یہود و ہنود
کیسے اسلام کی جڑیں کھو دیں
عزم روشن ہیں آخری حد تک
ہوں یہود و ہنود مسلم کے
دونوں دشمن ہیں آخری حد تک!
عالمی سطح پر یہ امر حقیقت پر مبنی ہے کہ انسان کسی نہ کسی حد تک تعصب کا شکار ہوتا ہے اور یہ تعصب مختلف رنگ اختیار کرتا ہے۔ مثلا نسلی تعصب، سیاسی تعصب، زبان اور علاقے کا تعصب، امارت و غربت کا تعصب لیکن فضا، قوانین، روایات اور مصلحتیں تعصب کے اظہار کو اکثر و بیشتر زبان پر نہیں آنے دیتے لیکن کبھی کبھی یہ تعصب اتنا شدید اور گھمبیر ہوتا ہے کہ تمام تر احتیاطوں اور مصلحتوں کے باوجود زبان پر آجاتا ہے۔ گزشتہ دنوں برطانیہ میں یہی ہوا۔ کنزرویٹو پارٹی کے لی اینڈ رسن مسلمانوں اور اسلام کے خلاف اپنا تعصب چھپا نہ سکے اور انہوں نے لندن کے میئر صادق خان کے خلاف یہ ببانگ دہل فرمایا کہ اب صادق خان اسلام پسندوں کے نرغے میں پھنس گئے ہیں۔ ان کا یہ بیان برطانیہ کی محتاط فضا کے برعکس تھا اس لئے اس بیان پر کافی لے دے ہوئی اور کنزرویٹو پارٹی نے لی اینڈرسن سے اس بیان پر معافی مانگنے پر اصرار کیا اور جب انہوں نے اس بیان پر معافی نہ مانگی تو انہیں پارٹی سے خارج کر کے ان کی رکنیت ختم کر دی اور اب لی اینڈرسن پارلیمنٹ میں آزاد رکن کی حیثیت سے شرکت کریں گے۔ قارئین کرام واضح ہو کہ لندن کی میئر شپ بہت اہم اور دور رس نتائج کی حامل ہوتی ہے۔ اس کونسل کا بجٹ مشرق وسطیٰ کی کئی ریاستوں سے زیادہ ہوتا ہے۔ صادق خان مسلمان ہیں اور پاکستانی والدین کے چشم وچراغ ہیں۔ بہت فعال، بہت محنتی، تعصب سے پاک اور معاشرے کے سدھار کے لئے انتھک جدوجہد کرنے کے معاملے میں بہت نیک نام ہیں۔ وہ لندن کے معروف ارنسٹ بیون کالج میں ہمارے شاگرد بھی رہے ہیں۔ زمانہ طالب علمی ہی سے وہ برطانیہ کی معروف سیاسی جماعت لیبر پارٹی سے منسلک رہے ہیں۔ چند سال قبل وہ ہَیرو کے ایک بڑے جلسے میں تشریف لائے۔ راقم الحروف اس جلسے کی نظامت کررہا تھا وہاں صادق خان صاحب نے اپنے مخصوس لہجے میں فرمایا ’’خواتین و حضرات اگر آپ کو میری اُردو میں کوئی خامی نظر آئے تو میرے استاد عقیل دانش صاحب کو اس کا ذمے دار سمجھیں اور اگر میری اُردو دلچسپ معلوم ہو تو اس کی تعریف بھی عقیل دانش صاحب کے حساب میں ڈالدیں‘‘ اس وقت وہ ٹرانسپورٹ منسٹر تھے۔ انہیں یہ فخر بھی حاصل ہے کہ وہ 5 سال کے بعد دوبارہ 5 سال کے لئے لندن کے میئر منتخب ہوئے ہیں۔ انہوں نے اپنی میئر شپ میں معاشرے کے لئے بہت سی خدمات انجام دی ہیں۔ مثلاً لندن کو آلودگی سے پاک رکھنے کے لئے کئی طرح کی گاڑیوں پر مرکزی لندن آنے پر پابندی لگائی اور بصورت دیگر جرمانے کاقانون بنایا۔ لندن بہت سی ریاستوں سے بھی بڑا ایک اہم شہر ہے۔ صادق خان نے یہاں ٹرانسپورٹ کو بہتر کیا اور ٹرینوں، زمیں دوز ریلوے اور بسوں کا ایسا جال بچایا کہ بیشتر لوگ اور مرکزی لندن میں کار لیجانے کے بجائے ٹرینوں میں سفر کرتے ہیں۔ انہوں نے ایسے ہفت روزہ ماہانہ اور سالانہ پاس جاری کئے کہ آپ ایک بس کا پاس لے کر کسی بھی بس میں سفر کر سکتے ہیں۔ یہی صورت زمین دوز ریل کی ہے کہ آپ اس کا پاس بنوا کر گریٹر لندن میں نہ صرف زمین دوز ریلوے بلکہ ٹرین اور بس میں بھی مفت سفر کر سکتے ہیں۔ انہوں نے مسافروں کو یہ سہولت بھی فراہم کی کہ بس کا ٹکٹ لے کر وہ ایک گھنٹے تک اسی ٹکٹ پر کئی بسوں پر سفر کر سکتے ہیں۔ انہوں نے لندن کی بسوں،ریل اور زمین دوز ریلوے پر عریاں اشتہاروں پر پابندی لگائی اس لئے ان پر ’’اسلام پسند‘‘ کا لیبل چپکایا گیا۔ وہ اپنے اس کام پر نازاں ہیں۔ مقامی آبادی کے بہت سے افراد کو ان کی یہ احتیاط پسند نہیں آئی لیکن روایات کے حامل طبقے نے بلالحاظ مذہب و ملت ان کے اس اقدام کو سراہا۔ وہ جہاں جاتے ہیں ان کے چاہنے والے ان کے گرد جمع ہو جاتے ہیں۔برطانیہ میں تارکین وطن کی آمد کے بارے میں کبھی کبھی ایسی آوازیں اٹھتی ہیں کہ یہ تارکین وطن برطانوی شہریوں کی ملازمتیں حاصل کر لیں گے۔ دوسری مراعات پر قبضہ کر لیں گے۔ ان تارکین وطن میں ایک بڑی تعداد مسلمانوں کی اور خصوصاً پاکستانیوں کی ہے جس پر کبھی کبھی پارلیمنٹ میں آواز اٹھ جاتی ہے۔ اس ذیل میں مرحوم ’’ایناک پاول‘‘ ہمیشہ تارکین وطن کے خلاف مہم چلاتے رہے لیکن اب اپنی محنت اور قابلیت کی وجہ سے تارکین وطن برطانیہ میں اپنا مقام بنا چکے ہیں۔ برطانیہ کی پارلیمنٹس میں بھی ان کی کافی تعداد موجودہے۔ پورے ملک خصوصاً انگلستان کے شمالی شہروں کی مقامی حکومتوں میں مسلمان چھائے ہوئے ہیں اور ملک و قوم کی خدمت کے لئے دن رات اپنی صلاحتیں وقف کئے ہوئے ہیں۔ تعصب زدہ ولوگوں کو تارکین وطن خصوصاً مسلمانوں اور بالخصوص پاکستانیوں کی مقامی حکومتوں میں شرکت پسند نہیں آرہی ہے لیکن محنت، لگن، خلوص کو کوئی کب تک نظر انداز کرے گا۔ ہمیں یقین ہے کہ ایک دن ’’لی اینڈرسن‘‘ جیسے تعصب زدہ افراد بھی برطانیہ کی ترقی میں مسلمانوں کی محنت کو سراہنے پر مجبور ہو جائیں گے۔