0

انتخابی معرکہ ۔۔ ففٹی ففٹی

سیاسی پنڈتوں اور سرویز کمپنیوں نے ہاتھ اٹھا دئے ہیں۔ ممتاز دانشور اور تجزیہ نگار کہہ ر ہے ہیں کہ نو مستند Opinion Polls میں سے تین میں کملا ہیرس ایک یا دو پوائینٹس سے جیت رہی ہیں‘ تین میں ڈونلڈ ٹرمپ کچھ آگے ہیں اور باقی کے تین میں مقابلہ Dead Heat ہے یعنی کہ بالکل برابر ہے۔ ایسے میں ماہرین پیشگوئی کرکے اپنی ساکھ دائو پر نہیں لگانا چاہتے۔ جو ایسا کر رہے ہیں سوشل میڈیا انکی خوب خبر لے رہا ہے۔ اسکے باوجود ظن و تخمین کرنے والوں اور زائچہ نگاروں کی روزی لگی ہوئی ہے۔ پانچ نومبر کے انتخابی معرکے کے ففٹی ففٹی اور فوٹو فنش ہونیکی وجہ سے لوگ زیادہ بیقرار ہو چکے ہیں۔ اب عوام الناس تقاضا کر رہے ہیں کہ چلو ٹھیک ہے حساب کتاب برابر ہے مگر جبلت اور وجدان کی بھی کچھ اہمیت ہوتی ہے۔ فوری بصیرت کو بھی تو بروئے کار لایا جا سکتا ہے۔ ان اضافی خوبیوں سے ہی استفادہ کر لیجئے اور کچھ تو بتایئے کہ کون آگے ہے اور کون پیچھے۔ لوگوں کی اس بے چینی کو دیکھتے ہوے سیاسی پیش گوئیاں کرنے والی ایک نامی گرامی کمپنی نے بلآ خر کمر ہمت باندھ لی اور اسکے ایڈیٹر Nate Silver نے ایک مضمون لکھ کر اعلان کر دیا کہ دونوں صدارتی امیدواروں میں سے فلاں کی جیت کے آثار کچھ زیادہ ہیں۔ نیٹ سلور کی کمپنی کا نام فائیو تھرٹی ایٹ(538) ہے اور انہوں نے ڈرتے ڈرتے لکھا ہے My gut says Trump will win. But don’t trust anyones’s gut. مطلب یہ ہوا کہ میری جبلت یہ کہتی ہے کہ ٹرمپ جیتے گا مگر کسی کی جبلت پر بھروسہ نہ کریں۔ یہ صاف چھپتے بھی نہیںاورسامنے آتے بھی نہیں والی بات ہے۔ اسے کچھ بھی نہ کہا اور کہہ بھی گئے کا عنوان بھی دیا جا سکتا ہے مگر انکی بات دل کو اس لیے لگتی ہے کہ ایک تو انہوں نے یہ نیم دروں نیم بروںقسم کی پیش گوئی ٹھوک بجا کر کی ہے اور دوسرا اپنی اور دوسری کمپنیوں کے اعدادو شمار پیش کر کے اپنا تھیسس ثابت کیا ہے۔
پچیس اکتوبر کے دی نیویارک ٹائمز کے مضمون میں نیٹ سلور نے لکھاہے کہ ففٹی ففٹی کی پیش گوئی ہی ایک ذمہ دارانہ تجزیہ ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ دونوں امیدواروںمیں سے کوئی بھی ایک نہایت معمولی مارجن سے جیت سکتا ہے۔ لیکن وجدان اورجبلت سے اگر استفادہ کیا جائے تو اندازہ اور قیاس کی سوئی سرک جاتی ہے اور خوش نصیب فاتح کا چہرہ نمو دار ہو جاتا ہے۔ نیٹ سلور نے لکھا ہے کہ پنڈت اس لیے گھبرائے ہوئے ہیں کہ 2016 میں انہوں نے بڑھ چڑھ کر ہیلری کلنٹن کی جیت کی پیش گوئی کی تھی۔ نتائج آنے کے دوران جشن بھی منایا جا رہا تھا مگر دیکھتے ہی دیکھتے پانسہ پلٹ گیا اور ڈونلڈ ٹرمپ صدر امریکہ بن گئے۔ اسکے بعد 2020 میں بھی سرویز کمپنیوں نے ٹرمپ کی دندان شکن شکست کا اعلان کیا تھا مگر جو بائیڈن بمشکل تمام بہت کم مارجن سے جیتے تھے۔ دونوں مرتبہ پولنگ کمپنیوں نے اپنی ناکامی کا یہ جواز پیش کیا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے ووٹر چھپے رہتے ہیں‘ وہ سرویز اور انٹرویوز میں حصہ نہیں لیتے۔ اسکی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ ٹرمپ کے حامی کالج کے تعلیم یافتہ نہیں ہیں اس لئے وہ آخری وقت تک خود کو Undecided ظاہر کرتے رہتے ہیں۔ ان ووٹروں کی ایک بڑی تعداد جب ڈونلڈٹرمپ کے حق میں ووٹ ڈالتی ہے تو سب سرویز دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔ اسی لیے اس مرتبہ پولنگ کمپنیاں کہہ رہی ہیں کہ دونوں امیدواروں میں مقابلہ برابر ہے۔ اس حساب کتاب میں اگر لا تعلق لوگوں کے ووٹوں کا اضافہ کیا جائے تو پھر قرعہ فال ڈونلڈ ٹرمپ ہی کے نام نکلتا ہے۔
اس نمبر گیم میں اہم بات یہ ہے کہ فیصلہ کن معرکہ ہمیشہ کی طرح اسمر تبہ بھی سات سئونگ ریاستوں میں ہو گا اور ان میںسے کسی ایک میں بھی صورتحال واضح نہیں ہے۔ نیو یارک ٹائمز کے چند گھنٹے پہلے انٹر نیٹ پر بتائے گئے اعدادو شار کے مطابق وسکانسن‘ نواڈا‘ اور پنسلوینیا میں کاملا ہیرس ایک پرسنٹیج پوائنٹ سے آگے ہیں جبکہ مشی گن‘ شمالی کیرولائنا‘ جارجیا‘ اور ایری زونا میں ڈونلڈ ٹرمپ کو اتنے ہی مارجن سے برتری حاصل ہے۔ ان سات ریاستوں میں اگر ڈیموکریٹک پارٹی کے ووٹرز ایک بڑی تعداد میں ووٹ ڈالنے آتے ہیں تو اس سے کاملا ہیرس کو بڑا فائدہ ہو گا۔ دوسری طرف اگر دونلڈ ٹرمپ کے ’’ شرمیلے ووٹرز‘‘ ایک بڑے ہجوم کی صورت میں نکلتے ہیں تو نتیجہ سابقہ صدر کے حق میں ہوگا۔
ان سات ریاستوں کے علاوہ ملک بھر میں جو عنصر فیصلہ کن ثابت ہو سکتا ہے وہ کاملا ہیرس کا خاتون ہونا ہے۔ ماہرین اس مسئلے پر بھی تذبذب کا شکار ہیں کہ امریکی عوام ایک خاتون کو صدر بنانے پر آمادہ ہوں گے یا نہیں۔ کاملا ہیرس سیاہ فام بھی ہیں۔ وہ اگر کامیاب ہوتی ہیں تو انہیں پہلی خاتون اور دوسری بلیک امریکی صدر ہونیکا اعزاز حاصل ہو گا۔ کاملا ہیرس کے حق میں سب سے بڑا عنصر ریپبلیکن پارٹی کا اپنے مذہبی نظریات کی وجہ سے اسقاط حمل کی مخالفت کرنا ہے۔ سپریم کورٹ نے دو سال پہلے ایک فیصلے کی رو سے ملک بھر میں اسقاط حمل کو غیر قانونی قرار دیا تھا۔ خواتین اس فیصلے پر بر افروختہ ہیں۔ ا س لیے کئی پولز کے مطابق خواتین کی ایک بڑی تعداد کاملا ہیرس کو ووٹ دے گی۔ مختلف سرویز کے مطابق نوجوان بلیک اور لاطینی ووٹرز صدر بائیڈن کی اقتصادی پالیسیوں کی وجہ سے خاصے نالاں ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی معاشی پالسیاں پہلے کی طرح اس مرتبہ بھی انکے لیے بہتر ثابت ہوں گی۔ یہ وہ تمام عوامل ہیں جنکی وجہ سے پانچ نومبر کا الیکشن ایک گورکھ دھندہ بن چکا ہے ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں