ہفتہ وار کالمز

ججوں کے استعفے !

اگر آپ سے پوچھا جائے کہ پاکستان کا کون سا ادارہ صحیح کام کر رہا ہے تو شائد آپ نہ بتا سکیں اور مایوسی میں کہیں شائد کوئی ادارہ مناسب طور پر اپنا کام نہیں کر رہا ،یہ افسوسناک ہوگامگر یہ سچ ہے کہ پاکستان کا کوئی ادارہ کارکرد گی دکھانہ سکاایسا کیوں ہے،وہ ممالک جو پاکستان کے ساتھ آزاد ہوئے وہ آج دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی صف میں ہیں اور ہم ان کے دروازے پر کشکول لئے کھڑے ہیں،ہماری تاریخ بہت گھناؤنی ہے،تاریخ کیا ہوتی ہے ؟تاریخ کسی ملک میں حکمرانوں کی کارکردگی کا ایک ریکارڈ ہے،چاہے وہ سکندرِ اعظم کا ہو نیپولین کا یا چندر گپت موریا کا،تاریخ آئینہ ہے بس ایک سوال کہ کوئی حکمران اپنی قوم سے اپنے ملک سے کتنی محبت کرتا ہے اور یہ بھی کہ اس کا اپنے ملک کے بارے میں وژن کیا ہے،تاریخ نے میعارات طے کر رکھے ہیں ان میں عدل ،روزگار،ذرائع نقل و حمل،اور تعلیم شامل ہے ان امور پر اگر دل جمعی سے کام ہوا ہوتو کہا جائیگا کہ ملک میں ترقی ہوئی ہے،شیر شاہ سوری کو آج بھی گرانڈ ٹرنک روڈ کی تعمیر پر یاد رکھا جاتا ہے،مغلوں کو عمارتوںاور باغات کی تعمیر کا کریڈٹ دیا جاتا ہے،ایک بات مغلوں کے بارے میں اور کہی جاتی ہے اور وہ یہ ہے کہ مغلوں نے ہندوستان کو اُردو اور تاج محل ہی دیا، عدلِ جہانگیر کی بات کی جاتی ہے مگر اس کے کوئی واضح ثبوت نہیں ملتے،عدلِ جہانگیری کے بارے میں کچھ کہانیاں مشہور ہیںجن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں،جدید ریاست میں اولیت عدل اور تعلیم کو حاصل ہے جس پر Compromiseنہیں کیا جاتا، اور اس کا Human Developement سے گہرا تعلق ہے جن حکومتوں کے حکمران Human Developementپر کام کرتے ہیں ان کو یاد رکھا جاتا ہے،کوئی ریاست بے لگام آزادی کی اجازت نہیں دیتی آزادی کی اپنی حدود و قیود ہوتی ہیں ،بقول برنارڈ شا جہاں سے میری ناک شروع ہوتی ہے وہاں سے آپ کی آزادی ختم ہو جاتی ہے ،تحریک آزادی جس صورت سے Manageہوئی اس میں جلسے جلوسوں کا بہت دخل تھا اور یہ بات ہندوستان کے لوگوں کے لئے ایک نیا تجربہ تھا،آزادی کے بعد بھارت اور پاکستان کے حکمرانوں نے جلسوں کو اپنی بات منوانے کا ایک ذریعہ بنا لیااور آج تک دونوں ممالک کے حکمران اپنے اپنے ملک کے جہل کو جلسوں اور جلوسوں
کے ذریعے کیش کر رہے ہیں،ہندوستان کے ایک مصنف راج سوامی آنند نے لکھا کہ جلسے جلوسوں کے گلیمر نے فرد کو اپنے بنیادی حقوق کے بارے میں سوچنے کا موقع ہی نہیں دیا ،جلسے جلوسوں میں سیاسی orator نے ہجوم کو جدھر بہا دیا ہجوم اس طرف ہی بہہ نکلا،ان پڑھ ہجوم نے کبھی عدل،تعلیم اور صحت کی ضرورت پر غور ہی نہیں کیا،اور کبھی سوچا بھی نہیں کہ یہ چیزیں اس کے لئے کتنی اہم ہیںرابندر گھوش نے بھی طنزیہ انداز میںلکھا تھا کہ بندروں کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ ہ وہ اچھل کود لیتے ہیں،اور ان کو اس سے زیادہ کچھ چاہیئے بھی نہیں،عوام الناس کے اس طرزِ عمل نے ملک کی ایلیٹ کلاس کو یہ موقع دیا کہ تعلیم، عدل اور صحت کو اپنی ترجیہات سے نکال دے،رفتہ رفتہ ایلیٹ کلاس نے مختلف بہانوں سے عوام کی فوڈ باسکٹ کو بھی کم کرنا شروع کر دیا،آزادی کے بعد پاکستان کے حکمرانوں نے عوام کے ہاتھ میں اسلام پکڑا دیا اور ان کے بنیادی حقوق چھین لئے،عوام کو اپنے بنیادی حقوق کی خبر ہوتی تو نہ مارشل لاء لگتے نہ جسٹس منیر مارشل لاء کو جائز قرار دیتے،پاکستان میں پی ڈبلیو ڈی کا محکمہ کبھی بہت بدنام تھااور زد زبانِ عام تھا کہ کہ اس محکمے کے لوگ رشوت خور ہیں اور پبلک ورکس میں مال کماتے ہیںمگر ہم نے دیکھا کہ آہستہ آہستہ عدلیہ نے بد عنوانی کے سارے ریکارڈ توڑ دئے،رشوت عام ہوئی تو عدل تماشا بن کر رہ گیا، دلیل نابود ہوئی قانون سرِ عام نیلام ہوااور یہ کہا جانے لگا کہ مقدمہ جیتنا ہے تو وکیل نہ کرو جج کرلو اور یہی ہواکہ وکیلوں اور ججوں کی گروہ بندی ہوئی فیصلے وکیل لکھنے لگے جج صرف دستخط کرتا اور لاکھوں جیب میں بھر لیتا،یہ سلسلہ پچھلی صدی کی چھٹی دہائی میں عام ہو چکا تھا،اور پھر یہ وبا کی طرح پھوٹ پڑا،ایک زمانہ تھا جب پبلک سروس کمیشن ججوں کا امتحان لیتا تھا اس سسٹم میں سیاسی جماعتوں کا عمل دخل نہ تھا جب عوام کو اپنے بنیادی حقوق کی پرواہ ہی نہ تھی تو حکمرانوں کو کیا پڑی تھی کہ وہ عوام کی زندگی میں ان کی بہتری ٹھونستے،اور یہ بات سچ ہے کہ If you don’t know your rights,you don’t have any rights.فرد کا کتاب سے کوئی علاقہ نہ ہو تو جہل فرد کو اپنی چادر میں لپیٹ لیتا ہے،سیاسی جماعتوں نے اپنے من پسند جج لگانے کے لئے پبلک سروس کمیشن سے اختیار لے لئے اور پھر جیوڈیشیل کونسل ہے جج Appoint کرنے لگے امیدوار عام طور پر وہ وکیل ہوتے جن کا وکالت کا دس پندرہ سال کا تجربہ ہو ،اس کے ساتھ کوئی گہری سیاسی وابستگی ہو تو سونے پہ سہاگہ،وکیلوں کی نفسیات کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ معاشرے کا کچلا ہوا طبقہ ہے،جو وقت کے ساتھ موکلین کو جھانسہ دینا،ان سے رقم اینٹھنا اور ججوں سے تعلقات بنانا سیکھ جاتا ہے مگر قانون پر مہارت رکھنا کم سیکھتا ہے،جج بنتاہے تو دولت کے انبار پر بیٹھنا چاہتا ہے،اس کے لئے اخلاقیات کوئی معنی نہیں رکھتی ،اٹہتر سال کی تاریخ میں چند جج ہیں جو Upright Character کے امین تھے،جسٹس عبدالقدیر،جسٹس کارنیلئیس اور جسٹس بھگوان داس،شرم کا مقام ہے کہ مسلمان ججوں میں کوئی بھی نام نہ کما سکا،سب کے سب رسوائے زمانہ،عدلیہ کی آزادی کی تحریک چلی تو ملک پر افتخار چوہدری بنچ مسلط ہو گیااور اس کے اندر سے وکیل گردی کا آسیب نمودار ہوا، وکیلوں نے کمرۂ عدالت میں ججوں کی ٹھکائی کی،ڈاکٹروں کو مارا اور جب چاہا عدلیہ کے نظام کو مفلوج کر دیااور حکومت خاموش تماشائی بنی دیکھتی رہی،حال یہ تھا کمرۂ عدالت میں ایک معصوم انسان کو جج کے سامنے گولی مار دی جاتی ہے اور جج ڈر کے مارے چھپ جاتا ہے اور کوئی کاروائی نہیں ہوتی،دنیا کے کسی ملک میں اتنی بزدل عدلیہ شاید ہی دیکھی گئی،اٹلی میں جب اسمگلرزججوں کی جان کے درپے تھے تب بھی Blind Wallsکے پیچھے بیٹھ کو ججوں نے مجرموں کو سخت سزائیں سنائیں اور ملک سے لاقانونیت کا خاتمہ کیا،نام نہاد اسلامی جمہوریہ میں ججوں کی گدی پر مجرمانہ ذہنیت کے افراد کو بٹھا دیا گیا جسٹس نسیم نے قومی ٹی وی پر بیٹھ کر کہا کہ اگر ہم فوج کے حق میں فیصلے نہ دیتے تو فوج عدلیہ پر ٹینک چڑھا دیتی،یہ کمینگی تھی،جسٹس نسیم اسی وقت استعفی دے دیتا تو اسے قوم کا ہیرو سمجھا جاتا،پاکستان کی عدلیہ کی تاریخ بہت شرمناک ہے اور یہی یقین کیا جاتا ہے کہ عدلیہ ہمیشہ سے ہی Biased رہی ہے قومی اخبارات نے لکھا کہ بندیال اپنی اہلیہ کے دباؤ میں فیصلے لکھا کرتے تھے اعجاز الاحسن اور مظاہر نقوی عدلیہ کے بدبودار کردار تھے،Good to see you سے لے کر کسی مجرم کو مرسیڈیز فراہم کرنا ذلالت کی انتہا تھی ہر حکومت اپنے آپ کو مستحکم کرنا چاہتی ہے،خاص طور پر اس ملک میں جہاں دو صوبے بغاوت پر اتر آئے ہوں،اس بار فوج نے حکومت کو عدلیہ اصلاحات کی اجازت دی، اور بہت نا مساعد حالات میں حکومت چھبیس ویںاور پھر سترہویں ترامیم لے آئی،اس کا مقصد افتخار بنچ کے اس شرمناک کردار کو ختم کرنا تھا جس نے غیر اعلانیہ جیوڈیشیل مارشل لاء لگا رکھا تھا اور جس کے فیصلے تواتر سے شہباز حکومت کے خلاف آرہے تھے جس کی وجہ سے حکومت اپنی پالیسیاں نافذ نہیں کر پا رہی تھی ان دونوں ترامیم کی وجہ سے یہ راستہ روک دیا گیا ہے اور ایک عرصے کے بعدحکومت آزادی کے ساتھ اپنے پروگرام کو آگے بڑھا سکتی ہے جس میں سب سے اہم غیر ملکی سرمایہ کاری کو دعوت دینا ہےاس افراتفری کو ختم کرنا ہے جو سرمایہ کاری کی راہ میں رکاوٹ تھی ہر دم یہ خدشہ تھا کہ عدالت عمران کو کوئی ایسا ریلیف دے سکتی ہے جس کی وجہ سے وہ باہر آ سکتے ہیں اور سارا نظام تلپٹ کر سکتے ہیں،جسٹس منصور علی شاہ کے بارے میں یہ تاثر پیدا ہو گیا کہ وہ الیکشن کے آڈٹ کا حکم دے سکتے ہیں اس بات کا اظہار خواجہ آصف نے بھی کیااور اس بات کی تصدیق جسٹس منصور علی شاہ کی ریمارکس سے بھی ہوئی کہ ہم تو بیچارے ویسے ہی یہاں بیٹھے ہیں،جسٹس منصور جب تک لاہور ہائی کورٹ میں رہے ان کا بہت احترام تھایہ درست ہے کہ حکومت نے جسٹس منصور کا راستہ روکا،نظام کو Derail ہونے سے بچانے کے لئے حکومت کے لئے یہ ضروری ہو گیا تھا چھبیس وین اور سترہویں ترامیم کے بعد کچھ ججوں کو اندازہ ہوا کہ وہ اپنی من مانی نہیں کر سکتے لہٰذا انہوں نے اپنے استعفے پیش کر دیئے جن میں جسٹس منصور علی شاہ،جسٹس اطہر من اللہ اور لاہور ہائی کورٹ کے ایک جج ہیں جن کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ سلمان اکرم راجہ کے برادرِ نسبتی ہیں،امریکہ میں سپر اسٹور میں جب چوریاں بڑھنے لگیں تو کیمرے لگا دیے گئےCCTV coverageبڑھ گئیں اگر چوریاں نہ ہوتیں تو نہ کیمرے لگتے نہ CCTV سے نگہداشت ہوتی اسی طرح اگر سپریم کورٹ کی جانب سے person specific فیصلے نہ آتے اور ججوں کا جھکاؤ عمران کی جانب نہ ہوتا تو شائدچھبیس ویں اور سترویں ترامیم نہ آتی تھی یہ cause and effect ہے ،خواجہ آصف کہہ چکے ہیں کہ یہ نظام ایک Arrangement کے تحت آیا ہے خواجہ آصف نے یہ بھی کہا کہ یہ Hibrid نظام ہے ،اس سے زیادہ کھل کر اور کیسے بات کی جا سکتی ہے،میں اس کا مطلب یہ لیتا ہوں کہ اندرونی اور بیرونی دباؤ کی وجہ سے ایک سوچا سمجھا نظام وضع کیا گیا تاکہ ملک کو بچایا جا سکے،یہ اس وجہ سے بھی ہوا کہ عمران نے بار بار نظام کو للکارا،ہر چند یہ ایک آئیڈیل نظام نہیںمگر مخصوص حالات میں Out of The Box Solutions نکالنے پڑتے ہیں،ججوں کے استعفے ظاہر کر رہے ہیں کہ ججوں کو معلوم ہو گیا کہ ان کا راستہ روکا جا چکا اور وہ من مانے فیصلے نہیں دے سکتے اس لئے انہوں نے مستعفی ہونا بہتر سمجھا،اگر یہ جج وکلاء تحریک میں شامل ہو گئے تو ان کے پوشیدہ ارادے کھل کر سامنے آجائیں گے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button