ہفتہ وار کالمز

 کہانی ایک سفر کی!

دوستوں، ہم میں سے اکثر جو پاکستان سے ہیں اور وطن آتے جاتے رہتے ہیں، کبھی سال میں اور کبھی کئی سالوں بعد۔ راقم کو بھی حال ہی میں جانے کا اتفاق ہوا۔ اس سفر میں جو مشاہدات ہوئے ، ان کا تذکرہ اس لیے کر رہا ہوں کہ شاید اوروں کو اس سے فائدہ ہو۔سب سے پہلے تو ایر لائین کے انتخاب کا سوال ہوتا ہے۔ اس کے دو ہی طریقے مجھے معلوم ہیں۔ ایک کسی ٹریول ایجنسی کے ذریعے اور دوسرے آن لائین جا کر۔ مثلا ایک ویب سائیٹ ہے ، کایک (Kayak) ۔کایک میں اپنی روانگی کے شہر اور منزل مقصود کے نام ڈالئیے، اس کے بعد روانگی کی مطلوبہ تاریخ ، اورآیا آپ ایک طرف کا یا دو طرف کا سفر اسی ایر لائن سے کرنا چاہتے ہیں۔ اگر آپ دو طرفہ سفر کرنا چاہتے ہیں، تو واپسی کی تاریخ بھی ڈال دیں۔ لیکن یاد رہے، میری دانست میں، واپسی کا کرایہ کم یا زیادہ ہو سکتا ہے یہ واپسی کی تاریخ پر کرایہ پر منحصر ہو گا۔ اب کایک آپ کو بہت ساری ایر لائینز کی تفصیل بتا دے گی۔ اور آپ دیکھ سکتے ہیں کہ کونسی ایر لائین سب سے سستا ٹکٹ بیچ رہی ہے۔ان کے کرایوں میں کچھ پیچیدگیا ہوں گی جو آپ کو غور سے دیکھنا پڑیں گی، مثلاً کیا آپ کو کسی دوسرے شہر میں جہاز بدلنا پڑے گا، اور کیا صرف ایک شہر میں یا ایک سے زیادہ جگہ۔ اور یہ عارضی قیام کتنے گھنٹے کا ہو گا۔ اگرتین یاچار گھنٹے سے کم ہو تو جہاز کی روانگی میں دیر ہونے سے آپ اپنی دوسری فلائٹ کھو بھی سکتے ہیں۔لیکن اس صورت میں ایر لائین ذمہ وار ہو گی، اور وہ آپ کو کسی اور فلائیٹ میں بھجوانے کا بندو بست کر دے گی۔اور اس درمیانے وقفہ میں آپ کو، کھانے پینے کے وائوچر دے گی جنہیں آپ ایرپورٹ کے اندر استعمال کر سکتے ہیں۔
راقم نے مندرجہ بالا طریق کار سے میامی سے لاہور تک کا یکطرفہ سفر بذریعہ ٹرکش ایر لائینز منتخب کیا، یہ اور ایر لائنز کے مقابلہ میں سب سے کم تھا۔ لیکن سفر شروع کرنے سے ایک دن پہلے مجھے بتایا گیا کہ میری استنبول سے لاہور جانے والی پروازکینسل ہو گئی ہے، اور مجھے دوسری پرواز لینا پڑے گی۔وہ بھی انہوں نے خود ہی تبدیل کر دی۔ فرق یہ پڑا کہ پہلی پرواز صبح ساڑھےچار بجے لاہور پہنچتی تھی اور دوسری اب صبح ڈھائی بجے پہنچے گی۔ مین نے بہت شکائیتں کیں اور کہا یہ بڑا غیرمناسب وقت ہے، مجھے کیوں نہیں اس سے اگلی پرواز میں بھیجتے جو صبح ساڑھے آٹھ بجے پہنچتی ہے؟ تو کئی دنوں کی ای میل اور ٹیلیفونک رابطوں کے بعد یہ پتہ چلا کہ میری مطلوبہ پرواز کا کرایہ زیادہ ہے اس لیے نہیں دے سکتے۔ اگر کوئی امریکن یا یوروپین ایر لائین ہوتی تو وہ ایسا نہ کرتی۔ ایسا لگتا ہے کہ ٹرکش ائیر لائین کوئی یہودی بنیا چلا رہا ہے۔میامی سے استنبول کی لمبی اڑان تھی، جس میں ایک کھانا دیا گیا ، جو انتہائی فضول تھا، اور اترنے سے پہلے ویسا ہی فضول ناشتہ دیا گیا۔ٹرکش ایر لائین اکانومی کلاس کو تھرڈ کلاس سمجھتی ہے اور ویسا ہی سلوک کرتی ہے۔اس سے سفر میں کچھ پیسے تو بچا لیے لیکن اپنی بے توقیری بھی کروا لی، جو اکثر دوسری ایر لائینز نہیں کرتیں۔ شکر ہے کہ میں نے واپسی کا سفر ٹرکش سے نہیں طے کیا۔
ٹرکش ، اگر آپ میری طرح بہت نکتہ چین نہیں ہیں، تو بری بھی نہیں، کیونکہ وہ استنبول میں، آپ کو مفت شہر کی سیر کرواتی ہے، ہمارا جہاز صبح پانچ بجے پہنچا تھا اور ہماری دوسری پرواز شام کو ساڑھے چھ بجے تھی تو ہم نے آدھے دن کا ٹور لے لیا، اس میں صبح کا ناشتہ اور دوپہر کا کھانا شامل تھے۔ ہماری بس ہماری طرح کے اکانومی کلاس کے مسافروں سے بھری ہوئی تھی۔ ایک بزرگ گائیڈ راستے میں اپنی ٹرکش انگریزی میں ترکی کی تاریخ سناتا گیا۔ بس تیزی سے ہر مقام سے گذرتی گئی۔ ہم اتنے تھک گئے تھے کہ تین میں سے دو جگہوں پر بس سے اترے، ان میں سے ایک حضرت ایوب انصاری، معروف صحابی کا مزار تھا۔ اس کی ملحقہ مسجد بہت آراستہ اور نقش و نگار سے مزین تھی۔ لیکن اس مسجد کو بطور عجائب گھر رکھا گیا ہے، وہاں با قاعدہ نمازیں نہیں پڑھائی جاتی ہیں۔اس آدھے دن کی سیر سے جو حاصل ہوا کہ استبول کے 13 گھنٹے کا پڑائو اچھی طرح استعمال ہوا، اور یہ بھی کہ تھرڈ کلاس کے مسافروں کو بھی تھوڑی بہت پذیرائی تو مل جاتی ہے۔جو ناشتہ ملا اور دوپہر کا کھانا، وہ ایسے ہی تھے جو اس کلاس کے بندوں کو دئیے جا سکتے تھے۔ ہمارا خیال تھا کہ کوئی ٹرکش کباب ملیں گے۔ ایسا کچھ نہیں تھا۔اپنی امیدوں کو قابو میں رکھیں تو بہت اچھے رہیں گے۔یہ کسی نے سچ کہا ہے جتنا گڑ ڈالیں گے ، اتنا ہی میٹھا ہو گا۔
یہ تو مشتے از خروارے معاملات تھے ۔ اس کے علاوہ ایک لمبی فہرست ہے جس کو دہرانے سے صرف دکھ ہی ہو گا۔لیکن پاکستان پہنچنے کے بعد جب امیگریشن سے نکلنے لگے تو ہماری بیگم کو روک لیا گیا کہ ان کے پاس نادرا کا کارڈ تھا وہ پاکستانیوں کا تھا اور پاسپورٹ امریکہ کا۔ یہ تو کھلا تضاد تھا۔ ان کو تین دن کی مہلت دی گئی کہ ان میں وہ نائیکوپ لے لیں۔چنانچہ ہمارے دو دن نادرا کے چکروں میں لگے۔ نادرا کرشن نگر کا دفتر بہت مدد گار قسم کا تھا، لیکن بائیو میٹرک کی بات ہی کچھ اور تھی۔ وہ باوجودتمام کوششوں کے نہیں ہو پا رہا تھا۔ نادرا کا دفتر چھوٹا سا تھا جس میں ہر دروازے سے لوگ امڈے آتے تھے۔ اس میں بوڑھے ، جوان، بچے، اور اپا ہج سب شامل تھے۔ بوڑھوں اور نو جوانوں کے لئے علیحدہ کائنٹر تھے لیکن جس قسم کا ہجوم تھا اس میں کوئی معیار اور قاعدہ قائم رکھنا بڑا مشکل کام تھا۔ دوسرے دن ہمیں دوبارہ بلایا گیا تھا کہ بائیو میٹرک کیے جائیں۔ چونکہ ہماری بیگم نے بڑے لوشن اور کریمیں لگا کر انگلیاں صاف کی تھیں، یہ مرحلہ بھی طے ہو گیا اور پھر ہمیں نیچے اوپر کے تین پھیرے لگوائے گئے۔ اور پھر بتایا گیا کہ ارجنٹ فیس 22 ہزار روہے اوپر کسی ایزی پیسہ کی دوکان سے جیز کیش (Jazz Cash) کو بھجوانی ہو گی۔جب ہم ایک دو دوکانوں میں گئے تو پتہ چلا وہ چھوٹے کاروبار تھے، ان کے پاس اتنا بیلنس نہیں تھا کہ وہ اتنی بڑی رقم جمع کروا سکتے۔ کافی تگ و دو کے بعد ایک دکان ملی جس نے یہ کام کر دیا اور اسکی پانچ سو فیس لی۔ پہلے نادرا خود یہ رقم لیتا تھا تو اس کی کوئی فیس نہیں تھی۔ اب یہ نیا انتظام کیوں کیا گیا ہمیں سمجھ نہیں آیا۔اس میں بھی ہو سکتا ہے کہ فیس کی رقم کئی افسران تک جاتی ہو؟
نادرا میں کئی گھنٹے بیٹھنے سے پتہ چلا کہ جو لوگ آتے تھے زیادہ ترغریب، خستہ حال نظر آتے تھے۔ کئیوں کو چھوٹے چھوٹے نقص بتا کر مزید پھیرے لگوائے جاتے تھے۔ ایک لمبی سفید داڑھی والا مرد اپنی بوڑھی والدہ کے ساتھ آیا۔ اسکو والدہ کا کارڈ بنوانا تھا، لیکن اسے کہا گیا کے اس کی والدہ کی والدہ کا پیدائش کا سرٹیفیکٹ یا کوئی شناخت کا ثبوت لائے۔ وہ غریب کہاں سے ثبوت لائے اس کا جس کی وفات پاکستان بننے سے پہلے ہو چکی تھی۔ نادرا کے افسران بالا کو اس قسم کے غیر حقیقی مطالبوں پر نظر ثانی کرنا چاہیے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم نے نادرا کے ملازمین، خوش اخلاق، محنتی ، اور اپنے کام کے ماہر پایا۔ لیکن محکمہ نے ان کے کام میں رکاوٹیں کھڑی کر رکھی ہیں جن سے عوام کوآسانی سے کچھ نہیں ملتا۔
پاکستان کے 25کروڑ لوگوں کی زندگی کا مفصل اور تصدیق شدہ حساب رکھنا ایک بہت بڑا کام ہے، اسی لیے حکومت نے ایک حاضر سروس جنرل کو اس کا سربراہ بنا دیا تھا، جن کو غالباً شماریات اور کمپیوٹر ز کی پروگرامنگ کا زیادہ علم نہیں تھا۔ لیکن ہر کام چونکہ قومی مفاد میں کرتے ہوں گے، ان کو لگایا گیا۔ نادرا کا دفتر پاکستان کے ہر فرد کا نام، پتہ، تاریخ پیدائش، اس کے ماں باپ اور بہن بھائیوں اور ان کے سارے کوائف کا ریکارڈ رکھتا ہے۔ یہ ریکارڈ انتہائی حساس اور ہر کسی کی ذاتی زندگی سے متعلق ہوتے ہیں ، ان کو صیغہ راز میں رکھنا محکمہ کی ذمہ واری ہے۔ لیکن کیا کریں کہ ایک ادارہ جو قومی مفاد کا کام کرتا ہے، اس کو بھی کچھ افراد کے ناموں اور ٹھکانوں کی معلومات کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ مثلاً کسی ملزم کو پکڑنا ہے تو اس کے نادرا کے ریکارڈ سے ماں، باپ، بہن بھائی سب کے نام پتے مل جاتے ہیں جنہیں پکڑ کر وہ ملزم کو مجبور کر سکتے ہیں کہ وہ اپنے آپ کو ان کے حوالے کر دے۔اگر یہ ادارہ اپنے ہی کسی افسر کو نادرا کا سربراہ بنا دے تو کوئی رکاوٹ رہتی ہی نہیں۔آپ سمجھ تو گئے ہوں گے۔اب کسی بھی پاکستانی کی خاندانی معلومات عسکری قیادت سے چھپی نہیں رہ سکتیں۔ مگر ڈر کاہے کا؟ فوج بھی اپنی اور اس کے جرنیل بھی اپنے۔نادرا کی حرکات سے لوگ اتنے تنگ ہیں کہ عدالتوں کے دروازےکھٹکھٹانے پر مجبور ہو گئے ہیں۔
ہم پاکستان، بلکہ لاہور کے کچھ مشاہدات پیش کرنا چاہتے ہیں تا کہ آئندہ آنے والوں کو کچھ آگاہی ہو۔ جب آپ لاہور ایر پورٹ پر امیگریشن اور کسٹمز سے گزر کر باہر آتے ہیں تو سامان کی وجہ سے کوئی پورٹر لے لیتے ہیں۔ جب وہ پورٹر باہر جا رہا ہوتا ہے، تو اس کی مدد کے لیے اور لوگ آ جاتے ہیں اور پھر آپ کو ان کو بھی پیسے دینے پڑتے ہیں۔ اس لیے ان کو سامان کو ہاتھ لگانے سے روکیں۔ سرکاری ریٹ ہے چار سو روپے جو پورٹر حضرات قطعاً نہیں مانتے۔ میں نے پانچ سو دئیے تو وہ منہ بنا کر چلے گئے۔ میرے دوست کی بیٹیاں جو بعد میںآئیں تو ان کو اتنا تنگ کیا گیا کہ انہوں نے سو سو ڈالر کے نوٹ دے دئیے، جو برابر تھے پاکستانی روپے 000،58۔ کہاں پانچ سو اور کہاں 000،58؟ اب آپ کیا دیں گے؟ یہ آپ پر ہے۔میں نے اپنی سواری کا انتظام کر رکھا تھا تو وہ مرحلہ آسانی سے طے ہو گیا۔
لاہور میں ٹریفک کسی قاعدے قانون کے تحت نہیں چلتی۔ اگرچوراہے پر پولیس کانسٹبل نہیں ہو تو ہر طرف کی ٹریفک رواں دواں رہتی ہے۔ گاڑیوں کا ایک دوسرے سے فاصلہ اکثر بال برابر ہی ہوتا ہے۔ حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ ایک بھی حادثہ نہیں دیکھا ابھی تک۔یہ معجزا تی نظام ہے یا کیا؟یہاں چونکہ بارشوں کا موسم ہے، جگہ جگہ بارش کا پانی کھڑا ملتا ہے۔ محترمہ وزیر اعلیٰ بیان جاری کرتی رہتی ہیں کہ انہوں نے اس کے نکاس کے احکامات جاری کر دئیے ہیں۔ جو حکام ایک کان سے سنتے ہیں اور دوسرے سے اُڑا دیتے ہیں۔ کیونکہ جب تک اس کام کے لیے بجٹ نہیں دیا جائے گا، کچھ نہیں ہو گا اور راوی ویسے ہی بہتا رہے گا۔ اصولی طور پر، حکومت کو کڑوا گھونٹ بھر کر مقامی حکومتوں کے انتخابات کروانے چاہئیں اور ان کو فنڈز دینا چاہئیں تا کہ وہ اس قسم کے کام کروائیں۔
پاکستان میں ترقی ہو رہی ہے۔ نئی نئی عمارات، پلازے اور مال بن رہے ہیں۔ خدا جانے ان کو خریدار کہاں سے ملتے ہیں؟ ملک کی ایک بڑی آبادی خط غربت سے نیچے چلی گئی ہے۔ جو درمیانہ طبقہ ہوتا تھا، وہ اب اس سے نچلے طبقہ میں جا چکا ہے۔ لوگ حیرانی سے دیکھتے ہیں کہ کس طرح ارکان اسمبلی اپنی تنخواہیں اور مراعات بڑھاتے ہیں۔ ادھر عوام پر ٹیکسوں کی بھر مار ہے۔ اس لیے کہ بجائے حکومت محکمۂ ٹیکس کے افسران کوکرپشن کو روکے وہ مزید ٹیکس لگا رہے ہیں۔ کرپشن زندہ باد۔
پاکستان میں ابھی بھی کچھ اچھے اور ایماندار لوگ ہیں کہ ملک کسی نہ کسی صورت چل رہا ہے۔ کسان محنت کرتے ہیں، فصلیں اگاتے ہیں تو 25کروڑ عوام کم از کم ایک وقت کی روٹی تو کھا لیتے ہیں۔ مزدور بوجھ اٹھا کر روزی کماتے ہیں۔ اورحلال آمدن سے اپنے پیٹ کا ایندھن بھرتے ہیں۔ خدا کرے کہ یہ ایسے ہی کام کرتے رہیں۔ کبھی نہ کبھی تو ان کو ایک اچھا رہنما مل جائے گا۔ابھی تو پاکستان قدرتی آفات سے دو چار ہے۔ ہر سال کی طرح سیلاب آ رہے ہیں۔ کرپٹ حکومتیں ان کو بیان بازی سے رفع دفع کر رہی ہیں۔ غریب عوام اپنی کھڑی فصلوں کو سیلاب میں تباہ ہوتے دیکھتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ اب اگلے وقت کی روٹی کہاں سے آئے گی ؟ حکومت مال بنانے میں اتنی مصروف ہے کہ اس کو کسی مسئلہ کے حل کے لئے فرصت ہی نہیں۔ان سیلابوں کا پانی جمع بھی کیا جا سکتا ہے کہ خشک سالی میں کام آئے۔میں پھر بہک گیا۔

 

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button