0

صفائے قلب و نظر کے متبادل طریقے !

علامہ اقبال ہماری کسی بھی اجتماعی موضوع پر ہونے والی گفتگو کا موثر ترین حوالہ رہتے ہیں۔اس تاثیر کا قصہ بھی عجیب ہے کہ کثرت سے اقبال کے حوالے دینے کے باوجود ہم اقبال کی کسی بات ، تجویز یا مشورے اور تاکید کو ماننے یا عمل کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ اقبال ملائی ریاست کے سخت خلاف تھے ، ہم نے پوری ریاست کی “فکری نشوونما” نہایت بے فکری کے ساتھ ملاؤں کے حوالے کردی ۔ اقبال نے 1930ء میں اپنے خطبۂ الہ آباد میں برطانیوں کی دفاعی حکمتِ عملی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔وجہ یہ تھی کہ ہندوستان کے دفاع کے نام پر برطانیہ اپنے تسلط سے منسلک اسٹرٹیجک مفادات کی بنیاد پر دفاعی ترجیحات کا تعین کرتا تھا۔قیام پاکستان کے بعد بھی ملک کی دفاعی حکمت عملی ملکی مفادات کی بجائے برطانیہ کے متبادل امریکہ کے دور رس مفادات سے منسلک رہی اور اس عمل میں ملک کو ایک عجیب و غریب تماشا گاہ بنا کر رکھ دیا گیا ۔اقبال عمر بھر تنگ نظر، کوتاہ فکر اور فرقہ پرست ملاؤں سے نبرد آزما رہے۔ اقبال کی وفات کے آٹھ سال بعد وجود میں آنے والے پاکستان کو انہی ملاؤں کی شکارگاہ بنا دیا گیا۔ملاؤں نے ملک کے ساتھ وہی کچھ کیا ، جو ایسی صورت میں شکار اور شکار گاہ کے ساتھ ہوا کرتا ہے ۔اقبال کا تصور تھا کہ ہم مسلمانوں کی آزاد و خودمختار ریاست میں مسلمانوں کی تعلیم ،معیشت اور قانون سازی پر سے عربی شہنشاہیت کی جمی گرد کو صاف کر لیں گے ، اس کے عوض ہم نے عربی شہنشاہوں کی ملازمت اور دریوزہ گری کو ترجیح دی، اور ملک کو فرقہ وارانہ کشیدگی کا میدان بنا کر اسے فلاحی ریاست کی بجائے “اسلام کا قلعہ ” قرار دے دیا۔اقبال ایک روشن خیال اور فلاحی ریاست کا تصور رکھتے تھے ۔ہم نے اسے گدی نشینوں ، خود ساختہ صوفیوں اور بہروپیوں کی شکار گاہ بنا کر رکھ دیا ہے۔ اور اب تو تصوف کے اس بہروپ کے نت نئے برانڈز بھی متعارف کروائے جا چکے ہیں۔پاکستان کے حاضر سروس سامری جادوگروں نے ایک مقبول ماڈرن کھلاڑی کا انتخاب کیا ، مقبولیت و محبوبیت کھلاڑی کی اپنی تھی، شرائط ملازمت حاضر سروس سامری جادوگروں نے طے کیں، لہٰذا اس عیش کوش کھلاڑی کو مذہبی ٹچ دیا گیا ، چند زبانی دعوے ازبر کرائے گئے، تصوف کا ٹچ دینے کے لیے قسط وار ڈرامے کی بجائے ایک لمبی سیریز کا بندوست کیا گیا اور یوں اس کھلاڑی نے ایک مبینہ طور پر پیرنی کو اپنے حبالہ عقد میں لے لیا۔تاکید مزید کے لیے ایک مزار پر سجدہ ریز ہونے کی وڈیو اور تصاویر بھی وائرل کر دی گئیں ۔اور یوں اس خطے کے لیے طے کردہ امریکی ڈیزائن کے عین مطابق اس ملک کے تعلیم سے محبت کرنے والے روشن خیال لوگوں کو ذکر و فکر صبحگاہی میں مست رکھنے اور مزاج خانقاہی میں پختہ تر کرنے کے منصوبے پر عمل کا آغاز ہو گیا۔ اگرچہ اقبال نے کہہ رکھا ہے کہ؛ ”تصوف ہمیشہ انحطاط کی نشانی ہوتا ہے۔ یونانی تصوف، ایرانی تصوف، ہندوستانی تصوف سب انحطاط قومی کے نشان ہیں۔۔۔۔تصوف نے Scientific روح کو بہت نقصان پہنچایا ہے، ڈاکٹر کے پاس نہیں جاتے ، تعویذ تلاش کرتے ہیں ۔ گوش و چشم کو بند کرنا اور صرف چشم باطن پر زور دینا جمود اور انحطاط ہے۔ قدرت کی تسخیر جدوجہد سے کرنے کی جگہ سہل طریقوں کی تلاش ہے۔۔۔” لیکن اقبال کی سنے کون؟ آج کل حاضر سروس سامری جادوگروں کے ایجاد کردہ تصوف کی یہ گاڑی مرمت، ڈیٹنگ پینٹنگ اور انجن کی اوورہالنگ کے لیے ورکشاپ میں بند ہے۔ہر جادوگر اپنے موکلات کا ماہر اور ہر صوفی صفائے قلب و نظر کے اپنے طور طریقے رکھتا ہے۔ اس پس منظر میں پاکستان کے سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کا یہ دعویٰ کہ بنی گالہ کی رہائش گاہ میں اسیری کے دوران ان کے کھانے میں ہارپک واش روم کلینر کے قطرے ملائے جا رہے ہیں، معنی و مفہوم کی کئی پرتیں اپنے اندر رکھتا ہے۔ یہ ایک معلوم حقیقت ہے کہ عمران خان کے بیانیے میں تصوف کی آمیزش کا مدار بشری بی بی کے دعاوی پر رہا ہے۔وہ اپنے روحانی تصرفات کا مظاہرہ کرنے کے لیے انواع و اقسام کے چلے ، حربے اور مظاہرے کر چکی ہیں ، اس میں مرغیوں کو جلانا، جانوروں کی عجیب و غریب طریقوں سے قربانی کرنا اور ساتھ ہی ساتھ یہ بات عام کر دینا بھی شامل رہا ہے کہ جنات اور کام کاج کرنے کے لیے موکلات بھی ان کی تحویل میں ہیں ،اور یہ جس سے جو چاہیں ،کام کروا سکتی ہیں ۔اس پس منظر کے ساتھ ان کی یہ شکایت یا دعویٰ کہ ان کے کھانے میں واش روم کلینر کے تین قطرے ملائے جا رہے ہیں، محض پراپیگنڈا کہہ کر رد نہیں کیا جا سکتا پنکی پیرنی کے نام سے شہرت حاصل کرنے والی بشری بی بی نے یہ بھی کہا ہے کہ انہیں کھانے میں ملا کر واش روم کلینر کے جو تین عدد قطرے دیئے جا رہے ہیں ،ان کے استعمال سے ایک ماہ بعد طبیعت زیادہ خراب ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ قیاس چاہتا ہے کہ محترمہ نے ماضی میں ایسے تجربات کر رکھے ہوں گے۔ انہوں نے احتیاطاً یہ بھی بتایا ہے کہ وہ کئی دنوں سے اپنے سینے اور معدے میں تکلیف محسوس کر رہی ہیں۔بشری بی بی نے یہ تو نہیں بتایا کہ کھانے میں تین قطرے ملانے کی مخبری کس نے کی ،لیکن یہ کہہ کر کہ یہ خبر ان تک ایک جیل اہلکار نے پہنچائی تھی، ساری جیل انتظامیہ کی چھترول کا بندوست ضرور کردیا ہے۔ستم ظریف اس سارے معاملے کو بالکل جدا زاویے سے دیکھ رہا ہے۔وہ کہتا ہے کہ بشری بی بی کو لازمی طور پر علم ہے کہ ان کو راستے میں بٹھانے والے ،انہیں راستے سے ہٹانا نہیں چاہتے ،۔اگر عمران خان کو تاریخی رعایتیں یعنی عیش و عشرت والی مراعات کے ساتھ اڈیالہ جیل میں رکھا گیا ہے ،اور جس نے بطور سیاسی قیدی ان کی شہرت ، ہمدردی اور سیاسی وقار و اعتبار میں اضافہ کیا ہے ، وہیں فیصلہ سازوں نے عمران خان کے گھر بنی گالہ کو ہی سب جیل قرار دے کر بشری بی بی کو وہاں قید رکھنے کا فیصلہ بھی اس لیے نہیں کیا تھا کہ انہیں کسی سستے زہر کا شکار بنا دیا جائے۔پنجاب میں مثالی لوٹ مار کرنے والی فرح گوگی کو اگر ابھی تک کسی نے نہیں چھیڑا تو بھی اس کی وجہ بشری بی بی کی خوشنودی ہی ہے۔ورنہ سب جانتے ہیں کہ فرح گوگی ہی بشری بی بی کے سارے مالی معاملات کی نگران رہا کرتی تھی۔ یہ سب باتیں یاد دلانے کے بعد ستم ظریف کہتا ہے کہ عام لوگ اپنی عام سی ذہنی سطح کی وجہ سے بشری بی بی کے اس الزام یا شکایت کا صحیح مفہوم سمجھ نہیں پائے ۔دراصل بشری بی بی ملک کے جسمانی سے لے کر روحانی علاج میں ید طولی رکھنے والے ساحران کج رفتار اوردرازمنقار کو یہ پیغام دینا چاہ رہی ہیں کہ؛ انہیں صفائے قلب و نظر کی اشد ضرورت ہے، اور یہ ضرورت ہارپک واش روم کلینر سے پوری نہیں ہو سکتی۔انہیں ماضی قریب میں شہد میں زہر ملا کر دیئے جانے کا وہم بھی ہو چکا ہے۔ علمائے تصوف کے نزدیک کامل مرشد ہمیشہ جسم کی بجائے روح کو اور دماغ کی بجائے قلب کو اپنی توجہ کا مرکز بناتے ہیں۔ستم ظریف کہتا ہے کہ ساحران کج رفتار و دراز منقار نے بشری بی بی اور عمران خان کو ان کی پسند کے مرغن و مقوی کھانے فراہم کرنے کی اجازت دے رکھی ہے۔اور دونوں قیدی اس اجازت سے کھل کھلا کر فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ اگر بشری بی بی کو جیل کی بجائے بنی گالہ والے گھر میں رہنے کی سہولت دی گئی ہے ، تو عمران خان کو بھی اڈیالہ جیل میں اپنی پسندیدہ سرگرمیوں سمیت پُرسکون وقت گزارنے کی رعایت فراواں کی گئی ہے۔ستم ظریف کی اطلاع تو یہ ہے کہ ساحران کج رفتار و دراز منقار اب صفائے قلب و نظر کے لیے جدید طور طریقوں کے تجربات کر رہے ہیں۔ان طریقوں میں سے ایک کھانے میں زہر ملانے کی افواہ پھیلا کر زیر تربیت پیر یا پیرنی کو تقلیل غذا کی طرف مائل کرنا ہوتا ہے۔لیکن اس کیس میں دونوں زیر تربیت لوگ بسیار خوری کے شوقین ہیں۔اگرچہ عمران خان کو کھانے میں زہر ملانے کا خوف یا خدشہ آج سے نہیں ہے، بلکہ وزارت اعظمی کے زمانے سے چلا آ رہا ہے۔وہ اپنے بارے میں انواع و اقسام کی افواہیں اور خدشات کی مارکیٹنگ کرنے میں کامل مہارت رکھتے ہیں ۔اب یہ سراغ لگانا مشکل ہے کہ دونوں زیر تربیت صوفیوں میں سے کس نے یہ عادت کس کو سکھائی ہو گی؟لیکن اب جس طرح اور جس طرز سے بشری بی بی نے اپنے بارے میں خدشات کی مارکیٹنگ شروع کی ہے ،اس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ اب وہ خود کو پہلے سے زیادہ نمایاں اور متحرک رکھنے کی آرزو مند ہیں۔ستم ظریف کا خیال ہے ساحران کج رفتار و دراز منقار اپنے “معمول” کی رگ جاں کو بھی بچا اور سجا کر رکھنا چاہتے ہیں ،تاکہ بوقت ضرورت کام آ سکے ۔ساتھ ہی ساتھ ستم ظریف اپنے اس ذاتی تاثر کا اظہار بھی کررہا تھا کہ ریاست کے کندھوں پر سوار پیران تسمہ پا نے اب صفائے قلب و نظر کے لیے مشکوک مکتوب نگاری اور ڈاکہ زنی کا جو آغاز کیا ہے ، اس دیکھ پڑھ کر خوف طاری ہونے کے عوض مکتوب الیہ کی ہنسی نکل جانے کی اطلاعات ہیں۔ ان لفافہ بند مشکوک خطوط میں کوئی ضرر رساں پاؤڈر بھی پایا گیا ۔بعضے لوگ مشکوک مکتوب زنی کو بھی ساحران کج رفتار و دراز منقار کی حرکت قرار دے رہے ہیں۔ یہ ایسی باتیں ہیں کہ جن کی حقیقت کبھی بھی کھل کر سامنے نہیں آ سکے گی۔بس یہ ضرور نظر آنے لگا ہے کہ مابعدالطبیعیات کے ذریعے ریاست کی اجتماعی زندگی قابو میں رکھنے اور بدستور فرسودہ طور طریقوں سے چلانے پر مصر حاضر سروس سامری جادوگروں کا دور بھی تمام ہونے والا ہے ۔جس میان میں ٹوٹے پھوٹے تیر بھرے ہوں ، اس کے نشانہ بازوں کے سارے نشانے خطا ہی جاتے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں