قتل کے مناظر
اعلانِ اخوت کیاہوتا
ہم مصروفِ دشنام ہوئے
یہ ظلم ہے نام پہ مذہب کے
اب قتل کے منظر عام ہوئے!
بدقسمتی سے پاکستان میں ابتداء ہی سے حکومت میں فوج کا اثرورسوخ کام کررہا ہے اور یہ پس پردہ اثر و رسوخ صدر ایوب خان کے پہلے مارشل لاء میں پوری طرح منظر عام پر آگیا اور ایوب خان صاحب نے فیلڈ مارشل کا چولا اتار کر ’’صدرِ‘‘ پاکستان کا روپ دھارا۔ ان سے بہت قریب بلکہ ایک طرح سے ان کے پروردہ ذوالفقار علی بھٹو بھی اول اسی روپ میں نظر آئے اور بعد میں وزیراعظم بن گئے۔ اس دوران بھی فوج پوری طرح پاکستانی سیاست پر چھائی رہی اور اس پس منظر میں ضیا الحق صاحب یعنی فوج حکومت پر قابض ہو گئی اور یہ قبضہ تقریباً 11 سال قائم رہا۔ اس کے بعد ہر چند کہ مسلم لیگ نے حکومت کا کاروبار سنبھالا لیکن پس پردہ فوج بھی اس کاروبار میں شریک رہی اوریہ شراکت بالآخر مشرف صاحب کی شکل میں منظر عام پر آئی۔ چند سال میں فوج کو یہ احساس ہوا کہ بین الاقوامی سطح پر پاکستان میں فوج کا اقتدار پسندیدہ نظروں سے نہیں دیکھا جاتا۔ چنانچہ انہوں نے بھی فوجی وردی کے بعد صدر پاکستان کی شیروانی زیب تن کی لیکن انہیں یہ شیروانی راس نہیں آئی۔ چند سال فوج پھر پس منظر میں چلی گئی لیکن اس کا اثر و رسوخ کام کرتا رہا بالآخر عمران خان فوج کی مدد اور ’’آشیر باد‘‘ سے اقتدار پر قابض ہو گئے اور نعرہ بلند کیا کہ حکومت اور فوج ’’ایک پیج پر ہیں‘‘ لیکن چند سال ہی میں فوج کو احسا س ہو گیا کہ اب اس ’’صفحے‘‘ میں دراڑیں پڑنے لگی ہیں تو فوج نے ایک بار پھر سیاستدانوں کو اقتدار سونپ دیا اور بدرجہ مجبوری فوج نے یہ اقتدار سیاستدانوں کو اس لئے سونپا کہ انہیں احساس ہوا کہ بین الاقوامی سطح پر فوجی حکومت کو پسند نہیں کیا جاتا۔ اب پھر وہ صورت حال پیدا ہو گئی ہے کہ بظاہر سیاسی حکومت قائم ہے لیکن یہ حکومت ہر قدم فوج کی رہنمائی اور مدد سے اٹھارہی ہے اور فوج جس کا کام ملک کا دفاع کرنا ہے۔ حکومت کے ایوانوں میں نظر آرہی ہے۔ قارئین نے غور کیا ہو گا کہ جب بھی وزیراعظم پاکستان کوئی اہم میٹنگ کرتے ہیں تو اس میں فوج کا ایک اہم عہدے دار شریک ہوتا ہے۔ یہ وہی صورت حال ہے جو انگریزوں کے ہندوستان پر قابض ہونے کے بعد پیدا ہوئی تھی برصغیر کی ہر مسلم، ہندو ریاست میں بظاہر نواب یا راجہ صاحب اقتدار نظر آتا تھا لیکن اس کے تحت حکومت کے قریب ایک انگریز حاکم کی کرسی موجود ہوتی تھی جس پر بیٹھ کر وہ احکام صادر کرتا تھا اور نام راجہ یا نواب کا ہوتا تھا۔ ہم پاکستانی فوج کی بات کررہے تھے۔ اس میں شک نہیں کہ فوج عوام کی خدمت کے لئے ہمہ وقت تیار رہتی ہے۔ سیلاب، طوفان، بدامنی اور بیماریوں سے لڑنے کے علاوہ سرحدوں پر ہمہ وقت سینہ تانے تیاررہتی ہے۔ ملک و قوم کی حفاظت کے لئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرتی ہے۔ بعض علاقوں میں عوام کو تعلیم اور صحت کی سہولتیں بھی فراہم کرتی ہے لیکن اس سب کے باوجود وہ دراصل ’’اقتدار‘‘ پر قابض ہے۔ اس وقت جو پاکستان کو دیوالیہ ہونے میں بچانے میں فوج نے جو کردار ادا کیا ہے اس کے لئے پاکستان کے عوام کو فوج کا شکر گزار ہونا چاہیے۔ اس وقت آئی ایم ایف نے پاکستان کو جو مالی سہارا دیا ہے وہ بھی حکومت کے علاوہ پاکستانی فوج کی مدد کا نتیجہ ہے۔ فوج کے سربراہ نے دوست ممالک کا دورہ کر کے وہاں کے حاکموں کو پاکستان کی مدد پر آمادہ کیا جس کا اعتراف وزیراعظم پاکستان نے بار بار کیا۔ فوج پاکستان میں مستقل دہشت گردی سے نبردآزما ہے اور سچ یہ ہے کہ اگر فوج نہ ہوتی تو یہ دہشت گرد پاکستان کو مزید نقصان پہنچاتے۔ فوج کی ان تمام خدمات کے باوجود یہ حقیقت ہے اور سیاست کا یہ بنیادی موقف ہے کہ کسی بھی ملک میں کسی بھی ریاست میں مختلف اداروں کو اپنا کام کرنا چاہیے جس کی ایک بہت اہم مثال ہمارے ملک بھارت میں موجود ہے۔ اس وقت بھارت دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہلاتا ہے وہاں فوج صرف اور صرف ملک کی دفاع کا فریضہ انجام دیتی ہے۔ عام آدمی فوج کے سربراہ کے نام سے بھی آشنا نہیں ہے۔ نہ فوج وزیراعظم کے ساتھ نظر آتی ہے نہ وہاں کی پارلیمنٹ میں نظر آتی ہے۔ ہمارے خیال میں فوج کو ملکی دفاع اور ہنگامی حالات میں حکومت کا ساتھ دینا چاہیے۔ اس طرح کسی سیاسی جماعت کو فوج کے خلاف ایک لفظ کہنے کی جرأت نہیں ہو گی اور بین الاقوامی سطح پر بھی پاکستان میں سیاسی حکومت کا وقار بلند ہو گا۔ سرحدوںکی حفاظت کرنا فوج کا کام ہے اوریہ بہت اہم کام ہے کاش ہماری فوج اپنے اس کام کی طرف پوری توجہ دے سکے۔