0

غفلت میں سوئے لوگ

تاریخی اوراق کا سینہ کھولیں تو ہم مسلمانوں کی کہانیاں ،قصے ، غفلت میں سوئے لوگوں کے افسانے ہماری روح کو خواب ِ خرگوش میں ڈوبے ضمیر کو جھنجھوڑتے تو ہیں مگر ہم سبق آموز انجام سے اپنی بہتر راہیںمتعین نہیں کرتے تاریخ بتاتی ہے کہ بغداد جو زمانہ قدیم میں مسلمانوں کا دارلخلافہ کہلاتا تھا وہاں کے مسلمان مختلف ٹولیوں میں تقسیم ہو کر کسی نہ کسی دینی مسئلے پر بحث و مباحثہ کیا کرتے تھے پھر یہ روایت عام ہو گئی اور شہر کے چاروں چوراہوں پر الگ الگ مناظرے منعقد ہونے لگے پہلا مناظرے میں یہ بات زیر ِ بحث ہوئی کہ سوئی کی نوک پر کتنے فرشتے ایک ساتھ بیٹھ سکتے ہیں دوسرا مناظرہ اس اہم موضوع پر تھا کہ کو ا حلال ہے کہ حرام ہے ؟تیرسے مناظرے میں اس بات پر تکرار تھی کہ مسواک کا شرعی سائز کیا ہے یا کتنا ہونا چائیے ایک گروہ کا کہنا تھا کہ مسواک ایک بالشت سے کم نہیں ہونی چاہیئے جبکہ دوسرا گروہ اس بات پر بضد تھا کہ ایک بالشت سے چھوٹی مسواک بھی شرعی تقاضوں کو پورا کرتی ہے مسلمان ان مناظروں میں الجھے ہوئے ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی دھن میں مگن تھے کہ اس اثناء میں بغداد کی گلیوں کوچوں پر تاتاری ٖ فوج نے ہلاکو خان کی قیادت میں حملہ کر کے خون کی لہریں بہا دیں سب کچھ تہس نہس کر دیا مسواک کی حرمت بچانے والے خود پارہ پارہ ہو گئے اور جو سوئی کی نوک پر فرشتوں کی گنتی پر مناقشہ کررہے تھے تاتاری فوجوں نے ان کی کھوپڑیوں کے مینار کھڑے کر دئیے جن کی گنتی کرنا ممکن نہیں تھا اور جو دانشمند کوے کے گوشت کو حلال و حرام کرنے پر بضد تھے اُن ہی لاشوں کو کوے نوچ نوچ کر کھا رہے تھے آج ہلاکو خان کو گزرے سینکڑوں برس بیت چکے ہیں مگر ہم مسلمان ابھی تک فرقہ واریت ، صوبائی و لسانی تعصبات سے باہر نہیں نکلے ہم نام نہاد جمہوریت کو ڈھال بناتے ہوئے غفلت کی چادر میں لپٹے اپنے دین اپنے مذہب کو پیچھے چھوڑ چکے ہیں ہماری مسلم ریاست میں سودی نظام ِ معیشت دین سے دور ہونے کی واضح دلیل ہے اسی وجہ سے ہماری ریاست کے رزق میں برکت نہیں ملک کے تعلیم یافتہ جوان ملک چھوڑ کر اپنی خدمات دوسرے ملکوں کو سرنگوں کر کے بیچ رہے ہیں غربت کی لکیر سے نیچے گرنے والوں کی گراوٹ میں آئے دن اضافہ ہماری معاشی ماہرین کی نااہلیاں اپنی جگہ مگر ان ماہرین کا صرف سودی قرضوں کے لئے مرجع خلائق ہونا ہماری تنزلی کی بڑی وجہ ہے ایک تو یہ دستیاب وسائل کو بروئے کار نہیں لاتے اور نہ کسی سیاسی حکمران کے پاس یہ بات ایجنڈے پرکبھی رہی ہے کہ وہ ملک کو سودی نظام سے نجات دلائیں گے یا معیشت کو اللہ اور رسول کے فرمان کے تابع رکھیں گے ہمارے ان مسلمان رہنمائوں کو حکمرانوں کو اس بات کا استحضار ہی نہیں کہ سودی نظام کو رواج دینا اُسے اپنانا اللہ تعالی سے جنگ کرنے کے مترادف ہے یہود و نصار سے دوستی رکھنے کی تلقین ہے مگر یہ غفلت میں سوئے لوگ ان ہی کی پیروی بڑی فخر سے کرتے دکھائی دیتے ہیںمعیشت کو صرف قرضوں پر چلانا کبھی ممکن نہیں رہا ہے دوسری جنگ عظیم کے خاتمے پر برطانیہ نے اپنے قرضے ختم کرنے کے لئے اپنے سرکاری اخراجات ختم کئے تھے اور معیشت کی بہتری کے انتظامات کرنے میں اپنے دستیاب وسائل پر اکتفا کیا تھا جبکہ عصر ِ حاضر کے یہ حکمران اس بات پر دھمال ڈالتے نہیں تھک رہے کہ سٹاک ایکسچینج کی تیزی میں بتدریج اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے اور مزید سودی قرضے کے وعدے بھی ممکن ہو گئے ہیںجن میں 3.2ارب ڈالر کے ایک سال کیلئے قرض بشمول سعودی تیل کی سہولت کے حوالے سے وعدے حاصل کر لئے ہیں جو راوی کے مطابق حسب ِ سابقہ کی طرح معاشی نظام کو چلانا نہیں دھکا لگانا ہی ہے بہ الفاظ ِ دیگرے بہتری کی توقع کرنا عبث ہے عدلیہ کی اصلاح کے لئے جیسے ساری سیاسی جماعتیں اپنے اپنے مسودے لیکر باہمی مشورے سے آئینی ترامیم کرنا چاہ رہی ہیں کاش کہ یہ اسلامی نظام ِ حکومت اور سود سے پاک معاشی نظام کے لئے بھی کوشش کریں تو بہت کچھ سنور سکتا ہے بصورت ِ دیگر دعا ہے کہ ملک میں کوئی نورالدین زنگی کوئی صلاح الدین ایوبی آئے اور ہم غفلت میں سوئے لوگوں کو بزور ِ شمشیر سچا عملی مسلمان بنائے مسلمان کا یہ شیوہ نہیں کہ وہ جھکے اللہ کے آگے اور لین دین یہودی و نصرانی کے عقائد سے کرے اس دو رنگی سے نکلنا اور صراط المستقیم پر گامزن ہونا بہتری کی ضمانت ہے ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں