خان کی رہائی

بی بی سی کے زیدی صاحب کی خبریں اس وقت سنی جاتی تھیں جب ریڈیو پاکستان ملک کی صورتِ حال پر خاموشی اختیار کر لیتا، ہمیں معلوم ہوتا تھا کہ کراچی کی بولٹن مارکیٹ پر جلوس پر لاٹھی چارج ہو گیا ہے مگر ملکی میڈیا کوئی خبر ہی نہ دیتا تو اس وقت بی بی سی سنا جاتا تھا اور تفصیلات مل جاتی تھیں، زیدی صاحب سے ایک ملاقات کراچی میں ہوئی کچھ صحافی، طلباء ملکی حالات پر بحث کر رہے تھے لہجوں میں تندی آجاتی تھی اور ٹانگ وہیں پر ٹوٹتی تھی کہ پاکستان میں حالات اچھے نہیں عوام کی مشکلات بڑھتی جا رہی ہیں زیدی صاحب اس تمام گفتگو کو خاموشی سے سن رہے تھے ، پان سے شغل فرما رہے تھے مگر سماعتوں کے سارے در کھلے ہوئے تھے گفتگو پر ارتکاز تھا ان سے رائے طلب کی گئی تو زیدی صاحب مسکرائے اور کہا کہ آپ لوگ ناحق پریشان ہیں ،آپ کا ملک دنیا کا بہترین ملک ہے ایسا کوئی دیس دنیا کے نقشے پر موجود نہیں ہے جہاں آپ کو ہر قسم کی آزادی ہو آپ ملک کے صدر یا وزیر اعظم کو گالی دے سکتے ہیں ون وے کی مخالف سمت جا سکتے ہیں، آپ جرم کر سکتے ہیں رشوت دے کر چھوٹ سکتے ہیں انصاف خرید سکتے ہیں، منصف خرید سکتے ہیں ہر وہ کام کر سکتے ہے جو دنیا کے کسی بھی مہذ ب ملک میں نہیں کیا جا سکتا، آپ کو چرس اور افیم بآسانی دستیاب ہے، یہاں پولیس برائے فروخت ہے یہاں اساتذہ طلباء یونین سے ڈرتے ہیں محفل پر سناٹا چھا گیا، باتیں بہت سچی اور کھری تھیں ان سے انکار ممکن نہیں تھا، مگر بہت پہلے شوکت تھانوی نے ایک ناول لکھا تھا نام تھا ’’’سودیشی ریل ‘‘اس ناول میںہندوستان کی مختلف نوع قومیتوں کی سوچ کو سامنے رکھ کر یہ بتانے کی کوشش کی تھی کہ مختلف قومیتیں آزادی کا کیا مطلب لے رہی ہیں ، ہندوستان میں ہندوؤں کی اکثریت تھی تو ہر ہندو لیڈر ہندو سوچ کو ہی ترجیح دے رہا تھا اور مسلم لیگ نے مسلم CHAUVINISM پر زرو دیا کیونکہ یہی سکہ بازار میں چل سکتا تھا، کینیڈی نے امریکی عوام سے کہا تھا کہ یہ مت سوچو کہ ملک نے تم کو کیا دیا یہ سوچو کہ تم نے ملک کو کیا دیا، بھٹو جیسے لیڈر نے بھی یہ جسارت نہیں کی کہ وہ کہہ سکے کہ ملک کو صرف تعلیم اور تنظیم کی ضرورت ہے جمہوریت اس کے بعد کی چیز ہے،اس کے برعکس بھٹو نے ہی ملک میں سیاست میں انتہا پسندی کی بنیاد رکھ دی ، سب سے پہلے بھٹو نے ہی سیاست دانوں کو فکس کرنے کی بات کی اور اپنے حریفوں کا ٹھٹھہ اُڑایا، جہاں ایک طرف لیاقت علی خان ملائیت کو فروغ دینے کہ بات کر رہے تھے وہاں رعنا لیاقت علی کی سوچ بہت ترقی پسندانہ تھی وہ تعلیم نسواں کے لئے کوشاں تھی اور خواتین کو تعلیمی اور سماجی طور پر منظم کر رہی تھیں اپوا کا قیام ایک بہت بڑا سنگ میل تھا جو اگر کامیاب ہو جاتا تو شائد پاکستان کا چہرہ کچھ اور ہوتا اِسی دوران مجید لاہوری بہت نچلی سطح پر رعنا لیاقت علی خان کے غرارے کی بات کرکے قوم کے مستقبل میں سوراخ کر رہے تھے بھٹو ہو یا مجید لاہوری سب کو سستی شہرت کی تلاش تھی ان کی سوچ یہی تھی کہ عوام کو خوش کرنے کی بات کیسے کی جا سکتی ہے اور ووٹ کیسے سمیٹا جا سکتا ہے قوم کی سوچ بدلنے کی بات کسی لیڈر نے نہیں کی اور اس میں کوئی استثنیٰ موجود نہیں عمران نے جب تحریک انصاف کی بنیاد رکھی تھی اسی وقت ہم نے ایک آرٹیکل میں لکھا تھا کہ انصاف ایک سماجی مسئلہ ہے سیاسی مسئلہ نہیں، صرف انصاف کے حصول کے لئے کسی سیاسی تحریک کی ضرورت نہیں، ایک سیاسی جماعت کو ایک سیاسی فلسفے کے ساتھ سامنے آنا چاہیئے اور بتانا چاہیے کہ وہ عوام کو کیا دے سکتے ہیں عجیب اتفاق ہے کہ عمران کے ساتھیوں میں سات بڑے جز لز کے نام آتے ہیں مشرف، پاشا، ظہیر الاسلام، باجوہ، فیض حمید ،آصف غفور، عاصم باجوہ، جنرل پاشا کا ایک انٹر ویو نیٹ پر موجود ہے جس میں وہ کہہ رہے ہیں کہ ہم عمران کو تھرڈ فورس کے طور پر لے کر آئے تھے، پارٹی کے قیام کے ابتدائی چند برسوں میں انصاف پر بات ہوئی مگر جلد ہی تحریک انصاف ایک مذہبی جماعت بن گئی طالبان کی حمایت سے نکل کر اگر عمران اپنے خطاب میں یہ کہنے لگیں کہ میں تم کو لا اِلہ کا مطلب سمجھانے آیا ہوں یا یہ تم سے تمہاری قبروں میں پوچھا جائیگا کہ تم نے عمران کا کتنا ساتھ دیا تو تحریک انصاف پر سیاسی جماعت کی تہمت ہی لگ سکتی ہےپاکستان کے ہر لیڈر کی طرح عمران نے بھی یہی سوچا کہ ان کو سیاسی حمایت کہاں سے مل سکتی ہے، لہٰذا انہوں تمام غیر جمہوری اور غیر سیاسی جماعتوں سے طاقت سمیٹنے کی کوشش کی۔
اور جہاں جہاں سے انہوں نے طاقت سمیٹی وہاں سے حمایت مل بھی گئی انہوں نے سوچا کہ اس طاقت کے حصول کے بعد اقتدار تک پہنچنا آسان ہوگا تو گویا مسئلہ قوم کی رہنمائی نہیں تھا شعور دینا نہیں تھا بلکہ اقتدار کا حصول تھا، کیونکہ عمران کو فوج لے کر آئی تھی اس لئے عمران کو فوج سے بگاڑنی نہیں چاہیئے تھی کسی کو اچھا لگے یا برا لگے پاکستان میں ایک منظم اور طاقت ور ادارہ فوج ہی ہے سارے سیاست دان اقتدار کے لئے فوج کی طرف دیکھتے ہیں عمران نے بھی ایسا ہی کیا، تو ایک روایتی سیاست دان اور عمران میں کیا فرق ہوا، اس حکومت نے ڈرتے ڈرتے ہی عمران کو گرفتار کیا مگر ان کو رہا کرانے کے لئے تمام کوششیں پختونوں ، طالبان ٹی ٹی پی اور ان افغانیوں کی جانب سے ہوئیں جو پاکستان میں غیر قانونی طور پر شہری بن چکے ہیں، ہر چند کہ پارٹی میں جید وکیل، بیرسٹر ، قبائیلی سردار بھی موجود ہیں ان کو معلوم ہے کہ عمران کی رہائی عدالتوں سے ہی ممکن ہو سکتی ہے مگر تحریک عدم اعتماد کی کامیابی سے لے کر اب تک احتجاج کو ہی رہائی کا راستہ بنا لیا گیا ہے عمران نے کئی بار اسلام آباد پر چڑھائی کی اس بار جز لز ساتھ نہ تھے اس لئے کامیابی نہ مل سکی گنڈا پور نے بھی کوشش کر دیکھی مگر ناکام رہے اس دوران حکومت نے چھبیسویں ترمیم پاس کر کے اور آئینی بینچ بنا کر پانسہ ہی پلٹ دیا اب عمران کو بندیال کورٹ نہیں مل رہی اور رہائی مشکل بنا دی گئی ہے تحریک عدم اعتماد کے پاس ہونے کے بعد سے عمران نے ہر روز ایک جلسہ کیا اور اس کا مقصد معیشت کی بدحالی تھی عمران کو معلوم ہے کہ معیشت بہتر ہوئی تو کوئی ان کو نہیں پوچھے گا عوام کی جیب میں چند سکے بھی آجائیں تو وہ حکومت کے گن گانے لگتے ہیں، اس وقت بھی پختون خواہ کی معیشت کو آگ لگا کر عمران کی رہائی کی بات کی جا رہی ہے، مگر مقصد عمران کو رہا کرانا ہر گز نہیں بلکہ کوشش ہے کہ کسی طرح معیشت کو برباد کر دیا جائے تاکہ لوگوں کو روٹی نہ ملے اور لوگ بھوک سے تنگ ہو کر سڑکوں پر نکل آئیں، ابھی تک اس مقصد میں کامیابی نہیں ملی ہر چند کہ نوجوانوں میں عمران مقبول ہیں مگر نوجوان یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ عمران اگر رہا ہو بھی گئے تو ان کا لائحہ عمل کیا ہوگا وہی جلسے جلوس وہی لانگ مارچ ، وہی افرا تفری ، اس بار سوال یہ ہے کہ کیا حکومت ایسا ہونے دے دیگی کیا ESTABLISHMENT اس کی اجازت دے گی کیا کبھی ایسا ہوگاکہ ESTABLISHMENT پی ٹی آئی سے بات پر آمادہ ہو اور HYPOTHITICALLY اگر کبھی ایسا موقع آیا تو پی ٹی آئی ESTABLISHMENT سے کیا بات کرے گی کیا یہ کہ عمران کو دوبارہ گود لے لیا جائے اور کیا سوشل میڈیا پر اس قدر تضحیک کے بعد ESTABLISHMENT عمران کو ایک بار پھر ACCOMODATE کر سکتی ہے اور کیا مقتدرہ کو یقین آجائیگا کہ عمران اپنا رویہ بدل لیں گے ایسا ہر گز نہیں ہوگا تو پی ٹی آئی کا احتجاج ہوتا رہے گا مگر عمران کی رہائی نہیں ہوگی، جب احتجاج سے رہائی نہیں ہوئی تو احتجاج کا مطلب؟ صرف اپنی موجودگی کا احساس دلانا دوسرے بد امنی پیدا کرکے معیشت کو برباد کرنا تاکہ سرمایہ دار بھاگ جائے موجودہ گیلیپ سروے نے پختون خواہ کی سیاست، معیشت، کرپشن، اور انتظامی معاملات کی پول کھول دی ہے، مذکورہ تمام امور کا رجحان منفی ہے ایسا کیوں نہیں ہے کہ عمران گنڈا پور کو معیشت پر توجہ مذکور کرنے کا کہیں مگر ایسا حکم اڈیالہ سے نہیں آتا جب حکم آتا ہے احتجاج کا آتا ہے، پختون خواہ کی معاشی حالت خراب ہوتی جا رہی ہے عمران اتنے خود غرض کیسے ہو سکتے ہیں کہ ان کو پختونوں کی روٹی کی فکر نہیں جن کو عمران کی رہائی کی فکر ہے ، SOCIAL MEDIA OVERSEAS KEYBOARD WARRIORS گنڈا پور پر یہ دباؤ تو رکھتے ہیں کہ وہ عمران کی رہائی کے لئے احتجاجی کال دیں مگر میں نے سوشل میڈیا پر کبھی ایسی پوسٹ نہیں دیکھی کہ جس میں ننگے بھوکے پختونوں کی معاشی بہتری کے لئے کوئی دباؤ ڈالا گیا ہو ، اگر عمران کی نظر اس جانب نہیں جا رہی تو کیا کہا جا سکتا ہے مگر عمران کے ہاتھوں سے ریت پھسل رہی ہے رائے عامہ بدل رہی ہے آپس کی سیاسی رنجشوں نے پارٹی کو ٹکڑیوں میں بانٹ دیا ہے جو وکیل پارٹی سے وابستہ ہیں وہ سیاسی لوگ نہیں آج سلمان اکرم راجہ نے بہت سخت لہجے میں حمزہ عالیہ کو غیر پارلیمانی انداز میں سرزنش کی جو مناسب نہیں تھی گنڈا پور نے نوے دن کی بات کی سلمان اکرم راجہ نے اس کی تردید کر دی ادھر وقاص اکرم کی ایک آڈیو لیک ہو گئی ہے وہ بھی عالیہ حمزہ کو وارنگ دے رہے ہیں لگتا ہے جلد یا بدیر گنڈا پور حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد آ سکتی ہے مگر اس کا فیصلہ سینیٹ کے الیکشن کے بعد ہوگا۔