0

مذاکرات !

جب تک خلافت رہی تب تک الو الامر ہی قانون تھا جو بھی خلیفہ کی زبان سے نکلے، اس کی اطاعت ہر ذی روح پر لازم تھی، مگر ایسا نہیں تھا کہ ایسا اس سے پہلے نہ تھا،خلافت سے جو بادشاہتیں تھی میں بھی بادشاہ کی زبان سے نکلا ہر لفظ قانون تھا، غالباً چرچ میں یہ تصور پہلے سے موجود تھا جسے DIVINE RIGHTS OF KING کا نام دیا گیا، ایرانی بادشاہتوں میں ظل اللہ کا تصور موجود تھا تو ظل اللہ کا فرمان قانون کا درجہ رکھتا تھا، ظاہر ہے بادشاہ خدا کا سایہ تھا تو اس کا حکم بھی حکم ربی، مغلیہ دور میں ہندوستان میں ایسا کوئی تصور تو نہ تھا بس دکھاوے کے لئے اسلام کا نام لیا جاتا تھا، مغلیہ دور میں مغلوں نے ہندو مہا راجاؤں سے اچھے تعلقات رکھے اور سات سو سال تک حکومت کی، انگلینڈ میں TUDOR KINGDOM کی حکومتوں کے دوران فرانس، اسپین، اور دیگر ملکوں کے درمیان رابطے تھے ان رابطوں میں حکومتوں کے درمیان مسائل بھی ہو جاتے تھے جس کی ترقی یافتہ شکل سفارتی تعلقات ہیں انہی سفارتی تعلقات نے ملکوں کے درمیان مسائل کو گفتگو کے ذریعے حل کرنے کی ایک صورت نکال لی ، دوسری جنگ عظیم کے بعد اس کو سائنسی شکل دی گئی ، یہ ایک مہذب طریقہ بن گیا، ہر چند کہ پارلیمنٹ نے چرچ کے خلاف تین سو سال تک جنگ لڑی مگر اس دوران اخبارات میں سیاسی مسائل پر دانش ورانہ گفتگو ہوتی رہی اور قلم نے پارلیمنٹ کی بہت مدد کی اور عوام کی ذہن سازی کی،1241 میں پہلی بار آئس لینڈ میں پہلی پارلیمنٹ شاہی فرمان کے تحت وجود میں آئی، مگر تاریخ بتاتی ہے کہ 1265 میں انگلش پارلیمنٹ کی بنیاد SIMON DE MONFORT رکھی HOUSE OF COMMONSکا بانی بھی اسی کو کہا جاتا ہے ،STEWART BERNARD کا خیال ہے کہ پارلیمنٹ تک پہنچنے میں مکالمہ اور مذاکرات کا بڑا دخل ہے، سترویں و اٹھارویں صدیوں کو نظریات کی صدیاں کہا جاتا ہے خوبصورت نظریات ابھرے اور ان پر کھل کر دانش ورانہ گفتگو کی گئی اسی دوران DIPLOMACY کا روپ نکھرا گفتگو نے نیا پیراہن پہنا ، یہ زبان عام زبان سے الگ تھی اس میں تھوڑا مکر تھوڑی مکاری شامل ہوئی، چرچل نے DIPLOMACY کے بارے میں ایک خوبصورت بات کہی کہ DIPLOMACY کی زبان میں جہنم میں جاؤ کچھ اس طرح کہا جاتا ہے کہ لوگ جہنم جانے کا راستہ پوچھنے لگتے ہیں، پاکستان میں DIPLOMACY کا کارنامہ وہ تھا جب پاکستانی وزیر خارجہ بیرسٹر ظفر اللہ نے نہرو سے اس DOCUMENT پر دستخط کرالئے جس میں کشمیر میں رائے شماری کا ذکر تھا اس کے بعد یہ معجزہ کبھی نہ ہو سکا، چرچا بہت سوں کا ہوا مگر وہ بات کہاں مولوی مدن کی سی ملکوں کے اندر بھی سیاست ہوتی ہے سیاسی جماعتیں بھی ہوتی ہیں ان کے درمیان اختلافات بھی ہوتے ہیں کبھی کبھی مشکل مرحلے آ جاتے ہیں مہذب ممالک میں آئین ان کی رہنمائی کرتا ہے معاملات قومی اسمبلی اور سینیٹ میں طے کر لئے جاتے ہیں میڈیا بھی معاملات پر اپنی وقیع رائے دیتا ہے جس کو اکثر و بیشتر مان لیا جاتا ہے سب سے اہم ہتھیار دلیل ہوتا ہے معاملات عدالتوں میں کم ہی جاتے ہیں ، امریکہ میں تو صدارتی CONTESTANTS کے درمیان DEBATE بھی ہوتی ہے جس میں مسائل پر گفتگو ہوتی ہے نہ نفرت کا اظہار نہ دشنام طرازی نہ گالم گلوچ پاکستان میں سیاسی جماعتوں کے درمیان باضابطہ مذاکرات پی پی اور قومی اتحاد کے درمیان 1977 میں ہوئے مگر کسی نتیجہ پر پہنچنے سے قبل ہی مارشل لاء لگا دیا گیا، میثاق جمہوریت پی پی پی اور مسلم لیگ نے خود ہی بنا لیا جس میں دیگر جماعتوں کی شرکت نہ تھی پھر عدالتیں جانبدار ہو گئیں، اب عدالتیں زیادہ تر سیاسی مقدمات ہی سنتی ہیں،اس وقت ملک ایک بحران میں ہے تحریک عدم اعتماد کے بعد ایک موقع آیا تھا جب عمران سمیت تمام سیاسی جماعتیں فوج کے خلاف یک آواز تھیں اور آسانی سے CIVIL AUTONOMY کی جانب بڑھ سکتی تھیں مگر یہ موقع گنوا دیا گیا، جب عمران اقتدار میں تھے تب کہتے تھے کہ چور ڈاکوں سے بات نہیں ہو سکتی اب کہا جا رہا ہے کہ حکومت نے ہمارا مینڈیٹ چرایا ہے ان سے بات نہیں ہو سکتی مگر سچ یہی ہے کہ مسائل کا حل گفتگو میں ہی ہے، معروف ماہر قانون دان سلمان اکرم راجہ کا خیال ہے کہ جب تک عمران اور تمام گرفتار لوگ رہائی نہیں پاتے تب تک کوئی بات چیت نہیں ہو سکتی، شہر یار آفریدی نے کہا کہ مذاکرات آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی سے ہونگے پی ٹی آئی کے رؤف حسن کا کہنا ہے کہ مذاکرات حکومت سے کیسے ہو سکتے ہیں یہ بے اختیار لوگ ہیں ،اصل طاقت مقتدرہ کے پاس ہے تو بات چیت بھی انہی سے ہوگی، جیو نیوز کے شہزاد اقبال اور حامد میر بھی ان کی مدد کو آپہنچے حامد میر نے کہا مذاکرات آرمی چیف سے ہونگے اور ان سے کہا جائیگا کہ فوج آئین کے دائرے میں رہ کر اپنے فرائض انجام دے اور موجودہ حکومت کی مدد سے دست بردار ہو جائے سول سپر میسی کے لئے سیاسی جماعتوں کا یہ مطالبہ بہت پرانا ہے مگر سیاسی جماعتیں اس کی جانب پیش قدمی نہیں ہوتی ، اپنے سیاسی مقاصد کے حصول اور اقتدار کی لالچ میں ہر سیاسی جماعت کسی نہ کسی صورت فوج سے رابطہ کر لیتی ہے اور سول سپر میسی کا راستہ کھوٹا ہو جاتا ہے، یہ کہا جاتا ہے کہ پی پی پی ایک جمہوری سیاسی جماعت ہے مگر یہ سچ ہے زرداری کے فوج سے رابطہ رہتے ہیں، عمران کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب تب بھی عمران کا فوج سے یہی مطالبہ تھا کہ ان کو واپس اقتدار میں لایا جائے ،اب بھی کہہ رہے ہیں کہ بات چیت آرمی چیف سے ہو گی، اس کا کوئی امکان نظر نہیں آتا یہ تو ہو نہیں سکتا کہ فوج بیر کس میں چلی جائے اور پورے ملک کو پختون خواہ کے ہتھیار بند جتھوں کے حوالے کر دیا جائے اور ملک انار کی کی نذر ہو جائے، عمران نے الیکشن لڑا ہے ان کی جماعت کسی نہ کسی شکل میں پارلیمنٹ کے اندر ہے اس کا مطلب ہے کہ وہ پارلیمانی طرز حکومت پر یقین رکھتے ہیں پارلیمانی طرزِ حکومت کے کچھ آداب ہیں ان کو پارلیمان میں موجود دیگر سیاسی جماعتوں سے بات کرنی ہوگی، ہر جماعت کا خوف یہ ہے کہیں حکومت کی معاشی پالیسی کامیاب نہ ہو جائے اگر ایسا ہوا تو ان کی سیاست ختم ہو جائیگی، عمران کو بھی یہی خوف ہے اسی لئے وہ جب سے اقتدار سے باہر ہوئے ہیں سڑکوں پر ہیں اور اب بھی انہوں نے احتجاج کا راستہ اپنایا ہوا ہے اس کا مقصد یہ ہے نہ حکومت چلنے دینگے اور نہ ہی معیشت کو چلنے دینگے ، وہ احتجاج پر قادر ہیں سو وہ اپنے مقاصد حاصل کر سکتے ہیں مگر اس سیاست سے عوام کا کچومر نکل جائے گا لگتا بھی یہی ہے کہ ان کو عوام کی معاشی بہتری سے کوئی دلچسپی نہیں اقتدار چاہیے ہر قیمت پر۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں