پاکستانی فوج کو افغانستان پر ایک فضائی حملہ کرنا پڑا یہ حملہ صوبہ پکتیا میں کیا گیا یہ خبریں ہیں یہ حملہ ڈرون کے ذریعہ کیا گیا اور اس میں 60سے زیادہ لوگ ہلاک ہوئے، یہ حملہ کیوں کیا گیا اس کے لئے افغانستان سے کئے گئے دہشت گردوں کے حملوں پر نظر ڈالنا ضروری ہے پکتیا صوبہ کرم ایجنسی کے ساتھ سرحدی طور پر ملا ہوا ہے پکتیا حکومت تحریک طالبان سے پہلے حقانی گروپ کا گڑھ کہاجاتا تھا، جلال الدین حقانی اس کے روح رواں تھے، اس وقت پاک فوج کی حقانی گروپ کو حمایت حاصل تھی، اس وقت افغانستان میں موجودہ حکومت کے وزیر داخلہ جلال الدین حقانی کے صاحبزادے سراج الدین حقانی ہیں اور صوبہ پکتیا ابھی تک حقانی گروپ کے کنٹرول میں ہی ہے۔ درحقیقت پاک فوج کا یہ حملہ اس حملے کے جواب میں ہے جو جنوبی وزیرستان میں ٹی ٹی پی نے کیا تھا جس میں 16فوجی جوان شہید ہوئے تھے۔ ٹی ٹی پی نے 40سے زیادہ فوجی جوانوں کی ہلاکت کا ذکر کیا لیکن آئی ایس پی آر نے 16جوانوں کی شہادت کو قبول کیا 16قیمتیں جانیں بھی بہت ہوتی ہیں یہ بات پاک فوج نے بہت دکھ کے ساتھ برداشت کی تھی اس کی وجہ ایک تو پاکستان نے افغان بھائیوں کی مہمان داری اتنے سال تک کی۔ اپنا اربوں کا نقصان کیا ٹی ٹی پی نے پہلے بھی تقریباً 80ہزار پاکستانیوں کو شہید کیا یہ سب بے گناہ عام شہری تھے لیکن پاک فوج نے اس وقت بھی صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔ اس سے پہلے ایک مرتبہ جنرل باجوہ کے دور میں ڈرون حملہ افغانستان پر کیا گیا تھا اس کے بعدپاک فوج بہت صبر کا مظاہرہ کررہی ہے ورنہ ا تنی ٹرینڈ پاکستانی فوج کے لئے تحریک طالبان کو ختم کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔
کرم ایجنسی پر حملے کے بعد ایک خبر کے مطابق چائنہ نے اس میں مداخلت کی ، چینی مندوب نے کابل اور اسلام آباد دونوں دارالحکومتوں کا ودرہ کیا اور مذاکرات پر زور دیا اس کے جواب میں پاکستانی فوج نے ایک ٹیم صادق خان کی قیادت میں مذاکرات کے لئے کابل بھیجا، صادق خان افغانستان میں پاکستانی سفیر رہ چکے ہیں بہت سینئر سفارت کار ہیں یہ وفد ابھی افغانستان میں ہی موجود ہے اور ابھی تک پاکستان واپس نہیں آیا لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے یہ مذاکرات کامیاب نہیں ہوئے اسی لئے پاک فوج کو یہ ڈرون حملہ کرنا پڑا دنیا کو اب اس بات کااحساس ہو گیا ہے کہ پاکستان نے اب ڈرون ٹیکنالوجی میں بہت ترقی کر لی ہے اسی لئے یہ حملہ اتنا کامیاب ہوا اس سے پہلے ایران پر بھی ڈرون سے حملہ کیا جا چکا ہے، پاک فوج بہت ذمہ داری اور کامیابی سے اس فیلڈ میں آگے بڑھ چکی ہے، اس وقت پاکستان میں ریڈ الرٹ ہے۔ پاک فوج اب ٹی ٹی پی کی جوابی کارروائی کا انتظار کررہی ہے کہ شاید ٹی ٹی پی اس کے جواب میں کسی بڑی کارروائی کی کوششیں کرے لیکن حالات بہت خراب ہیں اور کسی وقت بھی کہیں بھی کچھ ہو سکتا ہے۔
اب یہ افغان حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ٹی ٹی پی کو اپنے علاقوں سے کارروائی کی اجازت نہ دے۔ خبر یہ ہے کہ جس کیمپ پر حملہ کیا گیا وہ خودکش حملوں کی ٹریننگ کا کیمپ تھا، وہاں پر نوجوانوں کو لالچ دے کر لایا جاتا تھااور موجودہ دور حکومت میں ٹی ٹی پی کے حملے اس ملک میں بہت بڑھ گئے ہیںوہ بھی بلاوجہ ورنہ ان حملوں کا اب کوئی مقصد نہیں ہے، نہ تو پاک فوج اب افغانستان کے معاملوں میں مداخلت کرتی ہے بلکہ کوشش کرتی ہے بیرونی دنیا اور اسلامی ملکوں میں افغانستان کی مدد کی جائے اور اس کی سفارتی کوششوں کو بہتر کیا جائے، پاکستان ایک بین الاقوامی کانفرنس اسلام آباد میں عمران خان کے دور میں کرواچکا ہے جب افغانستان کی پوری ٹیم پاکستان آئی ہوئی تھی اور دنیا کے نمائندوں سے ملاقات کی اور اپنی حکومت کو روشناس کرایا لیکن افغان حکومت بہت ہی احسان فراموش حکومت ثابت ہوئی اور نیکی کا صلہ بھائی چارگی سے نہیں دیا ویسے حالات بہت خراب ہیں، دونوں حکومتوں کو برداشت اور عمل سے بات کو آگے بڑھانا چاہیے ورنہ دونوں ملکوں کے عوام کو نقصان ہو گا۔
0