پیمانِ وفا
اس صدی میں یہ بھلا ممکن ہے
صاحب عقل ہو کیا چاہتے ہو
سر پہ بندوق کی نالی رکھ کر
ہم سے پیمانِ وفا چاہتے ہو!
ہم برسوں سے یہی سنتے اور پڑھتے آئے ہیں کہ پاکستان اس وقت بڑے نازک دور سے گزررہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ فی الوقت پاکستان نازک نہیں بلکہ ’’پُرآشوب‘ دور سے گزر رہا ہے اور یہ پرُآشوبی لوگوں کو ان کے حقوق سے محروم کرنا ہے اور انہیں مہنگائی کے سمندر میں دھکیل دینا ہے۔ جیسا کہ ہم کئی بار عرض کر چکے ہیں کہ کووڈکے بعد پوری دنیا ہی میں مہنگائی کا طوفان آیا ہوا ہے لیکن اس طوفان میں سب سے زیادہ نقصان تیسری دنیا کا ہوا ہے جہاں کے عوام کے پاس قوت خرید ناپید ہے اور نوبت یہاں تک آپہنچی ہے کہ آئے دن لوگوں کے خودکشی کرنے کے واقعات ذرائع ابلاغ کا حصہ بن رہے ہیں۔ اس طوفان سے نپٹنے کے لئے سب سے پہلا فرض ہماری حکومت کا ہے لیکن اقتدار میں ہونے کے باوجود وہ کچھ کر نہیں سکتی کہ نہ اس کے پاس ذرائع ہیں نہ آواز، وہ ہر لمحہ مقتدرہ کی طرف دیکھ رہی ہے کہ شاید وہاں سے کوئی مدد مل جائے۔ مقتدرہ پارلیمنٹ میں بیٹھ کر نہیں بلکہ چھائونیوں میں بیٹھ کر حکومت چلارہی ہے۔ پاکستان بننے کے چند سال کے بعد ہی ہماری فوج ’’ حاملِ اقتدار‘‘ ہو گئی۔ یوں فوج کی ملک و قوم کے لئے بڑی قربانیاں ہیں۔ کئی چھوٹی اور دو بڑی جنگوں میں پاکستان کو محفوظ رکھنا فوج کا بڑا کارنامہ ہے۔ ناگہانی آفات یعنی زلزلہ، سیلاب وغیرہ میں ہماری فوج عوام کی خدمت اور حفاظت کے لئے سینہ سپر رہی ہے۔ مضبوط فوج ہی دراصل کسی ملک کی سلامتی کی ضامن ہوتی ہے لیکن اقتدار بھی کئی عشروں سے فوج ہی کے پاس ہے۔ کبھی بظاہر یعنی مارشل لاء کی شکل میں کبھی حکومتوں کی پشت پناہی کی شکل میں عوام یقینا اپنی فوج سے محبت کرتے ہیں جس کا اظہار وہ 9 مئی کے بعد شہروں شہروں فوج کی حمایت میں جلسے جلوس کے ذریعے کر چکے ہیں۔ یہ فوج ہی ہے جو اکثر و بیشتر صاحبان اقتدار کے ساتھ کئی ملکوں میں پاکستان کے لئے مالی امداد لانے میں کامیاب ہوئی ہے۔ ایک عام خیال یہ ہے کہ پی ڈی ایم کی حکومت اور انتخابات کے بعد بننے والی حکومت فوج کی آشیرباد ہی سے وجود میں آئی تھی اور آئی ہے۔ بظاہر ہماری حکومت مکمل طور پر اختیارات کے حامل ہونے کا اعلان کرتی ہے لیکن عوام کی سوچ اور قرائن کے مطابق حکومت آج بھی فوج کی دست نگر ہے۔ یوں تو الیکشن کمیشن، ذرائع ابلاغ اور ہماری عدلیہ آزاد ہے اور اپنے طور پر فیصلے کا اختیار رکھتی ہے لیکن عوامی خیال کے مطابق ہر محکمہ ملک کا ہر شعبہ مقتدرہ کے زیر نگیں ہے۔ اس وقت ملک میں جو افراتفری مچی ہوئی ہے اور مختلف سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے خلاف زبانی، کلامی جنگ لڑ رہی ہیں اس جنگ کو ٹھنڈا صرف اور صرف ہماری فوج ہی کر سکتی ہے۔ حزب اقتدار بار بار حزب اختلاف سے مذاکرات کی میز پر آنے کی بات کررہا ہے لیکن حزب اختلاف اپنے الیکشن چوری، بنیادی انسانی حقوق سے محرومی اور پارلیمنٹ کی نشستوں سے ہاتھ دھونے پر نہ صرف رنجیدہ ہے بلکہ ہمہ وقت شکوہ کناں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے ساتھ زیادتی اور بھرپور زیادتی ہوئی ہے۔ اسے اس کے نشان سے محروم کیا گیا۔ اسے الیکشن مہم چلانے کی اجازت نہیں دی گئی اور آج بھی اسے جلسوں اوراپنی بات کہنے سے محروم رکھا جارہا ہے۔ تنگ آ کر اس جماعت نے اعلان کیا ہے کہ ہم حقوق چھیننے والی سیاسی جماعتوں سے نہیں بلکہ مقتدرہ سے بات کرنے کو تیار ہیں۔ پی ٹی آئی کے اس اعلان سے حزب اقتدار میں ہل چل مچ گئی ہے اور انہیں یہ خطرہ لاحق ہو گیا ہے کہ کہیں ہماری فوج حزب اختلاف کا ساتھ نہ دے دے اور وہ حکومت سے محروم ہو جائیں مسلم لیگ ن کے کئی سربراہ ہمہ وقت عوام اور فوج کو یہ یاد دلانے کی کوشش کررہے ہیں کہ فوج ہمہ وقت 9 مئی کے سانحے کو نظر میں رکھے، فوج کو یاد دلایا جارہا ہے کہ پی ٹی آئی کے سربراہ نے فوج کے لئے میر جعفر اور میر صادق کے الفاظ ادا کئے تھے۔ پی ٹی آئی کے سربراہ کو طرح طرح سے مطعون کیا جارہا اور انکے خلاف فوج کو بدظن کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ فوج کو حالات کا مکمل ادارک ہے اور اب وہ ہر قدم ملک کے حالات اور عوامی امنگوں کو ذہن میں رکھ کر اٹھائے گی۔ 9 مئی کے حادثے کے باوجود قومی انتخابات میں عوام کی کثیر تعداد نے پی ٹی آئی پر اعتماد کا اظہار کیا ہے فوج اسے بھی نظر میں رکھے گی اب حالات کو سنبھالنے اور ملک کو مشکل سے نکالنے کی ذمے داری ہماری فوج پر ہے اور ہمیں یقین ہے کہ ہماری فوج اس امتحان میں بھی پوری اترے گی۔ انشا اللہ