یہ بحث آج کی نہیں بلکہ بہت پرانی ہے کہ لیڈر قوم بناتا ہے یا قوم لیڈربناتی ہے!لیکن اس بحث کے مضمرات پر روشنی ڈالنے سے پہلے ایک اعتذار ضروری ہے جس کے ذریعہ وہ سمجھانا آسان ہوجائے گا جو میں باور کروانا چاہتا ہوں۔ مولانا محمد علی جوہر کے نام سے ہماری تاریخِ آزادی کا کون طالب علم ہے جو واقف نہیں ہے اور ہر طالب علم یہ بھی جانتا ہے کہ مولانا کو قدرت نے لسان اور قلم دونوں پر ہی بے مثال عبور عطا کیا تھا۔ وہ جس پائے کے شعلہ بیان مقرر تھے ویسے ہی عظیم انشا پرداز بھی تھے اور نہ صرف اردو میں ہی نہیں بلکہ انگریزی زبان میں بھی ان کی قدرت اور دسترس کا وہ عالم تھا کہ ان کے مضامین اس دور میں، یعنی بیسویں صدی کے ابتدائی عشروں میں انگلستان کے بڑے بڑے اخباروں، مثال کے طور پر ٹائمز، آبزرور اور مانچسٹر گارجین وغیرہ میں چھپا کرتے تھے۔ انگریزوں کا یہ کہنا تھا، جو مولانا کے حق میں بہت بڑا خراجِ تحسین تھا کہ مولانا کے قلم کی کاٹ سے ٹکر لینے والا شاید ہی کوئی دوسرا ہندوستانی ہو! مولانا نے1911 میں کلکتہ سے اپنا ہفتہ وار اخبار، کامریڈ نکالنا شروع کیا تھا جس کی دھوم اور شہرت بہت جلد ہندوستان کی حدود سے نکل کر انگلستان تک پہنچ گئی۔1912میں جب برطانوی ہند کا دارالحکومت کلکتہ سے دلی منتقل ہوا تو مولانا بھی اپنے اخبار سمیت دلی چلے آئے اور کامریڈ ان کی ادارت میں اپنی شہرت کے جھنڈے گاڑتا رہا۔1914 میں جب جنگِ عظیم اوّل شروع ہوئی تو ترکی نے، جہاں اس وقت تک خلافتِ عثمانیہ کا دور دورہ تھا، انگلستان کے خلاف جرمنی کا حلیف بننا پسند کیا۔ ترکی کے اس انتخاب پر اس وقت کے سب سے بڑے اخبار، ٹائمز نے29 اگست 1914کو ایک بہت زہریلا اداریہ، چوائس آف دی ٹرکس، یعنی ترکوں کے انتخاب کے عنوان سے شائع کیا اور چونکہ ترکی نے انگلستان کے دشمن جرمنوں سے الحاق کیا تھا اسلئے اس اداریہ میں ترکوں کی مذمت کا زہر بھرا ہوا تھا۔ اس زہریلے اداریہ کے جواب میں کامریڈ میں مولانا جوہر نے اسی عنوان، یعنی ترکوں کا انتخاب کے تحت ایک جوابی مضمون لکھا جو کامریڈ کے چالیس کالموں پر مشتمل تھا اور مولانا کے جوہرریز قلم کا شہکار تھا۔ مولانا نے اس میں انگریزوں کو ان کی منافقت اور ریاکاری پر آئینہ دکھایا تھا۔ لیکن فرنگی تو اس وقت اپنے آپ کو دنیا کی انوکھی مخلوق سمجھتے تھے۔۔ سمجھتے تو شاید اب بھی ہیں لیکن اب فرنگی راج کا سورج جو اس زمانے میں غروب نہیں ہوتا تھا کب کا ڈوب چکا ہے۔۔ سو فرنگی سامراج نے اپنے طنطنہ اور نخوت میں اسی دن مولانا کے کامریڈ اخبار پر پابندی لگادی۔ اپنے ولولہ انگیز اداریہ میں مولانا نے ترک قوم کو ثابت قدم رہنے اور سامراج کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے کے ساتھ ساتھ یہ مشورہ بھی دیا تھا کہ وہ فسطائیت کا ساتھ دینے کے بجائے ان کا ساتھ دیں جو فسطائیت اور آمریت کے خلاف صف آراٗ تھے۔ ترکوں نے ان کے دوسرے مشورے کو قبول نہیں کیا اور جرمنی کا ساتھ دیا جس کی شکست کے بعد برطانوی اورمغربی سامراج اپنے یورپین حلیفوں کے ہمراہ خود خلافتِ عثمانیہ پر ٹوٹ پڑا۔ ترکی کو اپنے غلط انتخاب کی بہت بھاری قیمت ادا کرنی پڑی وہ تو کمال اتاترک کی جانباز اور دلیر قیادت نے ترکوں کو بچالیا ورنہ عین ممکن تھا کہ ترکوں کے ساتھ بھی یہ ہوتا کہ ان کی داستان داستانوں میں بھی نہ ملتی۔ یہ خاصی طویل تمہید باندھنے کی
ضرورت یوں پڑی کہ آجکل، جب پاکستان میں عمران خان کو برسرِ اقتدار آئے دو سال ہونے کو آرہے ہیں، یہ بحث وہاں کے نیوز میڈیا اور بقراطوں کی بزم میں بڑے زور شور سے جاری ہے کہ عمران سے حکومت سنبھل کیوں نہیں رہی اور دو سال کے سنگم پر ان کی حکومت کی کامیابیوں کا خانہ خالی کیوں نظر آرہا ہے؟ ترکی کی عثمانوی قیادت کمزور تھی جس نے فسطائیت کے پلڑے میں اپنا وزن ڈالا اور ملک و قوم کو کمزور کیا۔ لیکن مصطفے کمال اتاترک کو اپنی قیادت کا منصب عطا کرنے کا ترک قوم کا فیصلہ سو فیصد درست ثابت ہوا۔ اور اسلئے درست ثابت ہوا کہ ایک انتہائی ہنگامی اور جان لیوا دور میں ترکوں کو جس قیادت کی ضرورت تھی وہ انہیں اتاترک کے روپ میں مل گئی۔ جدید ترکی پر اتاترک کے احسانات کی ایک طویل فہرست ہے جسے دہرانے کا یہاں موقع نہیں ہے! 1999میں نواز شریف کا تختہ الٹنے کے بعد جب جنرل پرویز مشرف انقرہ آئے تھے تو میں وہاں ان دنوں پاکستان کا سفیر تھا۔ ان سے گفتگو کے دوران قیادت کی بات نکلی، اور نکلی یوں تھی کہ موصوف نے اتاترک کو اپنا رول ماڈل کہا تھا ترک میڈیا کے سامنے۔ تو میں نے ان سے کہا تھا کہ جنرل صاحب آپ کا رول ماڈل کا انتخاب درست ہے۔ آپ اپنے رول ماڈل میں قائد اعظم محمد علی جناح کو بھی شامل کرسکتے ہیں اسلئے کہ دونوں قائدین میں بہت سی صفات مشترک تھیں اور قائد نے اتاترک کی قیادت کو بہت خراجِ عقیدت پیش کیا تھا۔ دونوں قائدین میں جو وصف مشترک تھا وہ انکی یہ صلاحیت تھی کہ ایک بار جو فیصلہ کرلیا پھر پیچھے مڑکر نہیں دیکھا۔ ویسے بھی دانا بزرگوں کا قولِ فیصل یہی ہے کہ پیچھے مڑ کر دیکھنے کی عادت پتھر بنادیتی ہے جس میں ہلنے جلنے اور بدلنے کی صلاحیت نہیں رہتی۔ عمران خان کا سب سے بڑا مسئلہ اور ان کی قیادت کی سب سے واضح کمزوری یہی ہے کہ وہ ایک فیصلہ کرنے کے بعد اس پر ثابت قدم رہنے کی صلاحیت سے محروم ہیں۔ ان کے ساتھ تو معاملہ یہ ہے کہ ایک قدم آگے تو پھر کچھ بعد دو قدم پیچھے!بہ الفاظِ دیگر، عمران کی واحد ثابت قدمی یہ ہے کہ ثابت قدمی نہیں ہے اور نہ صرف نہیں ہے بلکہ اس سے واضح انحراف دیکھنے میں آتا ہے جو قیادت کی بہت بڑی کمزوری ہے۔ یہ درست ہے کہ کبھی کبھی ایسی صورتِ حالات ہو جاتی ہے کہ پیچھے ہٹنا پڑتا ہے لیکن وہ مستثنیات میں ہونا چاہئے اسے عادت نہیں بنانا چاہئے۔ یہی وجہ ہے کہ عمران حکومت کی کارکردگی وہ نہیں ہے، ان دو برسوں میں جس کی ان سے توقع تھی۔ قائد ایسے نہیں بنتے کہ ذرا ذرا سی مخالفت یا وقتی پسپائی کے سامنے ہتھیار ڈال دئیے جائیں۔ اتاترک اور محمد علی جناح کے سامنے تو مصائب و آلام کے پہاڑ کھڑے ہوئے تھے جنہیں ان دونوں زعماٗ نے اپنی ثابت قدمی سے عبور کیا اور اپنی قوم کو کامرانی سے ہمکنار کیا۔ عمران کو تو ایک بنا بنایا ملک ملا ہے جس کے ساتھ بلاشبہ طالع آزماوٗں نے بڑی زیادتیاں کی ہیں لیکن عمران کو ان مصائب کا سامنا تو نہیں ہے جو اتاترک یا قائدِ اعظم کو درپیش تھے۔ بات اصل میں اپنے مقصد پر یقین کی ہوتی ہے اور جس طرح عمران نے ان دو برس میں مسلسل پینترے بدلے ہیں اور بقول ان کے حریفوں کے یو ٹرن بیشمار لئے ہیں اس سے اس تاثر کو تقویت ملتی ہے کہ ان کے پاس کوئی واضح لائحہ عمل نہیں ہے اور کام بس یونہی الل ٹپ چلانے سے مقصد ہے۔ صائب قیادت کی دوسری بڑی خوبی یہ ہوتی ہے کہ قائد اپنے ساتھیوں اور رفیقوں کا انتخاب کس قسم کے لوگوں میں کرتا ہے۔ اتاترک اور قائد دونوں نے اپنے گرد ان لوگوں کو رکھا جو ان کے مشن سے اتفاق کرتے تھے اور ہر قدم ان کے شانہ بشانہ رہتے تھے۔ اتا ترک کا مشن ان کے جانے کے بعد بھی برسہا برس جاری رہا اور نمایاں کامیابیاں اس کے حصے میں آئیں۔ قاعد اعظم نے بھی اپنے رفیقوں اور ہمسفروں کے انتخاب میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی تھی۔ انہیں جو رفقاٗ ملے وہ سب دیانتدار اور کھرے تھے۔ لیاقت علی خان، سردار عبد الرب نشتر، فضل الحق، شیرِ بنگال، حسین شہید سہروردی اور ناظم الدین جیسے مخلص اور بے لوث رفقائے کار ہر اعتبار سے اپنی مثال آپ تھے۔ وہ تو 1946کے انتخابات میں جب سامراج کی حلیف پارٹی جو پنجاب میں ایک عرصے سے حکومت کرتی آرہی تھی قائد اعظم کی مسلم لیگ کے ہاتھوں عبرتناک شکست سے دوچار ہوئی تو یونینسٹ پارٹی کے مسلمان جاگیردار اور چوہدری چوہوں کی طرح ڈوبتے ہوئے جہاز سے کود کود کر مسلم لیگ میں شامل ہونا شروع ہوگئے۔ قائد ان کھوٹے سکوں کو خوب پہچانتے تھے اسی لئے انہوں نے ان بے ضمیروں کو کبھی منہ نہیں لگایا لیکن قائد کی آنکھ بند ہونے کے بعد ان ہوس گزئیدوں نے پر پرزے نکالے، لیاقت علی خان کو شہید کروایا اور پھر وہی کھوٹے سکے جو یونینسٹ پارٹی کی ساری برائیاں اپنے ساتھ لیکر آئے تھے پاکستان کی تقدیر کے مالک بن بیٹھے اور انہیں کی اولادیں آج بھی اپنے آپ کو پاکستان پر حکومت کے حقدار اشرافیہ میں گنتے ہیں۔
عمران خان کی ایک اور بڑی کمزوری یہ ہے کہ ایک تو بصیرت نہیں ہے دوسرے انسانوں کی پرکھ بھی نہیں ہے۔ نیا پاکستان بنانے کا کھوکھلا نعرہ اپنی جگہ بے وقعت ہو رہا ہے اسلئے کہ اسکے خود ساختہ معمار کو یہ پرکھ ہی نہیں ہے کہ نیا پاکستان بنانے کیلئے کن دیانت دار اور مخلص کارکنوں کی ناگزیر ضرورت ہے۔ عمران کے اپنے دعوی کے بموجب تحریکِ انصاف ایک نظریاتی پارٹی بلکہ تحریک تھی جس کا مشن پاکستان کو کرپشن اور بدعنوانی کے رستے ہوئے ناسور سے پاک کرنا تھا لیکن پہلی ہی انتخابی شکست کے بعد نظریہ مصلحت کی بھینٹ چڑھ گیا اور تحریکِ انصاف کے دروازے ان ہی چوروں اور ساہوکاروں اور پیشہ ور سیاستدانوں کیلئے کھل گئے جن کے ناپاک وجود سے ملک کو پاک صاف کردینے کا عزم لیکر عمران نے خارزارِ سیاست میں قدم رکھا تھا۔ مصلحت کوشی آج بھی عمران کی حکمرانی میں بہت نمایاں ہے۔ دو برس سے کم کے عرصے میں ایف بی آر، یعنی وفاقی بورڈآف ریونیو کے پانچ سربراہ بدلے جاچکے ہیں یہی حال سرمایہ کاری کے بورڈ کا ہے اس کے بھی پانچ سربراہان آ اور جاچکے ہیں۔ اس پر طرہ یہ کہ وزیر اعظم کے مشیروں اور خصوصی معاونین کی ایک پوری فوج وزیر اعظم کے گرد جمع ہوچکی ہے۔ ایک نقارخانہ ہے جس میں بھانت بھانت کا طوطی بول رہا ہے اور یوں لگتا ہے کہ اس نقار خانے میںخود وزیرِ اعظم کی آواز کھوگئی ہے۔ المیہ ہے۔ بصیرت کا فقدان، ثابت قدمی کا عدم وجود، انسان کی پرکھ اور شناخت کے ہنر سے محرومی تو پھر کس برتے پر ؟ عمران کی قیادت کی کشتی ڈول رہی ہے اور ملک منجدھار میں گھرا ہوا ہے۔ قیادت نہیں ہے تو وزیر اور مشیر اپنی من مانی کررہے ہیں۔ وزیرِ مواصلات غلام سرور خان کی حماقت رنگ لارہی ہے۔ یورپ نے چھہ ماہ کیلئے پی آئی اے کی پروازوں پر پابندی لگادی ہے، برطانیہ نے بھی اس کارِ شر میں شامل ہونے میں دیر نہیں لگائی۔ اب ہم دعا مانگ رہے ہیں کہ کینیڈا بھی اسی راہ پر نہ چل پڑے۔ لیکن رونا آتا ہے یہ سوچ کر کہ عمران خان کو اپنے وزیرِ بے تدبیر کی حماقت کا کوئی دکھ نہیں ہے سو یہ احمق وزیر اور نادان دوست بدستور وزارت کے منصب پر فائز ہے اور ان سب کو ٹھینگا دکھا رہا ہے جنہیں اس کی حماقت کا گلہ ہے۔کمزور قیادت کا سب سے بین ثبوت یہی ہوتا ہے کہ انتشار اس سے جنم لیتا ہے اور ملک میں وہ سلسلہ شروع ہوجاتا ہے جسے طوائف الملوکی کہا جاتا ہے۔ عمران کے اقتدار میں دو برسوں میں جو چیز ہمیں سب سے زیادہ نمایاں نظر آتی ہے وہ انتشار ہے اور جس کے نتیجہ میں حکومت کے وزیر اور مشیر سب من مانی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ انتشار، یہ افراتفری ملک کے حق میں بھی نہیں ہے اور عمران کے اقتدار کیلئے تو یہ زہرِ قاتل سے کم نہیں۔ دکھ ہوتا ہے یہ کہتے ہوئے لیکن اس سے انحراف بھی دیانت داری نہیں ہوگی!