الوداع

تعزیتی اجلاس نہ مسلمانوں کی مذہبی رسم تھی نہ سماجی، شروع شروع میں کچھ ادبی شخصیات کی وفات پر کسی تنظیم نے ادباء اور شعراء کو جمع کیا اور مرنے والے کی علمی اور ادبی خدمات پر گفتگو کرلی جاتی، جہاں تک مجھے یاد ہے گاندھی کی موت پر ایک ریفرنس ساؤتھ افریقہ میں منعقد ہوا تھا جس میں بر صغیر کے کسی سیاسی رہنما نے شرکت نہیں کی تھی، غالباً پہلا ادبی ریفرنس مولوی عبد الحق مرحوم کے لئے ان کی وفات پر اُردو کالج میں ہوا تھا، اس کے بعد اس رسم کا اتباع شروع ہو گیا، کئی صدی پہلے اسکاٹ لینڈ کا ایک بادشاہ مر گیا تو اس کی تدفین شاہی اعزاز کے ساتھ ہوئی، اس موقع پر عوام موجود نہیں تھی، عوام بادشاہ سے محبت کرتی تھی اس نے عوام کی فلاح کے لئے کئی کام کئے تھے ، کہا جاتا ہے کہ بچوں کے اسکول کا آئیڈیا شاہ JOHN کا ہی تھا،اس کی موت پر ایک شاعر نے ایک نظم لکھی شاعر نے لکھا کہ ہمارا محبوب بادشاہ مر گیا اور کسی نے ہماری آنکھوں کے آنسو بھی نہیں دیکھے ،MELANCHOLY MUSIC بھی نہیں تھا، اس نظم کو MARKET PLACE پر لوگوں نے پڑھا سو KING JOHN کی موت کے دو ماہ کے بعد ایک ٹھٹھرتے دن لوگو ں کوجمع کیا گیا اور ہر شخص کو اجازت تھی کہ وہ اپنے بادشاہ کے بارے میں جو بھی کہنا چاہیے کہہ سکتا ہے، کئی گھنٹے شدید سردی میں لوگ بادشاہ کی تعریف کرتے رہے، جب DISPERSE ہوئے تو انہوں نے PUBS BARS کا رخ کیا مچھلی کھائی اور SPICED RUM پی ایک شخص شراب خانے کی درمیانی میز پر کھڑا ہوا اس نے کہا کہ آج بہت سردی تھی مگر ہمارے اندر گرمی تھی ہم سب WARM HEARTED تھے ہم نے اپنے بادشاہ کو دعائیں دیں اور آج ہمارا بادشاہ ہماری گرم دعاؤں میں لپٹا قبر میں آسودہ ہے،اس کے بعد مغرب کے تمام ملکوں میں عوام کو بلایا جاتا اور عوام کے سامنے ہی بادشاہ کو خراج پیش کیا جاتا اور آخری رسومات ادا کی جاتیں، بعد ازاں یہ رسم چرچ نے اپنا لی اور جنازہ سامنے رکھ کر متاثرہ خاندان اور مرنے والے کے عزیز و اقارب اور احباب مرنے والے کے بارے میں باتیں کرتے ہیں اور PRIEST دعائیہ کلمات ادا کرتا ہے، ہماری مساجد میں اس کی اجازت نہیں ہم کسی بھی مسلمان کی موت پر قبر میں اتار کر اس کی مغفرت کی دعا کرتے ہیں گویا ہم ہر مرنے والے کو گنہگار ہی تصور کرتے ہیں چاہے وہ کتنا ہی متقی کیوں نہ ہو کتنا ہی عظیم کیوں نہ ہو، میں جب بھی کسی جنازے پر گیا اس عمل سے مجھے ذہنی تکلیف ہوئی ۔
خلیل اس دنیا سے چلے گئے ، بڑی جلدی تھی ان کو جانے کی سو کچھ بیماریاں اوڑھ لیں اور یہ دنیا چھوڑ دی، خلیل کی موت کا صدمہ ہے خلیل کے لئے دو تعزیتی اجلاس منعقد کئے گئے ایک حلقہء ارباب ذوق نیویارک کی جانب سے، یہ حلقہ خلیل نے ہی قائم کیا تھا، اس وقت خلیل کی معاونت ہمارے محترم دوست وکیل انصاری اور شوکت فہمی نے کی تھی ڈاکٹر سعید نقوی اس وقت ادب میں نئے نئے متعارف ہوئے تھے ، مگر بعد میں سعید نقوی نے بہت مستعدی سے کام کیا ایک جگہ بھی مستقل طور پر میسر آگئی ، وکیل انصاری گاہے گاہے حلقے میں آتے رہے پھر انہوں نے اپنی انجمن کاروان فکر و فن پر توجہ دی، اس تنظیم کے بینر تلے وکیل انصاری کئی کامیاب پروگرام کرا چکے ہیں، حلقہ ء ارباب ذوق نیویارک کے تعزیتی اجلاس میں اپنی علالت کے باعث شرکت نہ کر سکا، اس کا قلق رہا، بات تعزیت کی ہے تو انجم سے تعزیت کے لئے یہی کہہ سکتے تھے کہ بی بی بہت دکھ ہے خلیل کی موت کا بہت بڑا نقصان ہے اس کا ازالہ نہیں ہو سکتا، بس خدا کی مرضی تھی خدا کے کاموں میں کس کو دخل ہے، جی بھر کر رو لو اگر کوئی کاندھا میسر آ جائے تو یہی کچھ رسمی کلمات ہوتے تعزیت کے لئے، میں وہ کم نصیب انسان ہوں کہ مجھے تعزیت کے لئے الفاظ بھی نہیں ملتے، میں گنگ ہو جاتا ہوں، ہاں مجھے رونے کا سلیقہ ہے آنسو دل کے اندر تو گرتے ہیں آنکھوں سے نہیں ٹپکتے ، اگر یہ تعزیتی اجلاس تھا تو میری جانب سے یہی تعزیت ہوتی ،اس اجلاس کی RECORDING انجم نے مجھے بھیج دی تھی، اس اجلاس میں مقررین نے ان لمحات کا ذکر کیا جو انہوں نے خلیل کے ساتھ گزارے، اور بس ،حلقہ ارباب ذوق نیویارک کے تعزیتی اجلاس میں ایک فاضل مقرر نے خلیل کی LEGECY کی بھی بات کی، یہ بات میرے دل کے قریب تھی ریفرنس میں متوفی کو ہی DISCOVER کیا جاتا ہے بات یہ ہے کہ جس شخص کی LEGECY ہوتی ہے اس کا مشن بھی ہوتا ہے، میری دانست میں دو افراد اس کمیونٹی میں شعوری یا غیر شعوری طور پر مشن لے کر آئے، ایک حنیف اخگر جن کے شوق اور شناخت کا اتصال ہوا تو اس جنوں خیز جذبے نے کمال کر دکھایا حنیف اخگر نے حیران کن انداز میں نیویارک کو مشاعروں کا شہر بنادیا، اور نیو یارک اُردو کی نئی بستی کہلایا حنیف اخگر کے انتقال پر میں نے لکھا تھا کہ حنیف اخگر کا بڑا کام یہ بھی ہے کہ مشاعروں سے کمیونٹی کا تعارف ہو گیا، یہ کام حنیف اخگر سے غیر شعوری طور پر ہی سرزد ہوا، خلیل نے گورڈن کالج راولپنڈی میں پڑھا، اس کالج کی کلاس کے بلیک بورڈ کے اوپر ایک جملہ لکھا ہوتا تھا DO NOT DISCOVER YOURSELF, CREATE YOURSELF , مجھے نہیں اس جملے سے کتنا INSPIRE ہوا مگر اتنا جانتا ہوں کہ خلیل اپنا خوف اور ڈر پاکستان کے کسی AIRPORT پر چھوڑ آیا تھا، وہ امریکہ کے کسی AIRPORT پر اترا تو اس کے ساتھ کوئی سماجی اور مذہبی BAGGAGE نہیں تھا، ابتدائی دور میں خلیل کو کمیونٹی کو سمجھنے کا موقع ملا، یہ کام بہت زیادہ COMPLICATED/COMPLEX نہیں تھا، معاشی بدحالی کے مارے ہوئے لوگ ،اپنے معاش کے لئے ہی فکرمند ، اس بات کا شعور بھی نہیں کہ امریکہ میں ان کا نیا کردار کیا ہوگا، ووٹ بھی دینے سے خائف، عید بقرہ عید پر جو لوگ نماز کا انتظام کر دیتے تھے وہی اہم تھا، خلیل کے لئے میدان خالی تھا،اُردو ٹائمز کے اجراء نے خلیل کو شناخت بھی دی اور کام کرنے کی راہ بھی سجھائی اور وہ بھیڑوں کی رکھوالی کے لئے نکل کھڑا ہوا، یہ کام خلیل نے شعور کے ساتھ کیا اور خوب کیا، شہر کی تمام تنظیموں تک اس کی رسائی تھی ، وہ مردم شناس بھی تھا اس نے بہت سے لوگوں کو شہر میں روشناس بھی کرایا، سفارت خانے اور قونصلیٹ تک اس کی رسائی تھی ،اقبال ڈے کی نمائش پر سفارت خانے نے اقبال کی اہم دستاویزات پاکستان سے نمائش گاہ تک پہنچا دیں یہ کام حیران کن تھا، سفارت خانے کو خلیل پر اعتماد تھا اور اس کام پر بھی جو خلیل کر رہا تھا اُردو کانفرنس کا انعقاد بھی کم اہم نہ تھا، خلیل سے پہلے اور خلیل کے بعد کسی کو یہ کام کرنے کی ہمت ہوئی نہیں ، میری دانست میں خلیل کمیونٹی کو بنیاد پرستی سے نکال کر روشن خیالی کی جانب لانا چاہتا تھا یہ کام بہت صبر آزما تھا خلیل یہ کام نہ کر سکا، کمیونٹی اس قدر جلد اپنا بوسیدہ مذہبی اورسماجی BAGGAGE اتار پھینکنے کے لئے تیار نہ تھی اور جب خلیل کو یہ بات سمجھ آگئی کہ کلچر آہستہ آہستہ تبدیل ہو تا ہے تو اسے یقین ہو گیا کہ دوسری یا تیسری نسل اس بوجھ سے خود ہی چھٹکارا حاصل کر لے گی، خیر خلیل چلا گیا اس نے وہ کام بھی کئے جن کی تعمیل و تکمیل کے لئے شائد خلیل نے سوچا بھی نہ تھا ۔
اب انہیں ڈھونڈ چراغِ رخِ زیبا لے کر!