقعہ، ہر چیز اس طرح ڈاکومنٹ نہیں ہو سکتی تھی جیسے آج ہوتی ہے، انٹرنیٹ اور ماڈرن ٹیکنالوجی کی وجہ سے سو سال پہلے جب وباء پھیلی تو دنیا میں انسانوں کی آبادی آج کے مقابلے میں کم تھی، اس وقت بھی فاصلہ رکھنے اور ماسک پہننے کی ہدایات کی گئی تھیں۔
سو سال پہلے جو وباء پھیلی تو تین ملین سے زیادہ اموات ہوئی تھیں اور اس وقت بھی یہ بحث چھڑی تھی کہ ماسک پہننا چاہیے کہ نہیں؟؟ سو سال پہلے جب وباء نے تباہی مچائی تھی تو اکانومی بری طرح متاثر ہوئی تھی، بہت سی انڈسٹریز بند ہو گئی تھیں اور پھر اکانومی کو کھڑے ہونے میں نو دس سال لگ گئے تھے۔
یہ سوال اس لئے اہم ہے کہ ہر شخص کو یہ ثابت کرنا ہوگا کہ وہ ’’ذمہ دار‘‘ ہے، وہ ذمہ داری سے یہ سمجھتا ہے کہ CDCجو بھی گائیڈ لائن دے رہا ہے حفاظتی تدابیر کی اس کرونا وائرس کے خلاف ہمیں اس پر عمل کرنا چاہیے، اپنا نا چاہیے، یہ چاہے کتنے ہی مشکل کیوں نہ ہوں اگر ہم کو انسانی جانوں کو اورا کانومی کو بچانا ہے تو یہ سب کرنا ہو گا کیونکہ سو سال پہلے جب نہ کاریں اس تعداد میں تھیں نہ ہوائی سفر اس طرح تو اتنی موتیں واقع ہو گئیں ناکہ اب جبکہ گھروں میں دو دو تین تین گاڑیاں کھڑی ہوتی ہیں، صرف امریکہ میں ہی روزانہ ہزاروں کی تعداد میں لوگ ہوائی سفر کرتے ہیں تو پھر کسی بھی وائرس یا وباء کا کنٹرول ہونا کتنا مشکل ہے۔
دنیا چاہے کرونا وائرس سے تنگ اور بور ہو گئی ہے لیکن یہ وائرس انسانوں سے بور نہیں ہوا ہے یہ آج بھی شدت سے امریکہ میں پھیلا ہوا ہے، آپ کوئی بھی دوسری عید بھول جائیں لیکن 2020ء کی یہ عیدیں آپ کبھی نہیں بھول سکتے جو Pandemicمیں گزاری ہیں۔
ایسا عجیب وقت ہماری زندگیوں میں کبھی نہیں آیا تھا اور اللہ سے امید کرتے ہیں کہ نہ آئندہ کبھی آئے، یہ سال گزر جائے اپنے ساتھ کرونا ہمیشہ کیلئے لے جائے تو پھر عید ہی عید ہو گی ہر طرف انشاء اللہ۔
Next Post