0

میں کسے ووٹ دیتا!

مجھے یاد ہے کہ نومبر 2020 ءکے صدارتی الیکشن کے دوران میری طبیعت سخت خراب تھی۔ دو عدد Surgical proceduresکے بعد ڈاکٹرز نے آرام کا مشورہ دے رکھا تھا۔ اہل خانہ بھی فکر مند تھے۔ ایسے میں ووٹ ڈالنے کے لیے گھر سے نکلنا مشکل تھا۔ پوسٹل بیلٹ کی سہولت میسر تھی مگر میں پولنگ سنٹر جا کر ووٹ ڈالنا چاہتا تھا۔ میرے گھر سے قریب ترین ا پولنگ سنٹر صرف ّ پندرہ منٹ کی واک پر ہے۔ لیکن بیماری کے باعث یہ بھی ایک ایڈونچر تھا۔آسانی کی بات یہ تھی کہ ووٹنگ سنٹر الیکشن کی تاریخ سے ایک ہفتہ پہلے ہی کھلا ہوا تھا۔ الیکشن والے دن زیادہ رش سے بچنے کے لیے یہ طریقہ اختیار کیا جاتا ہے۔ پانچ نومبر سے کچھ پہلے ایک دوست کو فون کیاتو اس نے مذاق کرتے ہوے کہا کہ تم میری پارٹی کو ووٹ نہیں دیتے اس لیے میںتمہیں ساتھ نہیں لے جاسکتا۔ میں نے کہا ووٹ تو میں نے ہر حال میں دینا ہے خواہ ٹیکسی ہی میں کیوںنہ جانا پڑے۔ اسی گپ شپ کے دوران اس نے مجھے مشورہ دیا کہ ایک فولڈنگ چیئر ساتھ لے لوں کیونکہ وہاں قطار طویل ہو گی اور مجھے زیادہ دیر کھڑا نہیں ہونا پڑیگا۔ میں نے اسے کہا کہ میں نے آج تک چھتری نہیں خریدی تو فولڈنگ چیئر کے جھنجھٹ میں کیسے پڑ سکتا ہوں۔ انگریزوں کے پاس کیونکہ اس قسم کے تمام لوازمات گھر میں موجود ہوتے ہیں اس لیے وہ ایک فولڈنگ چیئر ساتھ لے آیا۔ پولنگ بوتھ کے باہر خاصی طویل قطار کو دیکھ کر میں نے واپسی کا سوچا مگر پھر خیال آیا کہ اس مرتبہ اگر ووٹ نہ ڈال سکا تو پورے چار سال تک ندامت محسوس ہو گی۔ اس الیکشن میں مقابلہ جو بائیڈن اور ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان تھا۔ میں سابقہ صدر کے چار سالہ دور صدارت ( 2016–2020)سے خاصا بیزار تھا۔ موصوف ہر دن کا آغاز ٹویٹر پر کئی ہنگا مہ خیز بیانات دیکر کرتے تھے۔انکی صدارت میں پورا ملک چار برس تک ایک سرکس یا چڑیا گھر بنا رہا۔ لہٰذا حق رائے دہی کا استعمال ضروری تھا۔ میں نے ہمت کر کے کرسی کی پیشکش قبول نہ کی اور لائن میں کھڑا ہونے کو ترجیح دی۔ ادھر ادھر دیکھا تو کئی عمر رسیدہ لوگ بڑے آرام سے فولڈنگ کرسیوں میں بیٹھے اپنی باری انتظار کر رہے تھے۔ بڑی مشکل سے اور ایک طویل انتظار کے بعد وہ مرحلہ طے ہوا تھا۔
اس مرتبہ نومبر کے الیکشن میں مقابلہ پھر جو بائیڈن اور ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان ہے۔ سابقہ صدر اب کی بار پہلے سے زیادہ جارحیت پر آمادہ ہیں۔ ان پر چار عدد سنگین فوجداری مقدمات بنے ہوے ہیں اور وہ کھلم کھلادوبارہ صدارت حاصل کرنے کے بعد حریفوںسے حساب برابر کرنے کے بیانات دے رہے ہیں۔ اس اعتبار سے صدر بائیڈن کی حمایت پہلے سے زیادہ ضروری ہے ۔ لیکن میں اس مرتبہ انہیں ووٹ نہیں دینا چاہتا‘ وجہ اسکی یہ ہے کہ غزہ میں ہونیوالے قتل عام کے بعد کسی ایسے شخص کو ووٹ نہیں دیا جا سکتا جس کے بھیجے ہوئے اسلحے سے 27 ہزار سے زیادہ انسانوں کو ہلاک کر دیا گیا ہو۔ صدر بائیڈن آجکل جہاں کہیں بھی جلسہ کرتے ہیںانکا استقبال فلسطینیوں کی حمایت میں نعرے لگا کر کیا جاتا ہے۔ ان جلسوں میں جو بینر لوگوں نے اٹھائے ہوتے ہیں ان پر لکھا ہوتا ہے Abandon Biden.یا یہ کہ Not with my tax dollars.یعنی میرے ٹیکس کے پیسوں سے تم فلسطینیوں پر بمباری نہیں کر سکتے۔
ان واقعات کے بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ پاکستان میں چند روز پہلے انتخابات ہوئے ہیں۔ آٹھ اور نو فروری کومیںنے تقریباّّ بیس گھنٹے تک جیونیوز‘ سماء اور اے آر وائی چینلز پر الیکشن ٹرانسمیشنز دیکھیں۔ اس دوران میں یہ سوچتا رہا کہ میں اگر پشاور میں ہوتا تو کسے ووٹ دیتا۔ اسکا جواب میرے ذہن میں یہی آیاکہ کوئی بھی ایسا امیدوار‘ جسکا تعلق خواہ کسی بھی سیاسی جماعت سے کیوں نہ ہو ‘ جو ملک کو درپیش سنگین مسائل کا ادراک رکھتا ہو اور انکے حل کے لیے کوشش کرنے پر آمادہ ہو۔ میری دانست میں وطن عزیز کو درپیش سنگین مسائل میں سے ایک آبادی میں ہوشربا اضافہ ہے۔ گیلپ پاکستان کے ادارے National Population And Housing Census کے مطابق اسوقت پاکستان کی آبادی 240 ملین سے کچھ زیادہ ہے اور یہ 2050 میں 403ملین ہو جائیگی۔وطن عزیز میں ہر سال 5.6ملین بچے پیدا ہوتے ہیں اور ان میں سے کم از کم 42 فیصد Stuntedیعنی نشو نما کے اعتبار سے کمزور ہوتے ہیں۔ ہمارے ملک کا دوسرا بڑا مسئلہ تعلیم کے پست معیار کا ہے۔معروف دانشور اور تجزیہ نگار پروفیسر پرویز ہودبھائی کے 10 فروری کے روزنامہ ڈان میں شائع ہونیوالے آرٹیکل کے مطابق ملک بھر کی ہزاروں یونیورسٹیوں کے اسا تذہ کی تعلیمی قابلیت نہایت پست ہے اور وہ طالبعلموں کی تخلیقی صلاحیتوں کو اجا گر کرنے کے بجائے انہیں رٹا لگا کر امتحان پاس کرنے کے طریقے سکھاتے ہیں۔ میری دانست میں قومی یا صوبائی اسمبلی کا کوئی بھی امیدوار جو ان دو بنیادی مسائل کا ادراک نہیں رکھتا وہ میرے ووٹ کا مستحق نہیں ہو سکتا۔ ہم نے اگر اگلی ربع صدی میں ایک با شعور اور توانا قوم تیار کرنا ہے تو اسکے لیے ہمیں سب سے پہلے آبادی‘ تعلیم اور نوجوانوں کے لیے ملازمتوں کے حصول جیسے مسائل کی طرف توجہ دینا ہو گی ۔ ورنہ اسمبلیوں میں دھواں دھار تقریریں ہمیں مزید پسماندگی کے علاوہ کچھ بھی نہ دے سکیں گی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں