0

مشرق وسطیٰ پر ہوش ربا انکشافات

کولمبیا یونیورسٹی کے پروفیسر، جیوفری سیکس سے ٹکر ولسن شو میں سوال کیا گیاکہ شام میں حکومت کا تختہ الٹا گیا، کیوں؟ جواب تھا کہ یہ اسرائیل کی تیس سالہ جد و جہد کا نتیجہ تھا۔ یہ نیتن یاہو کی وہ کوشش ہے جس میں وہ مشرق وسطیٰ کا نقشہ بدلنا چاہتا ہے،یہ ایک تباہی مسلسل ہے۔لیکن جیسے نیتن یاہو نے اسد کے جانے کے بعد خود کہا کہ کہ ہم نے مشرق وسطیٰ کو بدل دیا ہے۔تو ہمیں سمجھ لینا چاہیے کہ یہ ایک ہفتہ میں نہیں ہوا بلکہ اس پر کئی سالوں سے کام ہو رہا تھا۔اور مشرق وسطیٰ کی جنگ کا حصہ تھا جو کب سے جاری ہے۔شام میں جو ہوا اس کو سمجھنے کے لیے ہمیں نیٹو کے سربراہ جنرل لیزلی کلارک جو 9-11کے فوراً بعد امریکی محکمہ دفاع میں گیا جہاں اسے ایک کاغذ دیکھایا گیاجس کے مطابق کہ مشرق وسطیٰ میں آئیندہ پانچ سالوں میںسات بڑی جنگیں ہوں گی۔وہ بڑا حیران ہوا کہ اس کا اس سارے معاملے سے کیا تعلق ہے؟ اسے بتایا گیا کہ یہ اسرائیلی منصوبہ ہے جس میں سات ممالک کا ذکر ہے۔ وہ ملک تھے: لبنان، شام، عراق، ایران، اور افریقہ میں لیبیا، سومالیہ اور سوڈان۔ان سات میں سے چھ ملک ایسے ہیں جن میں امریکہ، اسرائیل کی خاطر محاذ آرائی میں مشغول رہا ہے۔اس لیے شام میں جو کچھ ہوا وہ اسرائیل کے اسی طویل المدتی منصوبے کا حصہ تھا۔ جس کی ابتدا نیتن یاہو اور اس کے امریکن مشیروں کی 1996سے ہوئی تھی۔اس کا نام تھا کلین بریک۔یہ ایک سیاسی مسودہ تھا جو 9-11کے بعد امریکنوں اور نیتن یاہو نے بنایا جب وہ اسرائیل کا وزیر اعظم بنا۔عراق پر جنگ اس منصوبہ کی پہلی جنگ تھی۔سوال: کلین بریک کا کیا مطلب تھا؟ جواب: مشرق وسطیٰ میں ایک صاف شفاف چھٹکارا۔یعنی ماضی سے چھٹکارا۔ہم امن کی خاطر زمین کا سودا نہیں کریں گے۔یہ اس صورت میں تھا کہ اسرائیل اپنے ساتھ ایک فلسطینی ریاست کا وجود مان لے۔اس کے بجائے ہم ایک بڑا اسرائیل بنائیں گے اور جو اس کو نہیں مانے گا اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے۔اور یہ کرنے کے لیے ہم ہر اس حکومت کا تختہ الٹ دیں گے جو فلسطینیوں کی حمایت کرے گی۔ یہ میرے خیال میں ایک حیران کن بڑھک تھی، جو امریکہ اور مشرق وسطیٰ کے لیے مکمل تباہی کی نشاندہی کرتی تھی۔ اور یہ 1996سے نیتن یاہو کا منصوبہ رہا ہے۔اور امریکہ اس کی خاطر جنگیں کرتا رہا ہے۔اس لیے جو شام میں ہوا وہ سب اسی منصوبہ کا حصہ ہے جو ایک طرح سے پایۂ تکمیل کو پہنچا ہے۔
نیتن یاہو9-11کے واقع کے بعد 20ستمبر،2001 میں امریکہ آیا۔اس موقع پر اس نے کہا کہ کہ دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے عراق پر حملہ کرنا ہو گا۔ اس کے بعد شام پر۔ اس کا منصوبہ یہی تھا کہ پانچ سال میں سات ملکوں پر حملہ کیا جائے۔ اس کا کہنا تھا دہشت گردوں کے پیچھے جانا بیکار ہے ہمیں ان حکومتوں کے خلاف جانا چاہیے جہاں سے دہشت گرد آتے ہیں۔ لہٰذا، اب تک جتنے ریکارڈ، فائلیں، دستاویزات پڑھنے سے پتہ چلا ہے، کہ امریکن عراق کی جنگ میں پھنس گئے، اور آگے نہیں بڑھ سکے۔وہ دوسری جنگ شام کے خلاف ہونی تھی۔ وہ نہیں ہو سکی۔گذشتہ ہفتہ جو کچھ شام میں ہوا اس کی ابتدا ءاوبامہ کے عہد میں ہو چکی تھی۔لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ صدر کون تھا کیونکہ یہ پوشیدہ حکمت عملی تھی جس پر عمل ہونا ہی ہونا تھا۔ اوباما نے سی آئی اے سے کہا کہ اسد کی حکومت گروا دی جائے۔یہ 2011 کی بات ہے۔سوال: اوبامہ کو کیا ضروت پڑی تھی کہ اسد کی حکومت ختم کروائے؟جواب: اس لیے کہ امریکہ تیس سال سے اسرائیل کی بنائی ہوئی مشرق وسطیٰ کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہو رہا ہے۔اور بس ایسے ہی ہوتا ہے۔ہمارے پاس اسرائیل کی لابی ہے۔ کلین بریک منصوبہ ہے۔پانچ سال میں سات ملکوں پر جنگ کا تہیہ۔ دلچسپی کی بات یہ ہے کہ یہ پاگل پن سال ہا سال سے چلا آ رہا ہے۔ نہ اس سے امریکنوں کوہی آگاہ کیا جاتا ہے اور اور نہ کوئی توجیح دی جاتی ہے۔آپ دیکھ سکتے ہیں قدم با قدم کہ کیا ہو رہا ہے۔سات میں سے چھ جنگیں ہو چکی ہیں صرف ایران اب تک بچا ہوا ہے۔ اگر آپ مین سٹریم میڈیا کو بغور دیکھیں اور سمجھیں تو وہ ایک عرصہ سے ایران پر حملہ کرنے کی ترغیب دے رہا ہے۔اور نیتن یاہو بھی۔
اوبامہ نے ان سات ملکوں میں سے دو پرجنگ مسلط کی جن میں لیبیا کی حکومت گرائی گئی،یہ سن 2011ء کی بات ہے کہ ہلیری کلنٹن نے کہا کہ اسد کو بھی جانا چاہیے۔ میں نے جب یہ سنا تو سوچا کہ یہ کیسے کریں گے آپ جیسا بھی پروپیگنڈا سنیں، دیکھیں، شام ایک نارمل ہنستا بستا ملک ہے۔ابھی میں نے آئی ایم ایف کی ایک 2009کی رپورٹ شام کے بارے میںدیکھی، جس میں شام میں اقتصادی ترقی کی باتیں لکھی تھیں، اور یہ کہ آنے والے سالوں میں شام کی اقتصادی حالت اور بہتر ہونے والی تھی۔یہ ایک ٹھیک ٹھاک ملک تھا۔اور کسی صورت میں بھی امریکہ کے لیے خطرہ نہیں تھا۔لیکن نیتن یاہو کے مطابق وہ اسرائیل کے لیے خطرہ تھا۔ اس لیے کہ اسرائیل کبھی بھی فلسطین کی ریاست نہیں بننے دے گا اور اس لیے جو بھی ریاست فلسطین کی مدد کرنے کے حق میں ہو گی اسے ختم کرنا ضروری ہے۔ہمارا مقصد اولیٰ ہے عظیم تر اسرائیل۔اگر یہ عظیم اسرئیل کا فتور نہ ہوتا اور فلسطین کی ریاست بن جاتی تو اب تک جو لاکھوں انسانوں کا خون بہا ہے وہ نہ بہتا۔
اسرائیل عظیم کیا ہے؟ عظیم اسرائیل سے مراد یہ سمجھیں کہ اسرائیل نہ صرف اپنی ملکی حدود پر قابض ہو، وہ مغربی کنارے پر بھی حاکم ہو گا، گولان ہائٹس پر بھی، اور غزہ پر بھی۔یہ سب اور اس کے علاوہ مشرق یروشلم میںبھی۔ نیتن یاہو کا کہنا ہے کہ جو علاقے 1967 کی جنگ میں فتح کیے تھے، کہ وہ ہم کبھی واپس نہیں کریںگے۔ کیونکہ یہ ہمارے لیے محفوظ نہیں ہو گا۔پھر وہاں مذہبی انتہا پسند بھی ہیں جوموسیٰ کی کتاب (غالباًتورات)کا ذکر کرتے ہیں جو ڈھائی ہزار سال پرانی کتاب ہے۔اس کے مطابق خدا نے ہمیں دریائے نیل کے اس کنارے سے لیکردریائے فرا ت تک کا علاقہ دیا تھا ۔اور اسرائیل میں ایسے انتہا پسند بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم جو بھی لے سکیں ہمیں کوئی کیوں روکے۔ یہ خدا کا انعام ہے۔ان کے مطابق اس علاقہ میں کچھ حصہ مصر کا۔کچھ شام، لبنان، اور کچھ حصہ عراق کا شامل ہو گا۔ اور وہ جو لاکھوں فلسطینی رہتے ہیں ان کو کسی نہ کسی طریقے سے منہا کر دیا جائے گا۔خواہ نسل کشی سے، یا گھر بدر کر کے ، یا غلام بنا کر۔ابتک ۴۵ ہزار نہیں بلکہ ایک لاکھ فلسطینی مارے جا چکے ہیں۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ ہم فلسطینیوں کے ساتھ امن نہیں چاہتے، جو کوئی فلسطینیوں کی حمایت کرے گا ہم اس کو تہس نہس کر دیں گے۔جب ہماری زندگی کو خطرہ ہو تو اس دشمن کو تباہ و برباد کر دینا چاہیے۔اس لیے کہ وہ ہماری زندگی کے درپے ہیں، ان کو ختم کرنا ضروری ہے۔ یہ جنگ ہے اور مشرق وسطیٰ کا امن اس سے جڑا ہوا ہے۔جب اوباما نے سی آئی اے کو کہا کہ اسد کی حکومت گرائو خواہ اس کے لیے ترکی کی مدد لو یا سعودی عرب کی۔اس کوشش میں 13سال لگے۔ اس کا منصوبہ کا نام تھا آپریشن ٹمبرمور۔
یہ ساری کاروائی عوام سے چھپا کر رکھی جاتی رہی اگرچہ ان پر کروڑوں ڈالر کا خرچ کیا جاتا تھا۔ اسرائیل نے اتنی جنگیں امریکہ کی کروائیں جن پرکھربوں ڈالر خرچ ہوئے اور جانیں گئیں لیکن کبھی بھی لوگوں کونہیں بتایا گیا۔امریکہ نے کئی سال سے اپنی خارجی حکمت عملی اسرائیل کے حوالے کئے رکھی ہے ، جو ایک ہولناک امر ہے۔ ابھی جو شام کی حکومت گرائی گئی تو مجال ہے کہ امریکی حکومت نے اپنے عوام کو اس کے بارے میں کچھ بتایا ہو۔یہ اتنی دلچسپ بات ہے کہ نیتن یاہو جب امریکنوں کے سامنے بات کرتا ہے، اور جنگوں کو حق بجانب کرتا ہے۔ اسرائیل نے کبھی ان جنگوں کے بارے میں امریکہ کے اخراجات اور نقصانات کا تذکرہ نہیں کیا۔
