ہفتہ وار کالمز

فوج ظفر موج

بھائیو! پاکستان کی افواج نے 75 سالوں میں آہستہ آہستہ بہت ترقی کی ہے۔ آج ہم اس مقام پر پہنچ گئے ہیں کہ ملک کے ہر ادارے میں یا تو ہمارا حاضر سروس یا سابق فوجی افسر براجمان ہے۔ ہمیں اب ہر ادارے سے با قاعدہ رپورٹ مل رہی ہیں کہ اس میں کیا ہو رہا ہے، اور کیا کھچڑی پک رہی ہے۔ یہ اللہ کا کرم ہے کہ فوج کے خلاف کچھ نہیں ہو رہا۔ہماری سب سے بڑی کامیابی تب ہوئی جب8فروری کے عام انتخابات ہوئے۔ ان میں ہمارے امید وار نواز فیملی اور زرداری فیملی اور چند دوسرے امیدوار انتخاب ہار گئے۔ یہ ہمیں ایک نادر موقع ملا کہ ہم نے فارم 45 کے نتائج کو فارم 47کے ذریعے بالکل بدلوا دیا۔ جو ہارا وہ جیت گیا اور وہ زندگی بھر کے لیے ہمارا غلام بن گیا۔اب ان جھوٹے عہدیداروں کو وزارتیں مل گئی ہیں جن کے وہ حقدار نہیں تھے۔ اس لیے وہ اب ہمارے اشاروں پر ناچتے ہیں۔اب ہم جو چاہتے ہیں وزیر اعظم آنکھیں بند کر کے ا س پر دستخط کردیتے ہیں۔ ہم نے 26 ویں آئینی ترمیم کروا کر عدلیہ کو زیر نگین کر لیا۔ اب ہم جو چاہیں ہمارے رستے کی کو ئی رکاوٹ نہیںہے۔اگر کوئی چھوٹی موٹی رکاوٹ ہے تو اسے بھی27 ویں، 28ویں اور29ویں ترمیم سے حل کر لیں گے۔
کچھ بیوقوف لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم مارشل لاء لگانا چاہتے ہیں، یہ ان کی غلط فہمی ہے۔ نہ اس کی اجازت ڈونلڈٹرمپ بہادر دیں گے اور نہ ہی اس کا کوئی فائدہ ہے۔ سب سے اچھا یہ نظام ہے جس میں کام ہم کرواتے ہیں اور نزلہ شہباز شریف کی حکومت پر گرتا ہے۔اور وہ ان چیزوں سے بالکل چکنے گھڑے کی طرح بے اثر رہتی ہے۔بس یوں سوچیں کےتیرا کرم ہے آقا کہ بات ابھی تک بنی ہوئی ہے۔
فوج پاکستان کے ساتھ ہے اور پاکستان فوج کے۔یہ ہماری ذمہ واری تھی کہ بطور ایک ذمہ دار، فرض شناس اور منظم ادارے کے ہم اپنے ملک کی حفاظت کرتے۔ اور یہ ہم کر رہے ہیں۔ یہ ایک بڑا ملک ہے، اس کی ضروریات بھی بڑی ہیں اور مسائل بھی بڑے ہیں۔ سیاستدانوں نے پہلے دن سے پاکستان کو گھن کی طرح کھایا۔ بجائے عوام پر ملک کی آمدنی خرچ کرتے ، اپنی عیاشیوں اور ذاتی فائدوں پر قومی سرمایہ خرچ کیا۔ فوج نے تو اپنے ریٹائرڈ جوانوں اور افسروں کو نوکریاں دلوائیں۔ انڈسٹریل پلانٹ لگوائے جس میں اعلیٰ ، صاف ستھری مصنوعات بنا کر عوام کو پیش کیں۔ یہ تمام دنیا کا دستور ہے کہ فوجی ادارے قومی معیشت میں حصہ لیتے ہیں۔ ہم نے کوئی انوکھا کام نہیں کیا۔ یہ تو پاکستانی حکومتوں کی نا اہلیت تھی کہ ہماری بنائے ہوئے منصوبے دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی کرتے رہے۔ جن لوگوں نے ڈی ایچ اے میں جائداد خریدی ان کے پو بارہ ہو گئے۔ اس لیے کہ ہم نے ڈی ایچ اے کو محفوظ بنایا، اچھی شہری سہولتیں دیں، جو کہ لوگوں کو اور آبادیوں میں نہیں ملتیں۔تو اس میں ہمارا کیا قصور ہے؟اب ڈی ایچ ا ے ہائوسنگ کی اتنی مانگ ہے کہ ہم پوری نہیں کر سکتے۔
سچ تو یہ ہے کہ پاکستان کو 75سال جس نے بچایا اور ترقی دلوائی وہ آپ کی پیاری فوج ہی تھی۔ ورنہ سیاستدان تو پاکستان کو کبھی کا بیچ کر رفو چکر ہو گئے ہوتے۔کچھ نادان کہتے ہوںگے کہ اگر فوج ماشل لاء نہ لگاتی ، صرف سرحدوں کی حفاظت کرتی تو ایک نہ ایک دن جمہوریت کامیاب ہو ہی جاتی۔اگر آئین پر عمل ہوتا، عدالتی نظام چلتا رہتا تو عوامی حکومتیں بنتیں اور جمہوریت پنپتی۔ لیکن فوج نے ہر دفعہ مارشل لاء لگا کر ملک کو دہائیوں پیچھے دھکیل دیا۔ اس لیے کہ فوج کو ملک چلانے کی تربیت نہیں دی جاتی۔اور نہ ان کو اس کا ہنر آتا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ فوجی نظام اور جمہوریت دو متضاد نظام ہیں۔ جب بھی فوج آئی اس نے اپنے طریقے سے ریاست کو چلانا چاہا جو کچھ دیر تو چلا لیکن جلد ہی وہ سیاستدانوں اور نوکر شاہی کے دام میں پھنس گئی۔انہیں بھی رشوت اور کرپشن کے فائدے نظر آنے لگے، اور وہ چھ مہینے کے لیے آتے تھے اور دس سال تو آسانی سے گذار لیتے تھے۔ اس اثنا میں ان کے افسر خوب دولت کما کر ریٹائر ہو کر کینیڈا، امریکہ اور دوسرے ترقی یافتہ ملکوں میں جا کر بس جاتے تھے۔
اب اتنے سالوں کی لگاتار کوشش کے بعد ہماری پیاری فوج ملک پر پوری طرح قابو پا چکی ہے۔ اور پاکستان کی حکومت ایسے بے ضمیر، نااہلوں کے ہاتھ میں ہے، کہ وہ ہمارے بوٹ چاٹتے ہیں۔ ہماری چھوٹی سی خواہش ان کے لیے حکم کا درجہ رکھتی ہے۔ اب خدا کا کرنا یہ ہوا کہ امریکہ بہادر بھی ہم پر مہربان ہو گیا۔ اب وہ ہم کو استعمال کر رہا ہے اور ہم اس کو۔ہے نہ مزے کی بات۔ہم نے ٹرمپ کو نوبل پیس پرائز کی امید دلا دی جو اس کو بھا گئی۔اس نے سمجھا کہ واقعی اس کو نوبل پیس پرائز مل جائے گا۔ یعنی نوبل پرائز کی کمیٹی یہ بھول جائے گی کہ اگر وہ ۱سرائیل کو اسلحہ، ہتھیار اور نقد امداد نہ بھیجتا تو غزا میں اتنی تباہی اور نسل کشی نہ ہوتی۔ اب اس حرکت کے بعدنوبل پرائز کی توقع رکھنا احمقانہ نہیں تو اور کیا تھی؟ جہاں تک پاک بھارت کی جنگ رکوانے کی بات تھی تو بھائی جان وہ چار دن کی جنگ کروائی امریکہ نے، اپنے بڑے بھائی کے حکم پر، تھی جسے مودی نے مان لیا۔ جب پاکستان نے بھارت کے سب سے خطرناک جہاز گرا دئیے تو وہ پاکستان کا نہیں چین کا کمال تھا۔ لیکن سہرا پاکستانیوں نے لیا، اور جس شخص نے میدان جنگ میں قدم نہیں رکھا تھا اسے فیلڈ مارشل بنا دیا گیا ۔ یہ سب مافوق الفطرت واقعات تھے۔ اور ٹرمپ کے لیے ایک عجوبہ۔ امریکہ کی دوسری بڑی جنگ جس میں وہ براہ راست ملوث ہے، یعنی یو کرائن اور روس کے درمیان۔ ٹرمپ بھائی اس کو بھی رکوانے میں نا کام ہو گئے۔ تو نوبل پرائز کس نام کا، بھائی جان؟
ٹرمپ نے جس وجہ سے بھی غزہ پر نسل کشی بند کروائی اور وہ بھی جب ایک لاکھ سے اوپر فلسطینی اللہ کو پیارے ہو گئے، تو بھی اس کا شکریہ۔ یہ جنگ بندی کتنی پایئدار ہو گی ، اس کا خد ا کو ہی علم ہو گا۔ ورنہ وہ شیطان لعین تو تسمانین ڈیول کی طرح ہروقت فلسطینیوں کو مارنے پر تلا رہتا ہے۔ اس سے کچھ بھی بعید نہیں۔ معاہدے میں کہا گیا ہے کہ حماس اپنے ہتھیار دے دیں گے۔ حماس کا ایسا کوئی ارادہ نہیں۔ اب دیکھیں کہ کیا ہوتا ہے۔حماس نے سب زندہ اور مردہ اسرائیلی قیدی چھوڑ دئیے ہیں سوائے دس کے جو ملبہ میں دبے ہیں۔ اس کے لیے کوششیں جاری ہیں۔لیکن یہ سب جانتے ہیں کہ تسمانین ڈیول تو وہی کرے گا جو اس کا دل چاہے گا۔ ٹرمپ یا نو ٹرمپ۔
ہمارا خواب پورا ہو گیا اور ٹرمپ بہادر کو پاکستان کی ضرورت پڑ گئی۔ وہ بھی اس لیے کہ اسرائیل نہیں چاہتا کہ پاکستان کے ساتھ مخاصمت ہو۔کیونکہ پاکستان ایک ایٹمی قوت ہے اور کبھی بھی غیر مستحکم ہاتھوں میں جا سکتا ہے یا اسلامیسٹ کے پاس جیسے عمران خان۔ اس لیے یہ بہت ضروری ہے کہ پاکستان ان موجودہ نا اہلوں کے ہاتھوں میں رہے اور وہ کرے جس کا اسکو اشارہ دیا جائے۔ اس میں اسرائیل کی سلامتی ہے۔ پاکستان کے موجودہ حکمران اور ان کا ملٹری کمانڈر، صرف پیار کے بھوکے ہیں۔ انہیں ایک دمڑی بھی نہ دی جائے تو وہ اسی میں راضی ہیں، کہ ٹرمپ بھائی نے دیکھا مگر پیار سے۔اس میں وہ بھارت سے بھی جنگ کرنے کو تیار ہیں ۔ ان کو معلوم نہیں کہ پاکستان کے پاس کھانے کو پیسہ نہیں، قرض اتارنے کو پیسہ نہیں، وہ اس ننگے بھوکے ملک کو بھارت سے کیسے جنگ کروا سکتا ہے؟اگر جنگ چھڑ جاتی ہے تو پاکستان کے پاس دو ہی راستے ہوں گے۔ یا تو چپ کر کے مار کھائے، اور کچھ علاقے بھارت کو لینے دے۔ یا پھر اپنے ایٹم بم استعمال کرنے کی دہمکی دے دے، جس سے بھارت یقیناًخوف زدہ ہو جائے گا اور جنگ بند ہو جائے گی۔
فی الحال تو بڑے صاحب کو ٹرمپ کو یہ دکھانا ہے کہ وہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ صرف مذہبی جماعتوں کی مخالفت کا خوف ہے تو اس کا انتظام کیے دیتے ہیں۔تحریک لبیک والے بھولے بھالے ہیں ان کو آسانی سے اُکسایا جا سکتا تھا لہٰذا جب وہ احتجاج کریں گے تو ان کو ایسا سبق سکھائیں گے کہ انکی نسلیں تو کیا ، سب مذہبی جماعتیں خوف سے سر اٹھانے کے قابل نہیں رہیں گی۔چنانچہ یہی کیا گیا۔ تحریک لبیک والوں کو اُکسا کر احتجاجی جلسہ کروایا گیا اور پھر شرکاء پر ایسی گولی چلوائی گئی کہ کوئی کہتا ہے درجنوں، کوئی کہتا ہے پانچ چھ سو کارکن گولیوں سے بھون ڈالے گئے۔ ایک امریکہ ذریعہ تو کہتا ہے کہ ایک ہزار یا اس سے اوپر لاشیں گرائی گئیں۔لو کر لو گَل۔اس حرکت سے ہزار دو ہزار پاکستانی مارے بھی جائیں تو 25کروڑ کے ملک میں کیا فرق پڑتا ہے۔ ہزار دو ہزار خاندان اچانک خط ِغربت سے نیچے چلے جائیں گے تو کیا؟ بینظیر پروگرام تو ہے نہ؟ ان تھوڑے سے لوگوں کی قربانی سے اگر پاکستان کو اتنے فوائد پہنچتے ہیں تو کیا مضائقہ ہے؟ سب سے بڑی بات کہ فیلڈ مارشل کو ایکسٹنشن مل جائے گی۔یہ کوئی کم فائدہ ہے؟
ادھر پاکستان کو ٹرمپ صاحب ، بحکم تسماننین ڈیول (Tasmanian Devil) اسرائیل کو تسلیم کروانا چاہتے ہیں، یہ بھی ہو جائے گا۔ لیکن ٹرمپ نے قسم کھائی ہوئی ہے کہ پاکستان کو نقد کی شکل نہیں دکھائی جائے گی جب کہ بوٹ پالش سے کام اچھا بھلا چل رہا ہے۔
پاکستان ٹرمپ کے اشاروں پر ناچ رہا ہے خواہ اس میں پاکستان کی خارجہ پالیسی کا بیڑہ غرق ہو جائے۔ اب دیکھیں کہ پاکستان خواہ مخواہ افغانستان سے ٹکر لے رہا ہے۔ کیا ارادہ ہے جناب کا؟ جب پاکستان افغانستان سے جنگ میں اچھی طرح الجھ جائے گا تو بھارت نے پاکستان پر حملہ کر دینا ہے۔ پھر پاکستان کے پاس نہ اتنا اسلحہ ہو گا اور نہ اتنی رقم کہ وہ دو مکھی لڑائی لڑ سکے گا۔ بھارت مزے سے پنجاب ، آزاد کشمیر ، اور بلوچستان کے رقبہ پر قبضہ کر سکے گا اور امیر المومنین کچھ بھی نہیں کر سکیں گے۔سعودی عرب جس سے بڑا معاہدہ ہوا ہے، وہ بھی کسی شق کا سہارا لیکر مدد کو نہیں آئے گا اور ٹرمپ بھلا کیوں مدد کرے گا؟ وہ تو ازرائیل کے حکم پر چلتا ہے اور اسرائیل توپاکستان کو تباہ و برباد دیکھنا چاہتا ہے، کیوں ایسا ہی ہے نہ؟ ہمارے منہ میں خاک، کیا یہی پروگرام تو نہیں؟ آج کی دنیا میں سب کچھ ممکن ہے۔ جب بجائے سیاستدانوںکے ،فوج ملک کے فیصلے کرنے لگ پڑے تو کیا کیا جا سکتا ہے؟ ایک لولا، لنگڑا، پاکستان رہ جائے گا، اور تمام کرپٹ جرنیل، سیاستدان اورسول سروس والے اپنی دولتیں لے کر دوسرے ملک کا رخ کرلیں گے اور عمران خان سے کہیں گے لو سنبھالو اپنا پاکستان۔
یہ خوارج بھی عجیب ہیں؟ یہ چاہتے کیا ہیں؟ کیا پاکستان پر حکومت کرنا چاہتے ہیں؟ یا خواہ مخواہ اپنے بندے مروا رہے ہیں؟ ہماری مراد پاکستانی طالبان سے ہے۔ یہ جس کے اشاروں پر ناچ رہے ہیں وہ بھارت کی را اور اسرائیل کی موساد کے علاوہ کون ہو سکتا ہے؟ یہ نا مراد پاکستان کے دشمنوں کے اشاروں پر معصوم مسلمانوں کا خون ناحق کرتے ہیں، اور سوچتے ہیں کہ انہیںجنت مل جائے گی؟ ہے نہ سوچنے کا مقام؟ یہ پاکستانی فوج ہی ہے جو ان جہنمیوں کو جلد از جلد دوزخ کی گہرائیوں تک پہنچا رہی ہے ۔اب بتائیے۔ پاکستان کی فوج اچھی ہے نہ؟
پنجاب میں کتنی پیاری خاتون کو وزیر اعلیٰ بنا دیا ہے۔ وہ ہر وقت آئینہ دیکھتی رہتی ہے اور سوچتی ہے کہ ہائے اللہ میں کتنی خوبصورت ہوں، اور وہ بھی اس عمر میں۔ اللہ بھلا کرے پلاسٹک سرجری والوں کا۔ اب میں کیوں نہ جگہ جگہ اپنی تصویریں لگوائوں؟ تا کہ لوگ بھی میری تعریف کریں۔ یہ کمبخت سوشل میڈیا والے جلتے ہیںمجھ سے اور طرح طرح کی باتیں بناتے ہیں۔لیکن میں باز آنے والی نہیں کیونکہ فیلڈ مارشل میرے مداح ہیں اور مجھے جی جان سے چاہتے ہیں۔میں بھی ان کی مداح ہوں ۔ جو کچھ مریدکے میں ہوا، وہ تو ہونا ہی تھا۔سب کچھ پاکستان کی بہتری کے لیے کیا گیا۔ میرا کیا قصور۔ اگر پولیس اور دوسرے انتظامی ادارے اپنے حلف کو یاد نہیں رکھتے، تو یہ ان کا قصور ہے۔آئین تو اس لیے بنا ہے کہ سپریم کورٹ اس کی عملداری کرے۔باقی لوگوں کو الزام دینا درست نہیں۔

 

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button