چین مریخ اور چاند سمیت خلا میں بھی اپنی اجارہ داری قائم کرنے کا خواہشمند

چین خلا میں اپنی اجارہ داری یا نمایاں برتری قائم کرنے کا واضح ارادہ رکھتا ہے اور یہ صرف دعویٰ نہیں بلکہ کئی منصوبوں، مشنز اور اقدامات سے ظاہر ہوتا ہے۔اگر چاند کے حوالے سے بات کی جائے تو چین "چانگے” نامی مشن سیریز کے ذریعے چاند پر تحقیق اور ممکنہ بیس کیمپ بنانے کے منصوبوں پر کام کر رہا ہے۔ 2020 میں چانگے 5 مشن کے ذریعے چین چاند سے مٹی کے نمونے زمین پر لانے والا تیسرا ملک بن گیا ہے۔اسی طرح چین اور روس مل کر "انٹرنیشنل لونر ریسرچ اسٹیشن” بنانے کا منصوبہ رکھتے ہیں، جو کہ ایک مستقل بیس ہو سکتا ہے۔ بالکل ویسا جیسے امریکا ناسا کے "آرٹیمس” پروگرام کے ذریعے کر رہا ہے۔اسی طرح چین نے 2021 میں Tianwen-1 مشن کے ذریعے نہ صرف مریخ کے گرد مدار میں خلائی جہاز بھیجا بلکہ ایک روور Zhurong بھی کامیابی سے مریخ کی سطح پر اتارا۔ یہ کارنامہ چین کو تیسرا ملک بناتا ہے جس نے مریخ پر کامیابی سے کوئی مشن اتارا ہے۔3. خلائی اسٹیشن، تیانگانگ چین نے اپنا خود کا خلائی اسٹیشن Tiangong تیار کر لیا ہے کیونکہ اسے عالمی خلائی اسٹیشن میں شامل ہونے کی اجازت نہیں ملی تھی۔ تیانگانگ مکمل طور پر فعال ہے اور چینی خلا باز اس میں مستقل بنیادوں پر موجود ہوتے ہیں۔چین ہیلیم-3 جیسے قیمتی عناصر کے حصول کیلئے بھی چاند پر تحقیق کر رہا ہے جسے مستقبل میں توانائی کا متبادل سمجھا جا رہا ہے۔ اس وجہ سے ماہرین کو خدشہ ہے کہ چین چاند کے وسائل پر "پہلا دعویٰ” کرنے کی کوشش کرے گا جو خلا میں طاقت کے توازن کو بدل سکتا ہے۔چین اپنے مشنز کو صرف سائنسی نہیں بلکہ اسٹریٹیجک، عسکری اور معاشی مفادات کے تحت بھی استعمال کر رہا ہے۔ رازداری، مستقل سرمایہ کاری اور لانگ ٹرم وژن اس کے خلائی پروگرام کی نمایاں خصوصیات ہیں۔امریکا، جاپان، بھارت اور یورپی ممالک چین کی اس پیش قدمی پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔ ناسا اور یورپی خلائی ایجنسی نے اپنے منصوبوں کو تیز تر کیا ہے تاکہ چین کو خلائی اجارہ داری میں واحد لیڈر بننے سے روکا جا سکے۔