0

دھوکہ

دھوکہ اچھا لفظ نہیں ہے جیسے ہی زبان پر آتا ہے کان کھڑے ہو جاتے ہیں،دھوکہ ہو جائے تو اعتبار اٹھ جاتا ہے، اعتبار ٹوٹے تو بہت قلق ہوتا ہے اور دھوکہ وہی دیتا ہے جس پر اعتبار ہو اعتبار کس پر ہوتا ہے؟ والدین پر ، جی ہاں والدین پر کوئی سوچ سکتا ہے کہ والدین دھوکہ دیتے ہیں، سب یہی کہیں گے والدین کے خلوص پر تو شک نہیں کیا جا سکتا، کسی حد تک یہ بات درست ہے والدین دھوکہ نہیں دیتے مگر STEWART EDGE کہتا ہے کہ وہ والدین جو اپنی اولاد کی درست رہنمائی نہ کر سکیں وہ اپنی اولاد کے مجرم ہیں کیونکہ وہ پوری ایک نسل برباد کرتے ہیں، یہ بہت گہری باتیں ہیں یہ تو مغرب والوں کے لئے ہیں خاص طور پر بر صغیر والوں کے لئے نہیں، ہمارے ہاں والدین پر اندھا یقین کیا جاتا ہے مگر آج کے دور میں جب اولاد کو سرد گرم سے گزرنا پڑتا ہے تو اولاد بلا تامل کہتی ہے کہ آپ نے ہمارے لئے کیا کیا جب نہ باپ کے پاس جواب ہوتا ہے نہ ماں کے پاس، گویا والدین کے خلوص پر بھی حرف آ جاتا ہے، اس کی وجہ ہمارے ہاں کا GENERATION GAP ہے یہ سچ ہے کہ برصغیر کے اکثر والدین ان پڑھ اور جاہل ہیں، ان کی اولاد پڑھ لکھ جائے تو ان کو یقین ہوتا ہے کہ ان کے والدین کو کچھ پتہ نہیں اور یہ بھی ہوتا ہے کہ والدین بھی یہی سوچتے ہیں کہ وہ کچھ نہیں جانتے، یہ GENERATION GAP تعلیم کی کمی کی وجہ سے ہوتا ہے، امریکہ میں بیشتر والدین کو اپنی اولاد کی نفسیات کی سمجھ بھی ہوتی ہے اور وہ بچوں کا ذہن پڑھنا بھی جانتے ہیں، خیر ہمارا اور امریکہ کا کیا تقابل، دوسرا استاد ہوتا ہے جس پر اعتبار کیا جا سکتا ہے، ایک بچہ لندن سے کراچی لوٹا ایک اچھے اسکول میں داخل ہوا اور اس کو بہت جلد معلوم ہو گیا کہ میرا دیسی استاد سبجیکٹ پر عبور نہیں رکھتا یا اس کو فریش نالج نہیں ہے، ہمارے اسکول میں ہمارے اُردو کے استاد غزل نہیں پڑھاتے تھے کہتے تھے غزل میں بے شرمی کی باتیں ہوتی ہیں، ہمارا تعلیمی نظام ناقص ،کیا کیا جائے انگریزی نظام تعلیم نے بڑے آدمی پیدا کئے ،جب سے نصاب مولوی نے لکھا، تعلیم کا بیڑا غرق ہو گیا، اس قوم کو اچھے استاد نہیں ملے، میں نے امجد اسلام امجد سے پوچھا حضور یہ فرمائیے کوئی ایک شاگرد جس کو آپ نے بڑا انسان بنا دیا ہو امجد خاموش سے ہو گئے مگر عطا الحق قاسمی نے قہقہہ لگا کر کہا ہمیں انسان ملتے تو بڑا بنا دیتے، ذرا اندازہ لگائیے کہ انگریزی اسکولوں کے پڑھانے کے لئے کون سے طلباء ملے ہونگے ہمارے ہاں مولوی کا بہت احترام رہا، مولوی کا اعتبار بھی تھا اس کی وجہ یہ تھی کہ مولوی اللہ رسول کی باتیں کرتا تھا، دین کا مطالعہ ہوتا تو سمجھ میں آتا کہ مولوی کہاں کہاں ڈنڈی مار رہا ہے،اسکول کی دینیات یا اسلامیات کی کتابوں میں ایک واقعہ بچوں کو پڑھایا جاتا تھا کہ مکے کی ایک بڑھیا ہمارے رسول کے رستے میں کانٹے بچھا دیتی تھی، بعد میں معلوم ہوا کہ یہ بات دہلی کی جامع مسجد کے امام نے گھڑی، نیو یارک میں ایک فرقے کا عالم نئی حدیثیں گھڑتا رہا، جب واجبی مطالعہ نہ ہو ان باتوں کا یقین کر لیا جائیگا، حور کا ابھی تک بڑا شور ہے اور طارق جمیل نے تو حور کو مقصدِ عین بنا دیا، غلام احمد پرویز نے اپنے ایک بیان میں اس غبارے سے ہوا نکال دی مگر گمانوں اور اوہام کے غبارے ابھی پھٹے نہیں، ایک ہزار سال سے مولوی نے اسلام اسلام کا شور مچا رکھا ہے مگر مولوی کے عقیدت مندوں نے کبھی نہیں سوچا کہ ہندوستان میں اسلام کبھی آیا ہی نہیں، صوفیوں کو بغداد میں مار پڑی تو ہندوستان کی طرف بھاگے اور ہندوستان میں ان شعبدہ گروں کی خوب پذیرائی ہوئی ، بادشاہوں نے بھی ان کو خوب نوازا، اندھا قاری آج بھی یہ سمجھتا ہے کہ اکبر کے ہاں نرینہ اولاد اجمیری صاحب کی دعا سے ہوئی، جھوٹے ولیوں اور صوفیوں کا کاروبار چلا تو عبد الحلیم شرر کو فردوس بریں لکھنی پڑی، قیام پاکستان کے بعد تو ان مولویوں نے بہت اندھیر مچایا، عوام کو بہکایا، ورغلایا، ایک جھوٹ کا بازار گرم تھا اور ہے ایک شعبدہ باز ابتسام الہی ظہیر پہلے کرونا کا علاج پھونکوں سے کرتا تھا اب شادی کے وظیفے بتاتا ہے اور دولہ شاہ کے چوہے اس کے اس جھوٹ پر جھومتے ہیں، اس وقت پاکستان میں آٹھ بڑے فرقے ہیں اسلام نہیں، دھیرے دھیرے ان مداریوں کا کھیل بھی ختم ہو رہا ہے چندی مافیا اس تبدیلی سے پریشان ہے پاکستان کے عوام کو سب سے بڑا دھوکہ سیاست دانوں سے ملا، ایک خاص موقع پر تحریک پاکستان میں دینی عناصر کو ایک منصوبے کے تحت داخل کیا گیا، رفتہ رفتہ ان کا اثر بڑھتا چلا گیا، پنجاب، سندھ ، اور بلوچستان کے وڈیروں زمینداروں اور سرداروں نے اپنے مذموم مقاصد کو پورا کر نے کے لئے مولوی کو نوازا اور اسے عوام کو گمراہ کرنے کا کام سونپا بعد میں یہی بد کردار مولوی جنرل ضیا الحق کے کام آیا اور قوم کا مستقبل مولوی کے جھوٹے بیانیہ کی وجہ سے معدوم ہو گیا، یہ فوج اور مولوی کا بہت بھیانک دھوکہ تھا جس قوم کو گہرے زخم آئے مگر بھلا ہو اس ذہنی غلامی کا کہ بربادی کا احساس تک نہیں، تکلف بر طرف پاکستان میں ہر طبقے نے پاکستانی عوام کو دھوکہ دیا، کیا سیاست دان کیا وزیر، کیا سفیر، کیا تاجر کیا مکار مولوی اور اس وقت مسجد مدر سے اور محراب مولوی بہت بے باکی سے بچوں کا جنسی استحصال کر رہا ہے مگر اتنا طاقتور ہے کہ ریاست اس کو سزا نہیں دے سکتی، وجہ بہت واضح ہے کہ سیاست دان کو ان دہشت گردوں کے ووٹوں کی ضرورت ہوتی ہے اور بوقت ضرورت یہی عنصر سیاست دان کی مدد کو آجاتا ہے دنیا کی تاریخ بتاتی ہے کہ انسان کو ہر دور میں سب سے بڑا دھوکہ مذہب نے دیا، خدا کے بارے میں جھوٹ بولا، مغرب کے شاعروں، ادیبوں فکشن رائٹرز نے اس جھوٹ کا پردہ فاش کر دیا اور اہل مغرب نے جو تعلیم کے زیور سے آراستہ تھے ان کے مدلل بیانیے کو قبول کر لیا،ان کو سمجھ آگیا کہ اعتقاد جھوٹا ہوتا ہے اس کی کوئی بنیاد جھوٹ پر ہوتی ہے، سائنس ہر بات کا ثبوت مانگتی ہے ثبوت نہیں تھا تو جنید بغدادی کے حوالے سے ایک جھوٹا قصہ گھڑا گیا کہ وقت نزع ان کا شیطان سے مکالمہ ہوا کہ خدا نہیں ہے وہ شیطان کی دلیل کو نہ کاٹ سکے تو کہا کہ میں خدا کو بلا دلیل مانتا ہوں قصہ گھڑنے والا بھول گیا کہ شیطان بہت بڑا مواحد ہے، مغرب نے بہت جلد اس قضیے سے جان چھڑا لی کچھ دانشوروں نے جدیدیت اور پھر مابعد جدیدیت کے نام سے ادبی تحریکات چلائیں اور مغرب کو اس جھوٹ سے نجات مل گئی عرب بہت تیزی سے مذہب کے دھوکے سے نکل رہا ہے اور روشن خیالی کی جانب گامزن ہے حج اور عمرہ کی آمدنی اس کے بجٹ کا حصہ ہے گو کہ دنیا میں 54 ممالک ہیں مگر جو دیوانگی پاکستان، ایران اور افغانستان میں ہے وہ کہیں نہیں اسی دیوانگی کو دیکھ کر کسی عرب نے کہا کہ مسلمان تو ہم بھی ہیں مگر تم تو بالکل ہی باؤلے ہو گئے، دیکھتے ہیں ہم اس دھوکے سے کب نکلتے ہیں، اس دھوکے سے نکلنے میں دیر کی تو پاکستان کو کچھ اور دکھ سہنے پڑیں گے ، اب صورت حال یہ ہے کہ معاشرے کا ہر طبقہ قوم کو دھوکہ دے رہا ہے مگر نمازیں پڑھتا ہے جو دھوکے کا ایک مصنوعی دفاع ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں