ترجیحات کا تعین کرنے میں ہم نے کبھی ذمہ داری کو گود نہیں لیا اُسے ہمیشہ دوسرے کے جھولے میں رکھ کر عہدہ برآں ہوتے رہے ہیں ترجیحی کام جن کو صاحب ِ اختیار نمائندوں نے ،اداروں سے منسلک بعض شخصیات نے ذمہ داری جان کر نبھایا ہوتا تو آج ان کا اعادہ پرانے زخموں پر نمک پاشی کے مترادف ہے نہ ہوتا معاشرتی تربیت سے لے کر اخلاقیات کی حد بندی تک اگرہمارے کرتا دھرتا مثبت کردار سازی میں اپنا خوب پسینہ بہاتے تو ہماری بیکار الجھنوں کا قفس تار تار ہو چکا ہوتا لوگ بے پناہ الجھنوں کی گرفت سے آزاد ہوتے اور ریاست تا حد ِ نظر خوشنما پھولوں سے لدی رہتی مگر ایسا کچھ بھی نہ ہو سکا اب پورا معاشرہ ماتم کناں ہے اور اس عالم ِ گریہ میں ذہن مفلوج ہے کہ کس کام کو ترجیحی سمجھ کر پہلے کیا جائے ۔عام فہم سی بات مگر ذی شعور طبقات کی ذہنی ہم آہنگی سے مطابقت رکھتے ہوئے معیشت کی بہتری اولیت قرار پاتی ہے لیکن اس خیال کی اس حقیقت کی پیروی عاقلان ِ وطن کے کسی پہلو سے نمایا ں نہیں ملتی بلکہ نظر اندازی کا عنصر غالب ملتا ہے جیسے سیاست کے نشیب و فراز میں نظریات کی مدہم سروں میں انتخابات کا طبل تیز ہوتا ہے اسی روش میں چلتے ہوئے ارباب ِ اختیار بشمول ملکی معیشت دانوں کے جو بڑے زور ،گھن گرج کی باتیں کرتے ہوئے مسند نشین ہوتے ہیں تو نظریات پردہ نشینی میں چلے جاتے ہیں اور مفادات کا حصول عوامی مسائل کو نظرانداز کر کے سمیٹنے کا سفر جاری رہتا ہے بربادی کے اس سفر میں تباہی کے جو راز برسوں سے سامنے آ رہے ہیں جن کا سدباب کرنے کی کبھی کوشش نہیں کی گئی قرضدار ملک کی ایسی شاہ خرچیاں شاید کہیں دیکھنے کو ملیں ملاحظہ کریں کہ سبز نمبر پلیٹ والی سرکاری گاڑیاں جن کی تعداد 90ہزار کے قریب ہے کارِ سرکار کے ساتھ ساتھ دیگر سیروتفریح میں بھی استعمال ہوتیں ہیں نہ کوئی پوچھنے والا نہ کوئی روکنے والا ۔ان گاڑیوں پر سالانہ 220ارب کا پٹرول خرچ کیا جاتا ہے علاوہ ازیں سہولیات کے ضمرے میں 550ارب کی بجلی کے بل بھی سرکاری خزانے سے ان سرکاری لاڈلوں کو حکومتیں اپنی پہلی فرصت میں ادا کرنے کی پابند رہتی ہیںواضح کرتا چلوں کہ یہ اربوں کے اخراجات صرف پٹرول اور بجلی کی مدمیں ہیں جن کو افسر ِ شاہی کی نذر ِ خاص کیا جانا قانونی روایت بنا ہوا ہے دوسری جانب آپ ملکی ضروریات پوری کرنے کے لئے گئے قرضوں پر نظر ڈالیں تو خود کفالت اور قرض آزاد زندگی کے آثار ملکی معیشت کی کتا بوں میں ڈھونڈے نہیں ملتے یہ ہماری وزارت ِ خزانہ کا گفتہ ہے کہ شرح سود بڑھنے سے قرضا کا حجم مزید بلند ہوا ہے اور ڈالر کے ایکسچینج ریٹ سے مہنگائی نے جہاں غربت کا گریباں تار تار کیا ہے وہیں غیر ملکی قرضوں نے بھی اُڑان بھری ہے جس سے اس سال مہنگائی کی شرح 28.5فیصد رہے گی معیشت سے وابستہ ماہر نجوم جو خواجہ حسن نظامی کی طرح ہر فن مولا کی صفات کا دعویٰ محفوظ رکھتے ہیں بقول ان کے موجودہ حالات سے لیکر 2026پاکستان کے قرضہ جات ملکی معیشت سے 70فی صد زائد رہنے کا خدشہ ہے یعنی ہماری معیشت ان طبیبوں کے زیر ِ علاج ہے جو مرض کو شفاء بخشنے میں ناکام ہیں صرف قرض کی دوائوں پہ معیشت کو زندہ رکھنے کے ہنر آزما رہے ہیں مگر معیشت بستر ِ مرگ سے اترنے کا نام ہی نہیں لے رہی راوی ایک طفل ِ مکتب کی حیثیت سے اتنا ضرور جانتا ہے کہ قرض کی بجائے اپنے اخراجات کو کم کرتے ہوئے دستیاب ملکی وسائل سے استفادہ حاصل کرنا دورس ہے تا کہ ترجیحی کام کی شروعات سے ملکی معیشت کی ابتر حالت کو سنوارنے میں مدد ملے عصر ِ حاضر میں مالی سال 2023میں حکومت 13ہزار7ارب روپے قرض لے چکی ہے جو کہ سال کے اختتام تک60ہزار839ارب روپے ہو گا مزید برآں بیرونی سرمایہ کاری میں 77فی صد کمی رپورٹ ہو چکی ہے تو بہتر ہو گا کہ غیر ضروری اخراجات کا خاتمہ کوئی بھی حکومت کوئی بھی معیشت دان یقینی بنائے انتخابات سے زیادہ ملکی معیشت کا درست سمت کی جانب گامزن ہونا ضروری ہے جس کے لئے تمام سیاسی جماعتوں کے معاشی مفکرین کا اکٹھ ناگزیر ہے ملک میں کم سے کم اجرٔت کا جو معیار مقرر ہے اُس طبقے کی ضروریات کو سامنے رکھتے ہوئے بجٹ ترتیب دیا جائے تو عام طبقات کی معاشی مشکلات کا حل کسی حد تک نکل سکتا ہے مگر ترجیحی کام کا آغاز کوئی کرتا ہی نہیں!!!!
