احمد شاہ ابدالی سے نور ولی محسود تک!

نو اکتوبر کے دن کابل میں ایک مسلح بکتر بند ٹویوٹا لینڈ کروزر پر ایک فضائی حملہ ہوا۔ الجزیرہ ٹیلی ویژن کی رپورٹ کے مطابق یہ ڈرون حملہ پاکستان نے کیا تھا کیونکہ اس گاڑی میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ نور ولی محسود کی موجودگی کی اطلاع ملی تھی۔ اس حملے میں ٹی ٹی پی کے چند کمانڈر ہلاک ہوئے مگر نور ولی محسود کی ہلاکت کی تصدیق نہ ہو سکی۔ پاکستان نے اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔ سولہ اکتوبر کو ٹی ٹی پی کے سربراہ کا ایک ویڈیو پیغام الجزیرہ نے نشر کیا۔ اس پیغام میں نور ولی محسود نے کہا ہے کہ وہ زندہ ہے اور یہ بتانا چاہتا ہے کہ وہ افغانستان میں نہیں بلکہ پاکستان میں ہے۔ پانچ منٹ کی اس ویڈیو فوٹیج میں نور ولی نے کہا کہ جہاد ‘ آزادی اور وقار کی علامت ہے اور اسکے بغیر قومیں غلام بن جاتی ہیں۔نو اکتوبر کے اس حملے کے بعد پاکستان اور افغانستان کی سیکیورٹی فورسز کے درمیان سرحدی علاقوں میں ایک خطرناک جنگ کا آغاز ہوا جو 15 اکتوبرکو 48گھنٹے کی جنگ بندی کے ایک معاہدے کے بعد ختم ہوا۔
پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ محمد آصف کے فراہم کردہ اعدادو شمار کے مطابق گذشتہ چار برسوں میں دہشت گردی کے 10347 واقعات کے دوران سول فوجی اور قانون نافذ کرنے والے اداروںکے 3844 افراد شہید ہوئے ہیں۔ اس دوران پاکستان کے سینئر سول اور فوجی افسران کئی مرتبہ کابل کا دورہ کر کے طالبان حکومت کو ٹی ٹی پی کے حملے بند کرانے کا کہہ چکے ہیں۔ لیکن کابل حکومت مسلسل یہ کہہ رہی ہے کہ ٹی ٹی پی یہ حملے انکی سرزمین سے نہیں کر رہی۔ ٹی ٹی پی کے ان حملوں میں شدت پندرہ اگست 2021 کو کابل میں افغان طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد آئی ہے۔
نور ولی محسود نے 2018میں ٹی ٹی پی کا عہدہ سنبھالنے کے فوراًبعد اس جنگجو تنظیم کو ایک نئے انداز سے منظم کرنے کا کام شروع کر دیا تھا۔ نور ولی سے پہلے بیت اللہ محسود‘ نیک محمد‘ حکیم اللہ محسود اور مولانافضل اللہ ٹی ٹی پی کے سربراہ رہ چکے تھے۔ نور ولی اپنے پیشرئووں سے اس لحاظ سے مختلف ہے کہ وہ جنگجو ہونے کے علاوہ دانشور بھی ہے۔ اس کی لکھی ہوئی کتابوں میں زیادہ شہرت پانے والی کتاب ’’ انقلاب محسود‘‘ ہے۔ سات سو صفحات کی اس کتاب کا ذیلی عنوان ’’ جنوبی وزیرستان‘ برطانوی راج سے امریکی سامراج تک‘‘ ہے۔ اس کتاب میں نور ولی محسود نے دسمبر 2007 میں بینظیر بھٹو کے قتل کی ذمہ داری قبول کرتے ہوے لکھا ہے کہ انکی وزارت عظمیٰ میںپاکستان نے امریکہ کے ساتھ ملکر مجاہدین پر حملے کیے تھے۔
ٹی ٹی پی کے اغراض و مقاصد بیان کرتے ہوے اس نے لکھا ہے کہ ان میں پاکستان کے قبائلی علاقوں میں شریعت نافذ کرنا‘ امریکہ کو افغانستان میں شکست دینا اور محسود قبیلے کی آزادی کو برقرار رکھنا شامل ہیں۔
نور ولی محسود 26جون 1978 کو جنوبی وزیرستان کے گائوں مچھی خیل میں پیدا ہوا۔ پاکستان کے مختلف مدرسوں میں تعلیم حاصل کر نے کے بعد 1990میں وہ افغان طالبان میں شامل ہو گیا۔ اس نے 2003 میں ٹی ٹی پی میں شمولیت اختیار کی اور اپنے نظریاتی میلان کی وجہ سے وہ طالبان کی عدالتوں میں جج کے فرائض سر انجام دینے کے بعد کراچی میں ٹی ٹی پی کا منتظم اعلیٰ مقرر ہوا۔ بعد ازاں وہ مولانا فضل اللہ کا نائب رہنے کے بعد ٹی ٹی پی کا سربراہ بن گیا۔
نور ولی محسود کی قیادت میں ٹی ٹی پی ایک ایسے وقت میں پاکستان کے شہروں اور قبائلی علاقوں میں بلا ناغہ حملے کر رہی ہے جب پاکستان اور افغانستان کے مابین18اکتوبر کو دوحہ میں جنگ بندی کا ایک معاہدہ طے پاگیاہے ۔ اس معاہدے کی کامیابی دونوں ممالک کے عوام کی ترقی ااور استحکام کا باعث بن سکتی ہے مگر اس خطے کی تاریخ یہ کہتی ہے کہ افغان ہمیشہ سے اپنے ہمسایوں کے ساتھ بر سر پیکار رہے ہیںاور گذشتہ ایک ہزار برسوں میں وہ ہندوستان کے طول و عرض میں مختلف نوابوں‘ راجوں اور بادشاہوں سے اتحاد بنا کر جنگیں لڑتے رہے ہیں اور امن معا ہدے بھی کرتے رہے ہیں۔ ان میں ایک نمایاں مثال سلطان محمود غزنوی کی ہے جس نے سن 1000سے1027 کے درمیان ہندوستان پر 17حملے کئے اور ہر مرتبہ بر صغیر کی بے پناہ دولت کو لوٹ کر اپنی سلطنت کے دارالخلافے غزنی کو مضبوط اور خوشحال کیا۔ اسکے بعد دوسری اہم مثال احمد شاہ ابدالی کی ہے۔ اس نے ہندوستان پر سات حملے کر کے اتنی لوٹ مار کی اور اتنا خو ف و ہراس پھیلایا کہ اسکے بارے میں یہ کہاوت مشہور ہوئی کہ ’’ کھادا پیتا لاہے دا تے مال احمد شاہے دا‘‘ یعنی عام آدمی نے جو کچھ کھا لیا وہی اسکا ہے باقی سب کچھ احمد شاہ کا ہے۔ وہ ایک طاقتور کماندار ہونے کے علاوہ ایک ذہین سفارتکار بھی تھا۔ اسے اپنی جنگ و جدل سے بھرپور زندگی میں ایک سخت مرحلہ اس وقت درپیش آیا جب 1761 میں اسے مرہٹوں کے خلاف پانی پت کی تیسری جنگ لڑنا پڑی۔احمد شاہ نے اس جنگ میں اودھ کے نواب شجاع الدولہ کو ساتھ ملا کر مرہٹوں کو شکست دی۔ انگریز مصنف James Grant Duff کی کتاب History of the Marathas میں لکھا ہے کہ شجاع الدولہ نے آخری وقت میں احمد شاہ کا ساتھ دیکر جنگ کا پانسا پلٹ دیا۔
گذشتہ ہفتے افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی نے بھارت کے سات روزہ دورے کے دوران پہلے کشمیر کو بھارت کا حصہ قرار دیا پھر کئی معاہدوں پر دستخط کرکے پاکستان کے دشمن ملک کے ساتھ ایک نئی رفاقت کا آغاز کر دیا۔ یہ معاہدہ بھی اسی ساز باز اور جو ڑ توڑ کے سلسلے کی ایک کڑی ہے جو افغان حکمران صدیوں سے بر صغیر میں جنگیں برپا کر نے کے لیے کرتے رہے ہیں۔ ان حالات میں صرف یہ دعا کی جا سکتی ہے کہ نور ولی محسود پاکستان دشمنی سے سبکدُوش ہو جائیں اور افغان طالبان بھارت سے ایک دفاعی معاہدے کے با وجود پاکستان کے ساتھ ایک امن پسند ہمسائے کی طرح امن و آشتی کیساتھ رہیں۔



