ہفتہ وار کالمز

عمران کا خط

مجھے یاد ہے کہ جب میں اپنے والد اور بڑے بھائی صاحب کو خط لکھتا تھا تو میرے خطوط کی بڑی واہ واہ ہوتی ، میرے بڑے بھائی فوج میں تھے ان کو میرے خط ملتے تو وہ بہت خوش ہوتے ، ایک بار انہوں نے کہا کہ تمہارے خط مری تنہائی کو کم کرتے ہیں یہ پہلی بار تھا کہ گھر والوں نے ان کے اس مسئلے کو سمجھنے کی کوشش کی ، بہر حال میرے خطوط سے گھر میں اور پھر مضمون نویسی کی وجہ سے اسکول میں شناخت بنی ، خط لکھنا کبھی ایک فن تھا خط لکھنے کے کچھ آداب ہوتے تھے اور خط کی اپنی ضروریات، غالب کے خطوط سامنے آئے تو خطوط نویسی کا انداز ہی بدل گیا، پھر عطیہ کے نام ہمارے مشاہیر نے خط لکھے اور ان خطوط کو پڑھنے کا شوق جاگا عطیہ سے مولانا شبلی بھی اتنے متاثر ہوئے کہ انہوں نے بھی عطیہ کو خط لکھے، سیاسی خطوط بھی لکھے گئے اور وہ خطوط بھی منظر عام پر آ گئے جو مختلف ملکوں کے صدور اور وزرائے اعظم نے اپنے ہم منصبوں کو لکھے، یہ خطوط تاریخ کا حصہ ہیں اور تحقیق و تفتیش میں ان کی اہمیت بڑھ جاتی ہے، بہر حال خطوط نویسی زندگی کا حصہ ہے اور یہ جو TEXTS / EMAILS ہیں یہ بھی تو خطوط نویسی کی جدید شکل ہے اس میں بھی غالب کا ہی انداز کارفرما ہے کہ بنا کسی تمہید کے کام کی بات کی جائے ، بس نفس مضمون سامنے ہو ، چند دن پہلے عمران خان نے آرمی چیف کو خط لکھا ہے وہ میڈیا پر DISCUSS ہو رہا ہے، یہ وہ میڈیا ہے جس نے آج تک عوام کے مسائل پر کبھی بات نہیں کی، ایوب خان کی حکومت سے پہلے تو کوئی صحافت تھی نہیں ، وہ لوگ جو بے روزگار ہوتے تھے مگر اُردو اچھی لکھ لیتے تھے اخبار میں نوکری مل جاتی تھی ان کو ، مگر ان میں سے کسی کو نہ تو ملکی مسائل کا ادراک تھا نہ عالمی سیاست سے واقفیت، ہاں نثر نگاری کے جوہر دکھائے جاتے تھے ، ایوب آئے تو میڈیا ان کے پیچھے بھاگ پڑا، ایک صحافی یا کسی میڈیا ہاؤس نے نہیں کہا کہ معیشت قوم کی ضرورت ہے جمہوریت ان پڑھ قوم کی ضرورت نہیں ، بھٹو آئے تو کسی نے نہیں کہا کہ سوشلزم سے قوم کو کیا ملے گا نواز شریف جیسے آئے اس پر بھی میڈیا کو اعتراض نہ تھا، مارشل لاء لگے تب بھی میڈیا آمروں کے ساتھ چل پڑا، ضیا الحق کے مارشل لاء پر ان صحافیوں نے کیا کیا دھمال ڈالے اسلام کی کیا کیا نوید سنائی جہاد افغان پر کیا کیا عقل و دانش کے ڈونگرے برسائے گئے، ایوب سے عمران تک میڈیا نے ہر حکمران کو قوم کا مسیحا بنا کر پیش کیا، پاکستان کے ہر بڑے صحافی نے فوج کے ساتھ مل کر کام کیا پھر یہ شوق چرایا
وہ سب باتیں کھول دی جائیں جو فوج کی نوکری کے دوران دیکھیں، اکثر و بیشتر صحافیوں کے پروموز
اس بات کے گواہ ہیں،عمران کا ایک اور خط سامنے آچکا ہے عمران اڈیالہ جیل میں ہیں جیل مینوئیل کے تحت نہ تو ایک پرزہ جیل کے اندر جا سکتا ہے نہ جیل سے باہر آسکتا ہے یہ بات پی ٹی آئی کے رہنما اور عمران کے وکیل بھی کہہ چکے ہیں، صحافی بھی بارہا یہ بات کہہ چکے ہیں کہ ان کی تلاشی لی جاتی ہے بس اتنا
ہے کہ عمران سے سوال جواب ہو جاتے ہیں جن کو لکھنا بھی ممکن نہیں صحافی اپنا موبائل بھی نہیں لے جا سکتے تو ایسی صورت میں یہ کیسے ممکن ہے کہ عمران اخبارات میں آرٹیکل لکھ سکیں یا کوئی خط تحریر کر سکیں، مگر اتنا ضرور ہے کہ ARTICIAL INTELLEGENCE سے عمران کے بیان ریکارڈ کر لئے جاتے ہیں اور ان کو سوشل میڈیا پر چلا دیا جاتا ہے پی ٹی آئی کا سوشل میڈیا سیل ان بیانات کو وائرل کرتا ہے پاکستانی میڈیا کے پاس معاشی، سماجی، تعلیمی اور معاشرتی حوالوں سے بات کرنے کے لئے کوئی بات ہوتی نہیں ہے عمران ہاٹ آئیٹم ہے بکتا ہے تو میڈیا دن رات ان بیانات پر گفتگو کرتا رہتا ہے اور لطف یہ ہے کہ میڈیا کے پاس اپنی کوئی خبر نہیں ہوتی ، میڈیا تو نہ کرم جاتا ہے نہ بلوچستان، میڈیا ہاؤسز نے چند بڑے شہروں میں اپنے بیورو چیف بٹھا دئے ہیں جو وہاں کی خبریں فراہم کرتے ہیں ان بیورو چیفس کی اتنی ہمت نہیں کہ وہ ان علاقوں کے طاقت ور لوگوں کے بارے میں کوئی بات کہہ دیں ان کو اپنی جان عزیز ہے اس لئے INSIDE STORY کبھی سامنے نہیں آتی ہنسی آتی ہے جب چینلز بتاتے ہیں کہ اندورنی کہانی سامنے آگئی اندرونی کہانی وہی ہوتی ہے جو سیاسی لوگ بتا دیتے ان صحافیوں کی نہ تو اتنی اوقات ہے کہ کچھ تحقیق کر سکیں اور نہ ہی ان کی ٹریننگ کہ وہ خبر نکال سکیں اور یہ بات شرمناک ہے کہ الیکٹرانک میڈیا اب سوشل میڈیا پر انحصار کرتا ہے، لہٰذا یہ خط ARTIFICIAL INTELLEGENCE کا کا رنامہ ہے اور یہ سب کچھ پاکستان سے باہر بیٹھے لوگ کر رہے ہیں یہ بات ہم ایک عرصے سے کہہ رہے ہیں کہ اب پی ٹی آئی کو ملک سے باہر سے چلایا جا رہا ہے میڈیا پر نظر آنے والے پی ٹی آئی کے تمام لوگ محض دکھاوے کے لوگ ہیں جن کو میڈیا نے زندہ رکھا ہوا ہے، یہ لوگ نہ تو اپنی مرضی سے کوئی بات کہہ سکتے ہیں نہ کوئی پالیسی بیان دے سکتے ہیں ان کو اپنی فہم استعمال کرنے کی بجائے عمران کی ہدایات کا انتظار رہتا ہے اور اصرار اس بات پر ہے کہ پارٹی میں جمہوریت ہے اور پارٹی جمہوریت کی جنگ لڑ رہی ہے جیسے عمران کے خلاف تحریک عدم اعتماد آئی ہے عمران نے لانگ مارچ، ہڑتالوں، ریلیوں کے ذریعے ملک کو HOLD پر رکھا ہوا ہے OVERSEAS SOCIAL MEDIA WING وہ بہت فطانت سے پاکستان کو خوف میں مبتلا کر دیتا ہے یا مفلوج کر دیتا ہوا ہے، ہم کہتے چلے آئے ہیں کہ عمران کے بیرون ملک رابطے ہیں حال ہی میں علیمہ خان کے بیرون ملک رابطوں کا انکشاف ہوا ہے اور اس کی تردید نہیں کی گئی، ان تمام کاوشوں کا ایک ہی مقصد ہے کہ آرمی چیف کو ہراساں کیا جائے کہ ان کے اعصاب جواب دے جائیں اور وہ عمران کو رہا کر دیں ابھی تک جنرل عاصم منیر نے بہت مضبوطی کا مظاہرہ کیا ہے اور وہ ان کوششوں سے خائف نظر نہیں آئے ، جب پارٹی کو باہر سے چلایا جا رہا ہو تو یہ سوال تو بنتا ہے کہ کسی بیرونی طاقت کی پاکستان کے معاملات میں دلچسپی تو ہے اور ظاہر ہے کہ اس کے مفادات بھی ہونگے ، اگر ایسا ہے تو کوئی بیرونی طاقت باہر سے عمران کو سپورٹ کر رہی ہے تو کیا یہ پاکستان کے مفاد کے خلاف نہیں یہ ہو نہیں سکتا کہ اتنے اہم معاملات سے MILITARY INTELLIGENCE ناواقف ہو ، عمران کو جیل میں جو سہولیات میسر ہیں وہ تو UNPRECEDENTED ہیں کیا اس سے ظاہر نہیں ہوتا کہ بیرونی ہاتھ اتنا طاقت ور ہے کہ تمام شواہد ہونے کے باوجود عمران کو گزند پہنچانا تو دور کی بات، اس کو دی گئی مراعات میں کمی نہیں کی جا سکتی، بجلی آف ہونے کا شور اٹھے یا ورزش کے لئے مشین کی عدم دستیابی کا مسئلہ ہو بہت برق رفتاری سے یہ سہولیات فراہم کر دی جاتی ہیں اور میڈیا کو گواہ بھی بنا لیا جاتا ہے اور عمران کا سپورٹر خوش ہو جاتا ہے، ایسا کبھی نہیں ہوا عمران کا رابطہ باہر کی دنیا کبھی نہیں کٹا عمران میڈیا کا ڈارلنگ ہے، میڈیا گزشتہ تین سالوں سے عمران کو کبھی اسکرین سے غائب نہیں کیا اور کوئی دن بھی ایسا نہیں گزرا کہ میڈیا پر عمران کی بات نہ ہوئی ہو کیا عمران کو سپورٹ کرنے والی طاقت اتنی مضبوط ہے کہ پاکستان کی حکومت اور مقتدرہ کو پھونک پھونک کر قدم اٹھانے پڑ رہے ہیں اور وہ کوئی ایسا قدم نہیں اٹھا سکتے جس سے چین کا سانس لیا جا سکے ، خواجہ آصف کئی مواقع پر یہ بیان دے چکے ہیں کہ عمران کو اسرائیلی لابی کی حمائیت حاصل ہے مگر عمران کا ووٹر یہ بات ماننے کو تیار نہیں، ہر چند کہ پارٹی کمزور ہو چکی مگر اس سے عمران کو کوئی نقصان نہیں پہنچا، جب پارٹی کے نام نہاد لیڈر آپس میں لڑتے ہیں تب بھی عمران کو کوئی فرق نہیں پڑا، عمران کا سیاسی فیز اسی دن ختم ہوگا جس دن سلور اسکرین سے عمران غائب ہوگا مگر میڈیا ہاؤسز ایسا نہیں ہونے دینگے یہ ان کے کاروبار کا مسئلہ ہے مگر یہ بات طے ہے کہ بیرونی طاقت پاکستان کی سیاست میں ملوث ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button