0

ظالمو! غلامی چھوڑو اورانسان بنو!

پاکستان میں موروثی سیاست اور انتقال اقتدار قائم اور دائم ہے۔یہ طریقہ حکمرانی بھی ہمیں ورثہ میں ملا۔ گئے وقتوں میں بادشاہ کے مرنے کے بعد، ان کے سب سے بڑے بیٹے کو تخت پر بٹھا دینا ایک ایسا دستور تھا جس کے خلاف سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا۔ یہ صرف ہند وپاکستان نہیں پوری دنیا میں جہاں جہاں بادشاہ تھے یہی رواج تھا۔ فرق یہ تھا کہ مغرب میں جب جمہوریت آ گئی تو بادشاہ کو صرف ٹورسٹ اٹریکشن کے طور پر کرسی کی زینت بنا دیا گیا اور کاروبار حکومت کے لیے وزیر اعظم کو عوام منتخب کرتے تھے جو شاید ہی کبھی پہلے وزیر اعظم کی اولاد میں سے ہوں۔ امریکہ میں ایک دفعہ ایسا ہوا کہ بشُ کا بیٹا بشُ صدر بنا۔ لیکن اسے بھی عوام نے چنا نہ کہ اسے ورثہ میں صدارت ملی۔ بر صغیر میں وراثتی انتقال اقتدار جاری و ساری تھا ساٹھ سال پہلے تک۔ بھارت میں گاندھی کے مرنے کے بعد جواہر لال نہرو وزیر اعظم بنا اور اس کے بعد اس کی بیٹی۔ وہ بھی اس لیے کہ کہتے ہیں اس کے نام کے آگے گاندھی تھا۔بھارتی عوام میں گاندھی زندہ تھا اور انہوں نے گاندھی کو ووٹ ڈالے۔ لیکن اندرا کے مرنے کے بعد اس کا بیٹا زیادہ دیر نہیں چلا، اور غیر خاندانوں کے لوگ وزارت عظمیٰ پر آنے لگے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہندوستان میں جمہوریت نے جڑ پکڑ لی تھی۔
پاکستان میں انتقال اقتدارابھی تک شاہانہ ہے۔ یعنی ایک وزیر اعظم جب جاتا ہے تو اس کے بیٹا یا بیٹی کو وزیر اعظم بنا دیا جاتا ہے یا اس کی فیملی میں سے کسی بھی نزدیکی عزیز کو۔ اب دیکھیں کہ مرکز میں خاندان لوہاراں کے نواز شریف نے اپنے چھوٹے بھائی کو وزیر اعظم بنوا دیا ہے، اور پنجاب میں اپنی بیٹی کو وزیر اعلیٰ بنوانے کا ارادہ ہے ، جس کے پاس سوائے آڈیو، وڈیو بنوانے کے جو بلیک میل کے کام آتی ہیں، اور کوئی تجربہ نہیں۔ ہاں سنا ہے کہ وہ ایسے صحافیوں کو زندہ نہیں دیکھنا چاہتیں جو سچ اگلیں۔ اب دیکھیں کہ پنجاب کی حکومت کیا کیا گل کھلاتی ہے۔ادھر سندھ میں ، ایک اور خاندان مدتوں سے حکمرانی میں شراکت دار ہے۔ ہمارا مطلب خاندان بھٹو سے ہے۔ جس کے بعد اس کی بیٹی کو وزیر اعظم بنایا گیا۔ اس کے بعد اس کا خاوند زرداری اور بیٹا بلاول حکمرانی کو چپک گئے۔خاندان بھٹو ، بلاول کو وزیر اعظم دیکھنا چاہتے ہیں۔ یہ کوئی بری بات نہیں۔مسلمانوں نے خاندان غلاماں کو تو بھی حکمران بنایا تھا، جو خواجہ سرا تھے۔مزے کی بات تو یہ ہے کہ جب فوجی حکومت میں آتے ہیں تو انکی بھی یہی کوشش ہوتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ عرصہ قیادت کو پکڑے رہیں۔ اگر مجبوراً عنان حکومت چھوڑنا پڑے تو کسی دوسرے فوجی کوکرسی ٔصدارت سونپ دیں۔ مثلاً ایوب خان جب گیا تو یحییٰ خان کو اپنی جگہ بٹھا گیا۔ یہ فوجی سویلینز سے اتنے بد گماں ہیں کہ انہیں حکومت کے قابل ہی نہیں سمجھتے۔ اس لیے اگر لا محالہ کسی ِسویلین کو حکومت دینی پڑ جائے تو کوئی ایسا غبی ڈھونڈتے ہیں جو ان کی ہاں میں ہاں ملاتا رہے اور ان کی ہر مانگ ایسے پوری کرے جیسے کہ وہ شراکت دار سیاسی پارٹی ہو۔غالباً یہی وجہ تھی کہ ضیا الحق نے نواز شریف کو سیاست میں داخلہ دیا۔ اور نواز شریف نے بھی کبھی فوج کو مایوس نہیں کیا۔ زرداری بھٹو کے نام کو استعمال کرتا ہے اور عہدے کو پیسہ بنانے کی مشین سے زیادہ کچھ نہیں سمجھتا۔
پاکستانیوں کو عمران خان میں ایک امید نظر آتی ہے کہ وہ اپنے بعد اپنے بیٹے ، بہن یا بیوی کو تخت پر نہیں بٹھائے گا اور جمہوریت کے پنپنے کا عہد شروع ہو جائے گا۔یہ بھی ایک وجہ ہے کہ قوم عمران خان سے عقیدت اور محبت کرتی ہے۔ اورحرام خوروںکی پارٹیاں اور ادارے اس سے ایسے گھبراتے ہیں جیسے کہ کوا غلیل سے ۔اس لیے الیکشنز کے نتائج کو ان چوروں اور حرام خوروںنے ماننے سے انکار کر دیا اور انتہائی مجرمانہ طور سے الیکشنز کے نتائج بدلے کہ عقل حیران و پریشان محو تماشائے لب بام کھڑی رہ گئی۔اس دھاندلے میں الیکشن کمیشن کیا، سول سروس کیا اور عدلیہ کیا۔ سب ہی نے حسب مقدور اپنا حصہ ڈالا۔ ان اداروں نے عوام کی آنکھوں میں وہ دھول جھونکی کہ رہے رب کا نام۔اپنے تو اپنے، غیر بھی حیران ہو گئے کہ ایسے بھی دھاندلی ہوتی ہے۔
اگرچہ پاکستان میں ضمیر کی آواز سننے والوں کی شدید کمی ہے، سوچنے کی بات ہے کہ وہ لوگ جنہیں بخوبی معلوم ہے کہ وہ کئی ہزار ووٹوں سے ہارے تھے اور انہیں جعلی طور پر جتوایا گیا ہے، لیکن وہ ڈھیٹ بنے، بے شرموں کی طرح اسمبلیوں میں پہنچ گئے ہیں۔ان لوگوں میں برائے نام بھی عزت ِنفس نہیں؟ان کو اب بڑی قیمت ادا کرنی پڑے گی کیونکہ جنہوں نے ان کو جتوایا ہے وہ اس کی قیمت وصول کرنے آتے رہیں گے۔ مثلاً محکمہ دفاع والے بجٹ بڑھوانے آئیں گے اور ان کو اس بات سے ذرہ بھر فرق نہیں پڑے گا کہ پاکستا ن کا خزانہ خالی ہے۔وہ کہیں گے کہ اگر وہ تعاون نہیں کریں گے تو ان کے فارم ۴۵ کو کھلوا کر نتیجہ بدلا بھی جا سکتا ہے۔اس بلیک میلنگ کے لیے تیار رہیں۔ جب شیطان کو اپنی روح بیچیں گے تو اس کے نتائج بھی بھگتنے کے لیے تیار رہیں۔
پاکستان میں جب سے مخلوط حکومت آئی ہے، ہر قسم کی دھاندلی اور قانون شکنی کے مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں۔گذشتہ دو سالوں سے خصوصاً یہ راقم دیکھ کر اور سن کر اس بات پر حیران ہے کہ ہماری پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے کارکن، وردی میں یا بغیر وردی کے، کیسی مجرمانہ حرکات کر رہے ہیں۔ بھلے مانسوں کے گھروں پر نصف شب حملے کرنا، مائوں بہنوں کی بے حرمتی کرنا، خواتین کو گھسیٹے ہوئے اٹھا کر لے جانا، بوڑھوں، بزرگوں کو مارنا اور بے عزت کرنا، بچوں تک کو نہ بخشنا، امن پسند شہریوں کو بغیر وارنٹ دکھائے گرفتار کر کے ڈالوں میں ڈال کر لے جانا اور مدتوں تک یہ پتہ نہ دینا کہ وہ کہاں ہیں؟ گرفتار شدگان کے بارے میں نہ بتانا کہ انہیں کہاں رکھا گیا ہے اور وہ کس حال میں ہیں؟جیسے کہ عمران ریاض خان کے ساتھ ہوا۔ یہ غیر انسانی سلوک کہنے کو ایک اسلامی ریاست میں نام کے مسلمان حکام کر رہے ہیں۔یہ غیر قانونی اور غیر اسلامی مجرمانہ حرکات وہ لوگ کر رہے ہیں جنہیں ہمارے ٹیکس کے پیسے سے تنخواہیں ملتی ہیں۔صرف اس لیے کہ انہیں اوپر سے حکم آتا ہے۔کیا اوپر سے اگر غیر قانونی اور غیر اخلاقی حکم آئے تو اسے ماننا چاہیے؟ یہ سوال تو اٹھیں گے۔ اگر تاریخ کے اوراق پلٹ کر دیکھیں تو دوسری جنگ عظیم میں، جب نازی فوج نے یہودیوں اور کچھ دوسری قوموں پر ظلم کیے اور ان میں سے کچھ کو زندہ جلا دیا یا بند کمروں میںگیس سے مار ڈالا، تو جنگ کے بعد ان واقعات پر ان فوجی افسروں پر نیو رمبرگ میں مقدمے چلے۔ جب ان افسروں نے یہ عذر پیش کیا کہ انہیں اوپر سے حکم تھا، تو عدالت نے اس عذر کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور انکا فیصلہ ہمیشہ کے لیے ایک عالمگیر ی فیصلہ بن گیا کہ اگر کسی سرکاری ملازم کو غیر قانونی اور غیر اخلاقی کام کرنے کا حکم دیا جائے جو اسکی معلومات کے مطابق نا جائز اور غیر قانونی ہے تو اس کو ایسا حکم نظر انداز کر دینا چاہیے۔
آیئن پاکستان کی شق۳کہتی ہے:’’مملکت استحصال کی تمام اقسام کے خاتمہ اور اس بنیادی اصول کی تدریجی تکمیل کو یقینی بنائے گی۔‘‘
نمبر ۴ کا رکن (۱) کہتا ہے: ’’ ہر شہری کا خواہ کہیں بھی ہو ،اور کسی دوسرے شخص کا جو فی الوقت پاکستان میں ہو، یہ نا قابل انتقال حق ہے کہ اسے قانون کا تحفظ حاصل ہو اور اسکے ساتھ قانون کے مطابق سلوک کیا جائے۔ (۲) خصوصاً (الف) کوئی ایسی کاروائی نہیں کی جائے جو کسی شخص کی جان، آزادی ،جسم، شہرت یا املاک کے لیے مضر ہو، سوائے جبکہ قانون اس کی اجازت دے۔۔۔۲۰) کوئی شخص شق (۱) میں مذکور افعال میں مدد دے گا یا معاونت کرے گا، یا شریک ہو گا اسی طرح سنگین غداری کا مجرم ہو گا۔‘‘
پاکستان کاآئین شہریوں کو بے شمار شقوں کے ذریعہ محفوظ بناتا ہے مگر جب حفاظت دینے والے ہی آپکی جان، مال اور عزت لوٹنا شروع کر دیں تو پھر؟
ملک کے نظم و نسق کے ادارے ہی اگر بجائے آبادی کے جان و مال کو تحفظ دینے کہ تو لوگ کہاں جا کر فریاد کریں گے؟ اور اگر انصاف کے حصول کی آخری جگہ عدالت عالیہ ہو اور وہاں بھی انصاف نہ ملے تو ایسے نظام کو کیا کہیں گے؟اس صورت حال کوفوجی آمریت کا نام دیا جاتا ہے ۔ وہ سول اداروں جیسے پولیس کے ساتھ ملکر آبادی پر تشدد کرتے ہیں۔اور وہ کسی آئین اور قانون کے پابند نہیں ہوتے۔پاکستان کے موجودہ حالات اس قسم کے نظام حکومت کا اشارہ دیتے ہیں۔ کہنے کو آزاد اور شفاف انتخابات ہوئے لیکن نتائج کو بدل دیا گیا۔ جو ہارا وہ جیت گیا۔ایسا کیسے ہوا؟ کچھ اورہو نہ ہو،موجودہ صورت حال جمہوری نظام نہیں ہے۔ بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ پاکستان میں دو سال سے جمہوریت کا گلا گھونٹ کر اسے چو راہے پر لٹکا دیا گیاہے۔
پاکستان کی فوج ایسا کیوں کر رہی ہے؟ لوگ کہتے ہیں کہ ہماری فوج ہمارے ملک کے سربراہ کو جواب دہ نہیں ہے، بلکہ سات سمند ر پار امریکی ریاست کے اشاروں پر سب کچھ کر رہی ہے۔اور امریکی ریاست بھی پاکستان کے نظام کو ایسے نہیں چلانا چاہتی لیکن اسکو بھی اوپر سے احکامات آئے ہیں کہ پاکستان میں کسی صورت بھی مذہبی جنونی عمران خان کو حکومت سے باہر رکھنا ہے۔اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ پاکستان کے عوام کیا چاہتے ہیں۔ اس لیے امریکی اثر و نفوذ کے تحت ادارے پاکستان کی نئی حکومت کو تسلیم کر کے ا سکے ساتھ تعاون کرنے پر تیار ہیں۔ انتخابات میں دھاندلی ہوئی، بُری بات۔ اچھے بچے ایسا نہیں کرتے۔ خیر جو ہونا تھا ہو گیا ۔ انہیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ کون حکومت بناتا ہے اور وہ کس طرح انتخاب جیتا ہے،یہ محض تفصیل ہے۔ اس میں جانے کی ضرورت نہیں۔پاکستان کی غلام فوج کی اعلیٰ کار کردگی پر سراہتے ہیں۔ امید ہے کہ اب پاکستان نہ صرف اسرائیل میں نمائیندگی پر پیش رفت کرے گا، وہ روس کے خلاف یوکرائن کی کھلی حمایت کرے گا اور بھارت کے ساتھ تمام اختلافات ختم کر کے اس کے لیے تجارتی گزر گاہیں کھول دے گا۔لڑائی جھگڑے میں کیا رکھا ہے؟
اگر پاکستان کے عوام کوئی احتجاج کریں تو انہیں ڈنڈے کے زور سے بٹھا دیا جائے گا۔ لیکن کیا بیرونی قوتیں یہ بھول رہی ہیں کہ نئی حکومت نہ عوام میں مقبول ہے اور نہ ہی ملک کے اہم اقتصادی مسائل کو حل کرنے کی اہلیت رکھتی ہے۔ زیادہ سے زیادہ وہ نوٹ چھپوا کر مالیہ کی کمی سے کسی حد تک نبڑ سکتی ہے، لیکن اس سے جو ملک میں افراط زر کا بھیانک دیو اٹھے گا اس سے کیسے بچیں گے؟
کیا ہی اچھا ہوتا کہ ہماری اسٹیبلشمنٹ امریکہ کی غلامی چھوڑ دیتی۔ قوم اس کے ساتھ ہوتی اور ہر آفت کا مقابلہ مل کر کرتی۔ آخر کئی ملک ہیں جو امریکہ کی جی حضوری نہیں کرتے اور ترقی کرتے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ پاکستان دیوالیہ ہو جاتا۔ مشکلات کے پہاڑ ٹوٹ پڑتے لیکن ایک اچھے اور ایماندار لیڈر کی قیادت میں عوام سب صعوبتیں برداشت کر لیتے۔ٹیپو سلطان نے کیا خوب کہا تھا کہ شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہوتی ہے۔پاکستان کی ساٹھ فیصد سے بھی زیادہ آبادی دیہی ہے اور عموماً خود کفیل ہے۔کچھ شہری آبادی واپس دیہاتوں میں نقل مکانی کر لے گی۔باقی لشتم پشتم گذارہ کر لیں گے اور مشکل وقت کٹ جائے گا۔لیکن اس کے بعد جو قوم ابھرے گی وہ کندن بن کر نکلے گی اور دنیا میں اس کی عزت ہو گی۔کیا کہتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں؟ ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں