نئے اسپیکر کے منتخب ہونے کے باوجود یوکرین کی امداد کا معاملہ التواء کا شکار ہے ۔ نیٹو کی محبت نے انہیں کہیں کا نہ چھوڑا ۔ وصل یار تو درکنار ، اب تو دیدار یار کے بھی لالے پڑتے دکھائی دیتے ہیں ۔ اسرائیل کی جنگ کے بعد فضا ہی تبدیل ہو گئی ہے ۔ اب جب کہ اسرائیل نے فلسطین میں جنگ کا اعلان کر دیا ہے تو اسرائیل کی فوجی اور مالی امداد کو ترجیحی بنیادوں پر سوچا اور دیکھا جا رہا ہے ۔ گذشتہ جمعرات کو ایوان نمائیندگان نے اسرائیل کو 14.3 بلین ڈالرز کی امداد فراہم کرنے اور انٹرنل ریونیو سروس کی فنڈنگ میں کمی کا ایک ریپبلکن منصوبہ منظور کیا ہے۔ اس بل کی موافقت میں 226 اور مخالفت میں 196ووٹ ڈالے گئے ہیں ۔ ان 196 مخالفین میں 2 ووٹ ریپبلیکن کے بھی شامل ہیں ۔ جب کہ 12 ڈیموکریٹ نے اس بل کے حق میں ووٹ دیئے ہیں ۔ ان 12 ڈیموکریٹ کو چھوڑ کر دیکھا جائے تو واضح طور پر اس بل کو پارٹی لائین پر پاس کیا گیا ہے ۔ مجموعی طور پر ڈیموکریٹس کو یہ بل پسند نہیں آیا ہے ۔ ان کا خیال ہے کہ اس بل کو سینٹ سے منظوری حاصل نہیں ہو گی ۔ وائٹ ہاؤس بھی اس کو ویٹو کرنے کا ارادہ رکھتا ہے ۔ ایسا نہیں ہے کہ اس نازک وقت میں ڈیموکریٹس اسرائیل کی مدد نہیں کرنا چاہتے ہیں ۔ بلکہ انہیں اس بات سے اختلاف ہے کہ ریپبلکن کے نئے اسپیکر مائیک جانسن نے اسرائیل کی مدد کے لئے تجوری کا دروازہ کھولنے کو داخلی اخراجات میں کٹوتی سے مشروط کر دیا ہے ۔ اس کے علاوہ انہیں یہ بات بھی پسند نہیں آئی ہے کہ اس بل میں یوکرین کی امداد کا کوئی تذکرہ نہیں ہے یا اسے نظر انداز کر دیا گیا ہے ۔ بائیڈن انتظامیہ چاہتی ہے کہ کانگریس 106 بلین ڈالر کے وسیع تر ہنگامی اخراجات کے پیکیج کو منظور کرے جس میں اسرائیل ، تائیوان ، اور یوکرین کے لیئے مالی امداد کے ساتھ ساتھ انسانی ہمدردی کی امداد کو بھی شامل کیا جائے ۔
ایوان میں جو بل پیش کیا گیا ہے وہ اسرائیل کو اربوں ڈالرز کی فوجی امداد فراہم کرے گا جس میں 4 بلین کے کم فاصلے تک مار کرنے والے راکٹوں کے خطرات سےنمٹنے کے لیئے اسرائیل کے آئرن ڈوم ، ڈیوڈز سلنگ دفاعی نظام کی خریداری اور دیگر سامان بھی شامل ہیں ۔ واضح رہے کہ اسرائیل کو پہلے ہی 3.8 بلین کی سالانہ فوجی امداد فراہم کی جاتی ہے ۔
اسرائیلی صورت حال پر ریپبلکن اور ڈیموکریٹس ہی منقسم نہیں ہیں بلکہ پوری دنیا تقسیم ہو کر رہ گئی ہے ۔ اس جنگ نے عالمی سیاست کے ماحول کو تبدیل کر کے رکھ دیا ہے ۔ ہفتے کے آخر میں، عالمی شہروں میں فلسطینیوں کی حمائت میں مظاہرے بھی کیے گئے ۔ کچھ ممالک نے اسرائیل سے یکجہتی کا اظہار کیا ہے جن میں کینیا ، ہندوستان اور ارجنٹائین بھی شامل ہیں ۔ وہیں روس ، چین ، سعودی عرب ، مصر ، مراکش ، اور ترکی جیسے ممالک نے علاقے میں کشیدگی میں کمی کا مطالبہ کیا ہے ۔ الجزائر ، ایران ، سوڈان اور تیونس وہ ممالک ہیں جنھوں نے حماس کی کھل کر حمائت کی ہے ۔ مشرق وسطیٰ اور دنیا بھر میں فلسطینیوں کی حمائت میں مظاہرے بھی ہوئے ہیں ۔ ایسے ماحول میں قطر اپنا کردار ادا کرنے کی کوشش کر رہا ہے ۔ یہ الجزیرہ نیوز نیٹ ورک کا گھر بھی ہے ۔ ساتھ ہی امریکی ایئربیس بھی رکھتا ہے ۔ گذشتہ سال ورلڈ کپ کی میزبانی بھی کی تھی جس پر اس نے ایک اطلاع کے مطابق 220 ملین ڈالرز کی خطیر رقم بھی خرچ کی تھی ۔ اس نے افغان امریکی ثالثی بھی کی تھی ۔ اب اسرائیل فلسطین ثالثی کی کوشش کر رہا ہے۔ امریکی اتحادی ہونے کے ناطے اور حماس سے قریبی تعلقات رکھنے کی بنیاد پر امید کی جا رہی ہے کہ وہ کوئی کردار ادا کر پائے گا ۔
فلسطینیوں کی موجودہ صورت حال پر جتنا افسوس کیا جائے کم ہے ۔ روز سینکڑوں کی تعداد میں مر اور بے گھر ہو رہے ہیں ۔ جو زندہ ہیں ان پر زندگی تنگ ہوتی جا رہی ہے ۔ خدا معلوم یہ قہر کہاں جا کر دم لے گا ۔ خبریں یہ بھی سننے کو آرہی ہیں کہ امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ ، مائنس حماس فلسطینی اتھارٹی کو دونوں حصوں میں اپنی حکومت قائم کرنے کے لیئے صلاح دے رہے ہیں ۔ یہ کس قدر قابل عمل ہے اس کا تو اندازہ آئندہ کے حالات ہی سے ہو گا ۔ فلسطین میں جنگ بندی اور امن اس وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے ۔ اللہ سے دعا ہے کہ فلسطین میں امن قائم ہو ۔ آمین