اب ذرا ان سات ملکوں کی طرف دیکھیں جنہیں امریکہ نے اسرائیل کی خاطر تباہ کیا۔ لیبیا اب بمشکل ایک ملک کا ڈھانچہ ہے۔شام کا انجام ٹکڑے ٹکڑے ہونا ہے۔یہ آنے والے سالوں میں جنگوں میں مصروف رہے گا۔عراق میں اربوں ڈالر خرچ کر کے بھی کوئی استحکام نہیں۔یو ایس نے سوڈان کے ٹکڑے کر دئیے۔کیوں؟ اس لیے کہ سوڈان اسرائیل کا دشمن تھا۔اب سوڈان میں بھی خانہ جنگی ہے اور جنوبی سوڈان میں جو سوڈان سے علیحدہ ہوا تھا اس میں بھی خانہ جنگی ہو رہی ہے۔صومالیہ اب ایک ملک کی شکل میں بھی نہیں ہے۔سات میں سے چھ ممالک کا تو بیڑہ غرق ہو گیا۔ اب ایران باقی ہے جس کے شامت آنے والی ہے۔
کیا جو شام میں ہوا اس میں امریکہ کا کوئی کردارتھا؟ بالکل تھا۔ جیسے پہلے بتایا گیا، یہ تو شام کے خلاف محاذ تھا جو ایک لمبے عرصہ سے چل رہا تھا، البتہ ان آخری دنوں میں کیا امریکہ شامل تھا، یہ نہیں کہا جا سکتا۔ کیا خیال ہے کہ امریکہ کا  27کھرب کا قرض دارکیسے بنا؟ ان جنگوں میں کم از کم سات کھرب خرچ ہوا۔نیتین یاہو ان جنگوں کو ایک دن بھی نہیں سہار سکتا تھا۔ ہم اپنے دوست کا ساتھ نہیں دے رہے ہم اس کی حکمت عملی چلا رہے ہیں جیسے وہ ہماری ہو۔اس میں امریکہ کا کیا فائدہ ہے؟ ہمیں ان جنگوں سے صرف دوسرے ملکوں سے دوری ملی ہے۔ہم اقوام متحدہ میںتنہا رہ گئے ہیں۔شام میں 13سال سے یہ جنگ چل رہی تھی۔یہ جنگ 2011 میں شروع ہوئی جسے سی آئی اے کہتا ہے مقامی شورش، جسے مقامی حریت پسند چلا رہے تھے۔ یعنی شامی ہی شام کے خلاف جنگ آزما تھے۔ایسے ہی ہر CIA آپریشن ہوتا ہے۔لیکن CIA ہی انہیں چھوٹے بڑے ہتھیار مہیا کرتا ہے۔مالی امداد اور تربیت بھی دیتا ہے۔انہیں کیمپس بھی دیتا ہے اور سیاسی منظر نامہ بھی۔2012میں قتل و غارت شروع ہو چکا تھا۔بہت سے لوگ، معصوم شہری مر رہے تھے۔ایسے مقامات میں جہاں سے انسانیت کی ابتدا ہوئی تھی۔ وہ تباہ کیے جا رہے تھے۔پھر ایک بہت قابل اعتماد شخص کو ذمہ واری دی گئی کہ امن کا راستہ ڈھونڈے۔وہ 2012 میں اسے ملا تو اس نے کہا کہ ہم ناکام ہو گئے ہیں۔ہم بالکل امن کا معاہدہ کر سکتے تھے لیکن ایک طاقت نے رخنہ ڈال دیا اور وہ تھا امریکہ جس نے شرط لگائی کہ اسد کو جانا ہو گا۔یہ ممکن نہیں تھا تو وہ امن کا راستہ وہیں ختم ہو گیا۔سوال: آخر اسد میں کیا برائی تھی کہ ہم اس کے اتنے خلاف تھے؟جواب: ہم جب بھی کسی حکومت کا تختہ الٹنے کا کرتے ہیں، تو اس کو ایک ظالم آمر ، ہٹلر سے بھی بد تر بتاتے ہیں۔جہاں تک نیو یارک ٹائمز کا تعلق ہے وہ کبھی بھی کسی ایسے واقعہ کا پس منظر نہیں بتاتے۔سچ تو یہ ہے کہ مشرق وسطیٰ میں ہماری خارجہ حکمت عملی کی کوئی توجیح نہیں ہے اور نہ دی جاتی ہے۔یہ اسرائیل کے حق میں ہے نہ کہ امریکہ کے۔شام میں اب خانہ جنگی اور جنگ جاری رہے گی۔ اور اب ایران سے جنگ کے طبل بج رہے ہیں۔ اب نیتن یاہو کی دلی خواہش ہے کہ امریکہ ایران پر حملہ کرے۔ یہ عین ممکن ہے کہ ٹرمپ کے کچھ فوجی مشیر بھی اسے یہ مشورہ دیں۔چونکہ نئی انتظامیہ میں مختلف لوگ آ رہے ہیں، تو حالات کو اسرائیل کے مطابق ڈھالنے میں ایک کشمکش تو چلے گی۔اگر کچھ لوگ ایسا کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو میں کہتا ہوں کہ یہ ایک ذہنی سراب ہو گا۔اب جو سات ملک لیزلی کلارک کو بتائے گئے تھے ان میں سے چھ میں حکومتیں بدل دی گئیں، لیکن ان میں سے کسی میں بھی کوئی دیر پا امن نہیں آیا اور نہ پائیدار قسم کی حکومتیں بنیں۔اس ساری کاروائی سے اسرائیل کو مغربی کنارے،غزہ، اور گولان ہائیٹس پر کنٹرول تو مل گیا لیکن امریکہ کو کیا ملا سوائے اس کے یہ قرضوں کے انبار میں دھنس گیا۔ اب کوئی ایسا طریقہ نہیں کہ ہم ایران پر چڑھ دوڑیں اور اس پر قبضہ کر لیں۔ایران طاقتور ملک ہے اور اس کے حواری بھی ہیں۔جیسے روس اور چین۔
اب یہ پوچھا جا سکتا ہے کہ کیا صدر ٹرمپ ان حالات کو بدل سکے گا؟ واشنگٹن میں ایک گروہ ہے جو روس اور چین سے جنگ کرنے میں برتری حاصل کرنا چاہتا ہے۔ دفاع کا تقریباً ڈیڑھ کھرب ڈالر کا بجٹ ہے۔کچھ کا خیال ہے کہ روس اب کوئی مسئلہ نہیں۔ ہمیں چین کے خلاف جنگ کی تیار ی کرنی چاہیے۔یہ سارا خیال ایک ہولناک مذاق ہے۔کچھ لوگ جو ٹرمپ کے ساتھ آ رہے ہیں، ان کا خیال ہے کہ امریکہ کو نئی ٹیکنالوجی اور اختراعات پر زور دینا چاہیے نہ کہ جنگوں پر۔بائیڈن انتظامیہ تمام حکومتوں میںبد ترین تھی۔ذرا سوچیں کہ بائیڈن کے وزیر خارجہ نے سال ہا سال سے کبھی روسی مد مقابل سے کبھی بات نہیں کی۔اندازہ ہے کہ یوکرین میں اب تک دس لاکھ بندے ہلاک ہو چکے ہیں۔اور امریکہ نے ایک دفعہ بھی روس سے بات کرنے کی کوشش نہیں کی۔یہ ایک انتہائی شرمناک حکومت تھی۔بائیڈن کے وزیر انتہائی بودے ثابت ہوئے ہیں۔پس منظر میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ یوکرین جنوبی کوریا سے ہتھیار خریدنا چاہتا تھا۔ ہو سکتا ہے کہ پس منظر میں یہ بھی وجہ ہو۔ شام میں اسد کا تختہ الٹنے میں حزب اللہ کا بھی کردار ہو سکتا ہے جو اسد کے، ایران کے ساتھ، بڑے حمائتی تھے۔ اسرائیل نے جب حزب اللہ پر حملہ کیا تو اسد کمزور ہو گیا۔اور اس نے حکومت چھوڑنے ہی میں اپنی خیریت سمجھی۔( جو کچھ پاکستان میں ہو رہا ہے وہ اس لسٹ میں تو نہیں تھا لیکن بعد کا اضافہ لگتا ہے؟)۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں