ہفتہ وار کالمز

ہم سے جتنے سخن تمہارے تھے

ڈاکٹر انور نسیم سے ملاقاتوں کا آغاز تب ہوا جب وہ اسلام آباد سے اپنا گھونسلہ سمیٹ رہے تھے۔ایک روز ڈاکٹر ریاض احمد ریاض کا فون آیا ، مصروفیات کا پوچھا ،انہیں بتایا کہ جب آپ سے بات یا ملاقات ہو رہی ہو ،تب میں مصروف ہوتا ہوں ،ورنہ سارا دن بالکل فارغ ہی گزرتا ہے۔ہنسے اور پوچھنے لگے کہ اس وقت کہاں پر ہو؟ بتایا کہ شعبہ اقبالیات میں،یہ سن کر کہنے لگے کہ چلو پھر فیض چیئر والے آفس میں پہنچو، ہم فیض احمد فیض کے ایک عاشق صادق کے ساتھ آرہے ہیں۔ پھر وہ ڈاکٹر انور نسیم کے ساتھ تشریف لائے ۔فیض احمد فیض ڈاکٹر انور نسیم کا دل پسند موضوع گفتگو تھا۔فیض کے ساتھ ان کی یادیں اور ذکر فیض کے ساتھ ان کی دلی راحت وابستہ تھی۔ ہماری یونیورسٹی میں فیض چیئر کے قیام پر وہ خوشگوار حیرت کا اظہار کر رہے تھے کہ چلو یار پاکستان کی ایک وفاقی یونیورسٹی میں فیض چیئر کا قیام ایک خوش آئند بات ہے۔یہ کام تو بہت پہلے ہو جانا چاہیے تھا ۔لیکن چلو یہ بھی غنیمت ہے۔ پھر اس چیئر کے بارے میں سوالات شروع ہوئے ، پوچھنے لگے کہ کوئی بجٹ بھی ملا ہے ؟ بتایا کہ بالکل نہیں، اس طرح کا کوئی مادی بندوبست فی الحال نہیں ہو سکا ۔ایچ ای سی کہتی ہے کہ ایوان صدر سے پوچھیں ، ایوان صدر والے کہتے ہیں کہ ایچ ای سی بتائے۔جب کہیں سے بھی فنڈز دستیاب نہیں ہوئے تو ہم نے اپنے روحانی تصرفات سے کام چلانا شروع کیا۔سب سے پہلے لاہور ڈاکٹر معین نظامی کو فون کر کے پوچھا کہ وہ علی ہجویری چیئر پر متمکن ہیں اور چیئرز کے اسرار و رموز سے بخوبی واقف و آگاہ بھی ، تو فیض چیئر کی بابت کچھ رہنمائی فرمایئے ۔انہوں نے کشف المحجوب نما کچھ راز ارزاں کرتے ہوئے چند رسمیات سے آگاہ کیا ،جن کے نتیجے میں فیض چیئر کے لیے فوری طور پر ایک نیشنل ایڈوائزری کونسل ترتیب دی گئی ۔جس میں پاکستانی فیڈریشن کی تمام اکائیوں کی نمائندگی شامل تھی ۔یہ نیشنل ایڈوائزری کونسل منظوری کے لیے وائس چانسلر کو پیش کی گئی ،وائس چانسلر سندھ سے تعلق رکھتے تھے،لہٰذا انہوں نے باقی اراکین سے اتفاق کرتے ہوئے ،بس سندھ کے ایک معروف اور بھلے پروفیسر کی جگہ پر کراچی سے ایک بزرگ سندھی دانش مند کو شامل کر لیا۔اس نیشنل ایڈوائزری کونسل کے اجلاس میں فیض چیئر کے لیے متعدد منصوبے منظور کئے گئے، جن میں سب سے پرجوش منصوبے دو تھے ۔ایک باقیات کلام فیض احمد فیض اور دوسرا فیض ڈاکیومنٹری کی تیاری۔میں نے پرائمری اسکول کے ایک ہونہار طالب علم کے طور پر یہ سارا سبق منہ زبانی سنا دیا تھا اور ڈاکٹر انور نسیم دلچسپی سے سنتے رہے ، پھر پوچھنے لگے کہ بجٹ کے بغیر یہ کام کیسے ہو سکیں گے۔ میں نے انہیں بتایا کہ میں نے اس کا ایک حل نکالنے کی کوشش کی ہے۔باقیات کلام فیض کا پراجیکٹ کینیڈا میں مقیم ڈاکٹر تقی عابدی مکمل کریں گے۔جہاں جہاں فیض چیئر کے تعاون کی ضرورت پیش آئی، وہ دستیاب ہو گا۔باقیات کلام فیض کی اشاعت ہماری یونیورسٹی کی ذمہ داری ہو گی اور یہ کام ہم یونیورسٹی کے اپنے پرنٹنگ پریس میں مکمل کریں گے ۔جہاں تک فیض ڈاکیومنٹری کا تعلق ہے ،اس پر حضرت احمد سلیم نے مسودہ تیار کر لیا ہے اور ڈاکیومنٹری کی شوٹنگ اور ٹریولنگ کی مکمل تفصیل رقم کر کے ہمارے حوالے کر دی ہیں۔ڈاکٹر انور نسیم خوش ہوئے ،تو ڈاکٹر ریاض احمد ریاض نے معنی خیز انداز میں کہا کہ اگے وی سنو( آگے بھی سنیے) آگے کی صورت یہ ہے کہ؛ ہماری یونیورسٹی کے پاس اس طرح کی ڈاکیومنٹری تیار کرنے کے تمام تر وسائل موجود تھے ، جب انسٹی ٹیوٹ آف ایجوکیشنل ٹیکنالوجی کے ساتھ مکمل تیاری کے بعد فائل وائس چانسلر کی میز پر گئی، تو پھر چراغوں میں روشنی نہ رہی۔بس یہ کہا گیا کہ ابھی صبر کریں۔ ڈاکیومنٹری بھی بن جائے گی۔ دوسری طرف حضرت احمد سلیم نے لاہور میں فیض کے حوالے سے اپنے جملہ احباب سے رابطے کر لیے تھے اور انہیں پابند بھی کر لیا تھا کہ اوپن یونیورسٹی کا قافلہ آرہا ہے ۔پھر کیا ہوا؟ ڈاکٹر انور نسیم نے پوچھا .پھر ابھی تک کچھ نہیں ہوا ۔ ایک دلچسپ سوال بھی انہوں نے پوچھا کہ فیض احمد فیض کے خانوادے کے ساتھ کوئی رابطہ قائم ہوا؟ کوئی تعاون ان کی طرف سے؟ انہیں بتایا کہ ہم نے نیشنل ایڈوائزری کونسل میں فیض احمد فیض کی بڑی صاحبزادی کو بطور رکن شامل کیا ہے ۔فون پر ان سے متعدد بار بات چیت بھی ہوئی ہے لیکن ان کا رویہ فیض چیئر کے قیام پر خوش ہونے یا فخر محسوس کرنے کی بجائے کچھ لاتعلقی کا سا نظر آتا ہے۔ اور تو اور انہوں نے فیض چیئر کی نیشنل ایڈوائزری کونسل کے اجلاس میں وعدے کے باوجود شرکت کرنا گوارہ نہیں کیا۔’’ہوں‘‘ ڈاکٹر انور نسیم نے ایک گہرا سانس لیا، اور ڈاکٹر ریاض احمد ریاض کی طرف گہری نگاہ سے دیکھا۔مجھے کچھ کچھ علم اور اندازہ تھا کہ صاحب حال بزرگ زیادہ گفتگو بذریعہ چشم کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔اس کے بعد ڈاکٹر ریاض احمد ریاض نے موضوع بدلا اور کہنے لگے کہ ڈاکٹر انور نسیم اپنی لائبریری میں موجود فیض احمد فیض پر کتب یونیورسٹی کو عطیہ کرنا چاہتے ہیں۔ میں یونیورسٹی کی مرکزی لائبریری کے احوال و ترجیحات سے واقف تھا ،لہٰذا میں نے انہیں مشورہ دیا کہ وہ اتفاق سے یونیورسٹی آئے ہوئے ہیں،تو بہتر ہے کہ لائبریرین سے مل لیں اور کتابیں عطیہ کرنے کی بات کر لیں۔لائبریرین کو فون کر کے پابند کیا اور کہا کہ کچھ بڑے لوگ ملنے آرہے ہیں۔خیر تھوڑی دیر بعد دونوں ڈاکٹر صاحبان واپس تشریف لے آئے ۔ واپس آکر ڈاکٹر انور نسیم کچھ اداس سے نظر آئے ،البتہ ڈاکٹر ریاض احمد ریاض کبھی کسی معاملے میں ادھار کے قائل نہیں رہے تو انہوں نے بوجہ فصاحت و بلاغت کثیرہ پنجابی زبان میں کچھ ارشادات ارزاں فرمائے ۔ جن سے اندازہ ہوا کہ لائبریری کو کتب کی کوئی ضرورت نہیں ہے اور یہ کہ ہمیں تو پہلے والی سنبھالنے میں مشکلات پیش آرہی ہیں۔ڈاکٹر انور نسیم نے تجویز کیا کہ اگر ممکن ہو تو کل آپ اور ڈاکٹر ریاض میرے ہاں آ جائیں ،وہاں بیٹھ کر تفصیلی بات چیت کریں گے۔ اگلے روز میں اور ڈاکٹر ریاض احمد ریاض ڈاکٹر انور نسیم کے گھر پہنچ گئے۔ ایک ننھے بچے کی سی خوشی اور جوش کے ساتھ انہوں نے ہمارا استقبال کیا اور گھر کا تعارف کرواتے ہوئے ہمیں اپنی لائبریری میں لے گئے۔ اسلام آباد کے سیکٹر ایف الیون میں ان کے گھر کا نقشہ نیئر علی داد نے بنایا تھا۔بہت بڑا اور مرتب و مزئین گھر تھا۔ گھر کے مرکزی دروازے پر ایک بہت بڑا میورل آویزاں تھا ، جس پر فیض کی معروف نظم مرے دل میرے مسافر رقم تھی۔ گھر کے اوپن بیسمنٹ میں انہوں نے ایک کشادہ لائبریری بنا رکھی تھی ۔اس لائبریری میں انہوں نے ایک علم دوست ادیب اور ایک باعمل سماجی مفکر کے خوابوں کے عین مطابق اپنی تمام تر محبوبائیں جمع کر لی تھیں۔ زندگی میں ایک بات بروقت سمجھ لینی چاہیے اور اگر ممکن ہو تو یاد رکھنی چاہیے کہ باوفا اور بیک وقت دیرپا محبوبہ صرف دل پسند کتاب ہی ہو سکتی ہے۔وہ نظر کے سامنے رہے ،تو اس سے زیادہ مسرت اور کہیں سے کیا ملے گی۔لیکن میں نے اس کار گاہ عشق و محبت کو اس وقت دیکھا جب وہ اجڑ رہی تھی۔اجڑ رہی کہنا شاید مناسب نہ ہو ، یہ کہنا زیادہ مناسب ہے کہ ڈاکٹر نسیم انور اس بساط محبت کو خود لپیٹ رہے تھے ۔انہوں نے اس گھر کا ایک حصہ جاپانی کرائے داروں کو دے دیا تھا۔ ڈاکٹر انور نسیم نے اس کشادہ لائبریری میں مہمانوں کے قیام کے لیے کمرے بھی بنوا رکھے تھے ۔جب ڈاکٹر انور نسیم یہ گھر بنوا رہے تھے ،اس وقت بھی کینیڈا کی شہریت ان کے پاس تھی لیکن شہریت محبت پر غالب نہیں آ سکتی ۔ان کا دل اور دلبر جانی اسی ملک میں رہتے تھے ۔ ڈاکٹر انور نسیم سے کئی ملاقاتیں یاد آ رہی ہیں، پاکستان اکیڈمی آف سائنسز کے وسیع اور سرسبز لان میں سردیوں کی دھوپ تلے کرسیوں پر بیٹھ کر لمبی گپ شپ گپ ، آخر آخر میں واٹس ایپ رابطہ کا ذریعہ بن گیا تھا۔لیکن واٹس ایپ کال میں ان کی آواز کی تازگی اور جوش اداسی کی طرف گریز کرتا سنائی دیتا تھا۔گزشتہ چند ماہ سے رابطہ نہیں ہو پا رہا تھا۔وہ صاحب فراش تھے لیکن آس پاس تیماداری کے لیے کون تھا، یہ معلوم نہیں ہو سکا۔ سچ تو یہ ہے کہ پردیس بہت سارے انعامات اور کامیابیوں کے ساتھ ساتھ ایک تحفہ تنہائی کا بھی ضرور دیتا ہے۔ ڈاکٹر انور نسیم نرے ادیب نہیں تھے ، اس کے عوض وہ ایک کھرے سائنسدان بھی تھے ۔ زندگی اور محبت کے متنوع اور بسااوقات غیر متوقع تجربات نے بھی ان کے اندر قنوطیت کو راہ پانے کی اجازت نہیں دی۔ان کا سائنسی ذہن اور منطقی رجحان انہیں ہمیشہ پر امید اور اسی وجہ سے شاداں و فرحاں رکھتا تھا۔ایک بار انہوں نے بڑی دلچسپ تفصیلات کے ساتھ اپنا ایک حد درجہ جذباتی واقعہ سنایا تھا ،جس کے مآل کو وہ تجربہ قرار دے رہے تھے ۔انہوں نے اپنے اس تجربے سے یہ سبق سیکھا تھا کہ ہر اختتام ایک اچھے آغاز کی تمہید بن سکتا ہے۔میں نے انہیں کثرت سے مسکراتے ہوئے دیکھا، وہ بلند آہنگ گفتگو کرتے اور کھلکھلا کر ہنستے تھے، وہ اکثر ننھے بچوں جیسی ہنسی بھی دان کرتے ،ایسا کرنے والا ظاہر و باطن کا صاف و شفاف کردار رکھنے والا جوانمرد ہی ہو سکتا ہے۔ ڈاکٹر انور نسیم نے بتایا کہ ڈاکٹر صاحب یہاں میں نے کلاسیکی ادب کا ذخیرہ جمع کیا تھا، دنیا کے ہر موضوع پر منتخب کتابیں جمع کی تھیں۔جب میں نے احباب کو بتایا کہ میں اب مستقل طور پر کینیڈا میں مقیم ہونا چاہتا ہوں ،اور سوچ رہا ہوں کہ اپنی لائبریری کا کیا کروں،تو کسی نے بھی مزید تفصیل یا میرا ارادہ دریافت کرنے کی بجائے کتابوں پر ہاتھ صاف کرنے شروع کر دیئے۔اگر ہمارے لوگ واقعتاً اپنے ہاتھ صاف رکھنے کی عادت اپنا لیں ،تو بہت ساری انفرادی اور اجتماعی بیماریوں سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔ میں نے ادب میں مفت کی شراب کا تو پڑھ رکھا تھالیکن مفت کی کتابوں سے بے قابو رغبت میرے لیے ایک نیا تجربہ تھالیکن ڈاکٹر صاحب فیض احمد فیض سے متعلق کتابوں کی طرف میں نے کسی کو آنے کی اجازت نہیں دی۔فیض مجھے بہت ساری وجوہ سے پسند ہے ، مجھے لگتا ہے کہ فیض کی مسافرت اور جلاوطنی کے بہت سارے تجربات اور بہت ساری کیفیات مجھے زیادہ سمجھ آتی ہیں ،یا ایسا میرا خیال ہے ۔ ڈاکٹر انور نسیم ہر دعوی عشق کو سند کے ساتھ پیش کرنے پر یقین رکھتے تھے۔فیض کی دل پسند نظمیں انہوں نے لکڑی کی تختیوں پر لکھوا رکھی تھیں۔ پھر انہوں نے بک ریک سے فیض احمد فیض کے اولین کلیات کا دستخط والا نادر نسخہ نمبر 181 مجھے تحفتاً دیتے ہوئے اس کی اشاعت کے حوالے سے کافی دلچسپ باتیں بتائیں۔کہنے لگے ڈاکٹر صاحب یہ میرا ذاتی نسخہ ہے ،اور اب یہ میں آپ کے حوالے کر رہا ہوں۔سارے سخن ہمارے فیض احمد فیض کا سات سو پچاس کی تعداد میں لندن سے شائع ہونے والا اولین کلیات ہے ۔فیض احمد فیض ان کی ہمہ وقت توجہ ،دلچسپی اور محبت کا عنوان تھا، فیض سے ذاتی تعلق تھا، فیض احمد فیض کے اولین کلیات سارے سخن ہمارے کے پہلے صفحے پر دینہ (جہلم) کی نسبت اور محبت کے اسیر گلزار کی ایک نظم رقم ہے، دینہ ہمارے ڈاکٹر انور نسیم کی محبت اور یاد کا عنوان بھی تھا، ڈاکٹر ریاض احمد ریاض صاحب نے ان کی رحلت کی خبر دیتے ہوے بتایا تھا کہ وہ کچھ عرصے سےبیمار تھے ، دینہ کو کثرت سے یاد کرتے تھے ،کہتے تھے کہ ؛ دینہ سے یہاں (کینیڈا) آ کر مجھے تنہائی نہیں خریدنی چاہیے تھی۔ ایک سائنس دان ہمیشہ ذہنی اور علمی طور پر نت نئے امکانات کا متلاشی و متمنی رہتا ہے ۔وہ تجربات کے نتائج کا تجزیہ کر کے حدود علم میں توسیع کرتا رہتا ہے ۔لیکن بطور ایک حساس انسان کے زندگی کی بساط لپیٹنا اور پھر سے بچھانا کوئی کھیل نہیں ہوتا ۔ ڈاکٹر انور نسیم کے احوال باور کراتے ہیں کہ تنہائی کا علاج مکان نہیں ، مکین ہوا کرتے ہیں۔اپنے پیہم تجربات کو جاری رکھتے ہوئے ڈاکٹر انور نسیم جیسا حد درجہ زندہ دانشور اور دانش جو ، حیات کے اگلے مرحلے کی طرف روانہ ہو گیا، حق مغفرت کرے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button