ہفتہ وار کالمز

احتساب جرنیلوں کا بھی ہونا چاہئے !

کل پرسوں میں کسی پروگرام میں کسی نے مجھ سے سوال کیا کہ آپ تو چین میں رہے ہیں۔ آپ بتائیے کہ چین کی عدیم المثال ترقی کا راز کیا ہے؟ میں نے جواب میں کہا کہ چین اپنے دس سالہ خلفشار، جسے ماؤزے تنگ نےثقافتی انقلاب کا نام دیا تھا، کے بھنور سے جب ستر کے عشرے کے درمیان نکلا تو اسے، قوم کی خوش نصیبی سے ایک ایسا عظیم رہنما مل گیا جو قد کا تو بہت چھوٹا تھا لیکن قامت کے اعتبار سے بہت بلند و بالا تھا۔ ڈینگ شیاؤ پنگ نے قوم کی قیادت کی باگ ڈور سنبھلاتے ہوئے اپنی قوم کو ایک نصیحت کی کہ ہر رات کو سونے سے پہلے ہر فرد خود کا احتساب کرے اور اپنی ذات سے سوال کرے کہ اس نے دن بھر میں اپنی قوم اور ملک کیلئے کیا اچھا کام کیا ہے اور کیا غلط! خود احتسابی کے اس عمل نے چینی قوم کو پارس بنادیا اور اس کا نتیجہ آج دنیا دیکھ رہی ہے کہ چین نے گذشتہ چالیس برس میں کیا حیرت انگیز ترقی کی ہے کہ آج وہ سامراجی تسلط کو چیلنج کر رہا ہے اور دنیا کی سب سے مضبوط اقتصادی طاقت بن رہا ہے جس کی معیشت کی ترقی دنیا بھر سے اپنا لوہا منوا رہی ہے، سوائے سامراجی مغربی طاقتوں کے جن سے چین کی ترقی برداشت نہیں ہورہی اور وہ کھسیانی بلیوں کی طرح ادھر ادھر کھمبے نوچ رہی ہیں اور چین کو مختلف حیلے بہانوں سے مطعون کرنے کی ناکام کوشش کر رہی ہیں۔
چین نے تو بربادی اور انتشار کے بعد جو کروٹ لی اس نے اسے بامِ عروج پہ پہنچادیا لیکن ہم نے اور ہماری قوم نے یوں لگتا ہے کہ انتشار کو ہی اپنا اوڑھنا بچھونا بنالیا ہے جس کا سب سے بڑا سبب یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں نہ فرد کی خود احتسابی کا عمل ہے اور نہ ہی ہمارے ریاستی نظام میں احتساب کا کوئی وجود ہے! احتساب ہمارے یہاں یوں نہیں ہے کہ انصاف اور عدل کا ہمارے نظام میں کہیں دور دور نشان نہیں اور جس معاشرے میں عدل نہیں ہوتا وہاں ظلم ہوتا ہے اور وہ جو میرے مولا علی کا قول ہے کہ کفر کی حکومت چل سکتی ہے لیکن ظلم کی حکومت نہیں رہ سکتی!
ہمارے ہاں انصاف یوں نہیں ہوتا کہ ہماری اشرافیہ اپنے آپ کو خدائی مخلوق سمجھتی ہے۔ ہم یہودیوں کو برا سمجھتے ہیں کہ ان کا زعم یہ ہے کہ وہ اللہ کے محبوب اور منتخب بندے ہیں اور اسی لئے وہ اپنے سوا ہر قوم کو اپنے سے کمتر سمجھتے ہیں اور فلسطینیوں کو تو وہ انسان ہی نہیں سمجھتے! ہماری اشرافیہ کے ذہنوں میں بھی یہ خناس ہے کہ وہ عام پاکستانی شہریوں سے کہیں بالاترکوئی ایسی مخلوق ہیں کہ جسے خدا کی طرف سے ہر اذن ملا ہوا ہے، ہر چھوٹ ملی ہوئی ہے کہ وہ اپنے ملک اور قوم کے ساتھ جو چاہیں سلوک کریں ان سے نہ کوئی باز پرس ہوگی اور نہ ہی ملک کے آئین اور قانون کے وہ پابند ہیں اسلئے کہ قانون تو عام شہری کیلئے ہے وہ اس قانون کے پابند نہیں ہیں!
اور اشرافیہ سے بھی الگ ایک اور مخلوق ہے اور وہ ہے ہمارے یزیدی اور فرعون صفت جرنیلوں کی وہ مافیا جس نے پاکستان کو آزادی کے قائدین کی قدرتی اور سازشی اموات کے بعد سے ایسا یرغمال بنایا ہوا ہے جیسے عفریت کسی کو چمٹ جائے اور زندگی کی آخری سانس تک اس کا پیچھا نہ چھوڑے!
یہ وہ جرنیل ہیں جو پاکستان کو اپنی موروثی جاگیر سمجھتے ہیں اور ان کا رویہ ایک آزاد قوم کے ساتھ اس سے بھی کہیں بدتر ہےجو ایسٹ انڈیا کمپنی ہندوستانیوں کو اپنا غلام تصور کرتے ہوئے اپنے مقبوضہ ہند کے باشندوں کے ساتھ روا رکھا کرتی تھی! پاکستان کے سب سے بڑے دشمن یہ جرنیل ہیں جنہوں نے قائد کے پاکستان کو دولخت کیا لیکن آج تک پاکستان کی دردناک تاریخ میں نہ کسی جرنیل کا احتساب ہوا ، نہ اس پر مقدمہ چلایا گیا، نہ ہی وہ قید و بند کی ان صعوبتوں سے گذرا جن سے فی زمانہ پاکستان کا سب سے مقبول اور ہردلعزیز لیڈر۔ عمران خان دوچارہے۔ پاکستان کی تاریخ میں آج تک ایک وزیرِ اعظم کو دن دہاڑے قتل کیا گیا، ایک وزیرِ اعظم کو پھانسی کے تختہ پر لٹکایا گیا، ایک اور وزیرِ اعظم کو وہیں جہاں پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کو شہیدکیا گیا تھا وہیں ہزاروں کے مجمع میں قتل کیا گیا اور آج پاکستان کا مقبول ترین لیڈر اور سابق وزیرِ اعظم، عمران خان جو قوم کی آنکھوں کا تارہ ہے دو برس سے انہیں یزیدی جرنیلوں کی عقوبت میں گرفتار ہے اور کوئی جرم کئے بغیر قید و بند کی وہ صعوبتیں برداشت کر رہا ہے جو ایک عام قیدی بھی نہیں جھیلتا۔
یوں لگتا ہے کہ یہ ملک بنا ہی صرف اس لئے تھا کہ اس پر، بقول مرحومہ عاصمہ جہانگیر کے، انٹر پاس ڈفر حکومت کریں اور قوم ان کی غلام بنی رہے۔خود احتسابی جسے جدید چین کے معمار نے ترقی کا سنگِ بنیاد قرار دیا تھا اس کا پاکستان کی یزیدی عسکری قیادت میں کوئی تصور ہی نہیں ہے۔ اور انصاف اور عدل صرف سیاستدانوں کیلئے مخصوص ہے، ان سیاسی رہنماؤں کیلئے جو ان یزیدیوں کی غلامی قبول کرنے کیلئے تیار نہیں ہوتےورنہ ان کا عام طریقہ یہ ہے کہ یہ ان بے ضمیر سیاسی گماشتوں کے ذریعہ قوم کو غلام بنائے رکھنا پسند کرتے ہیں جو ان کے اشاروں پہ ناچیں، جو ان ہی طرح گلےگلے تک کرپشن میں ملوث ہوں اور ان کی سہولت کاری کو اپنی بقا کا ضامن سمجھیں!
خود احتسابی تو بہت دور کی بات ہے لیکن پاکستان کی تاریخ میں تو عدالتوں اور عدالتی کمیشنوں کے ذریعہ ان عسکری طالع آزماؤں کا احتساب کرنے کی ہر کوشش کو اس یزیدی مافیا نے ناکام بنادیا۔ سقوطِ مشرقی پاکستان کے بعد جسٹس حمود الرحمان کی سربراہی میں جو کمیشن قائم کیا گیا تھا اس کی رپورٹ آج تک یوں عام نہیں ہونی دی گئی کہ اس میں جرنیلوں کا نام لیکر یہ سفارش کی گئی تھی کہ ان پر عدالتوں میں مقدمہ چلایا جائے تاکہ قوم ان کے سیاہ کرتوت کے متعلق جان سکے اور ان کے جرائم کا عدالتی احتساب ہوجائے۔ لیکن جرنیل جو اپنے آپ کو ہر احتساب اور قانون سے بالا سمجھتے ہیں انہوں نے اس رپورٹ تک کو پبلک نہیں ہونے دیا، عدالتوں میں مقدمہ تو بہت دور کی بات ہے !
ابھی چند دن پہلے ہی سوشل میڈیا میں ایک طویل رپورٹ الم نشرح ہوئی تھی جس سے مرحومہ عاصمہ جیلانی کے اس بیان کو تقویت ملتی ہے، جس پر ان کی حیات میں عسکری حلقوں اور ان کے گماشتوں کی طرف سے ان پر بہت تنقید کی گئی تھی ، کہ جب ان جرنیلوں کی کرپشن کی تفصیل قوم کے سامنے آئے گی تو سیاستدانوں کی کرپشن تو بہت ہلکی معلوم ہوگی۔ رپورٹ چشم کشا ہے۔ پاکستان کی فوج دنیا کی واحد فوج ہے جس کی ملکی معیشت کے اندر ہی ایک بہت بڑی معاشی سلطنت قائم ہے۔ جس پر مرحوم پنڈت نہرو کا وہ تاریخی قول یاد آگیا کہ دنیا میں ہر ملک کی ایک فوج ہوتی ہے لیکن پاکستان میں فوج کیلئے پورا ملک ہے! پاکستان کی فوج کا حصہ ملک کی معیشت میں کم ہو بیش ساٹھ (60 ) فیصد ہے۔ اس فوجی معاشی
سلطنت کے چار ستون ہیں:
1۔ آرمی ویلفیئر ٹرسٹ
2۔ فوجی فاؤنڈیشن
3۔ شاہین فاؤنڈیشن
4۔ بحریہ فاؤنڈیشن
اور ان کے تحت درجنوں ادارے ملک کی معیشت پر اپنے پنجے گاڑھے ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ کم و بیش 60 ہزار سول عہدوں پر فوج کے حاضر اور ریٹائرڈ افسر براجمان ہیں۔ ان اداروں میں ایک ہزار چھہ سو (1600) کارپوریشنیں شامل ہیں۔ فوج کے تحت چلنے والی صنعتیں اور ادارے ملک کے خزانے میں کوئی ٹیکس ادا نہیں کرتے اور ان اداروں اور کاروبار میں جو نقصان ہوتا ہے وہ بھی ملکی خزانے سے پورا کیا جاتا ہے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ ریٹائرڈ فوجیوں کی پنشنیں سول بجٹ سے ادا کی جاتی ہیں۔تو یہ جرنیل، قصہ مختصر، قوم کے جسد سے جونکوں کی طرح چمٹے ہوئے ہیں اور ملک و قوم کا خون چوس رہے ہیں لیکن ان کی ہوسِ زر ایسی ہے کہ اس کی پیاس بجھتی نہیں ہے۔ پاکستان میں عدل و انصاف کا دور دورہ ہوگا نہ جمہوریت پنپ سکے گی جب تک ان یزیدی، ملک و قوم دشمن، جرنیلوں کا احتساب نہیں ہوگا۔ ہمارے پڑوسی ممالک کی ترقی اور کامیابی کا راز یہی ہے کہ انہوں نے ملت فروش جرنیلوں کا سب سے پہلے احتساب کیا۔
چین کے تاریخی انقلاب کے بانی اور قائد، ماؤزے تنگ نے عوامی جمہوریہ چین کی تاسیس کے بعد سب سے پہلا کام یہ کیا تھا کہ ان جرنیلوں کا احتساب کیا تھا جنہوں نے چین دشمن چیانگ کائی شیک کی استبدادی حکومت کا ساتھ دیا تھا۔ اسی طرح بیسویں صدی کے دوسرے بڑے کامیاب انقلاب، ایران کے بانی، امام خمینی نے شاہ کے وفادار درجنوں جرنیلوں کو تختہء دار پہ پہنچایا تھا یہ کہہ کر کہ یہ عوام دشمن ہیں اور قوم کو ان سے نجات ملنی چاہئے! پاکستان کے یزیدی جرنیلوں کا جو تہذیبی اور اخلاقی زوال ہوا ہے اس کا نتیجہ آج دنیا کے سامنے ہے۔ ان یزیدیوں نے 8 فروری 2024ء کے عام انتخابات پر، جس میں پاکستانی عوام کی بھاری اکثریت نے عمران خان کے حق میں ووٹ دیا تھا اور اس کی قیادت پر اعتماد کیا تھا، شبخون مار کے جن اپنے ہی جیسے بد عنوان اور کرپٹ سیاسی گماشتوں کو ملک پر مسلط کیا ہے ان کے اطوار یہ ہیں کہ وہ ان ہی یزیدی جرنیلوں کی سرپرستی میں ملک کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں اور ان کی کوئی باز پرس کرنے والا نہیں ہے۔
ملک کا سب سے بڑا صوبہ، پنجاب، بلاخیز سیلاب کی زد میں ہے لیکن جس کم ذات عورت کو جرنیلوں کی آشیرواد سے اس صوبے پر مسلط کیا گیا ہے وہ جاپان کے سیر سپاٹے کو مقدم سمجھتی ہے اور پورا جہاز بھر کے اپنے ٹبر کو وہاں کی سیر کرانے لے گئی ہے اور واپسی میں ہانگ کانگ کا قیام بھی لازمی تھا کہ وہاں محترمہ اور ان کے حواریوں کو شاپنگ کرنی تھی۔ جو نجی ادارے سیلاب زدگان کی مدد کرنا چاہ رہے تھے ان کے ساتھ یہ شرط لگائی گئی کہ وہ اگر امدادی سامان پر مریم نواز کی تصویر لگانے پر آمادہ ہوں تو ہی انہیں کام کرنے دیا جائے گا! الامان و الحفیظ۔ ! نرگیسیت اور خود پسندی میں تو یہ عورت امریکی صدر کو بھی پیچھے چھوڑ گئی ! پاکستان کن کم ظرفوں اوربد ذاتوں کے چنگل میں پھنس گیا ہے ؟

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button