پاکستان کی رگوں کا زہر: جج-جرنیل گٹھ جوڑ !

پاکستان کی عدالتِ عالیہ کے ایک معزز جج اور پاکستان کے نامی قانون داں، جسٹس اطہر من اللہ کے ایک بیان نے پاکستان کے دانشور طبقہ اور سوشل میڈیا میں ان دنوں جیسے آگ لگادی ہے۔ اطہر من اللہ کے حالیہ بیان میں، جو انہوں نے تین دن پہلے کراچی بار ایسوسی ایشن سے خطاب کرتے ہوئے دیا، کس بلا کا زور تھا اس کا اندازہ اس سے ہوجانا چاہئے کہ پاکستان کے نیوز میڈیا کا جو اصل دھارا ہے، یا آج کی زبان میں جسے مین اسٹریم کہا جاتا ہے وہ پاکستان پر نظر رکھنے والے مبصرین واقف ہیں کہ ایک عرصہ سے عسکری طالع آزماؤں کے عتاب میں ہے اور ہر خبر کا حوالہ دینے سے پہلے یا خبر پر تبصرہ کرنے سے پہلے صحافیوں اور اخبارات یا نیوز چیلنز کے مدیران کو جی-ایچ- کیو کی کمیں گاہوں میں بیٹھے ہوئے فرعونوں کی طرف دیکھنا پڑتا ہے کہ ان کا منشاء کیا ہے، وہ معتوب مین اسٹریم بھی اس بیان کو شائع کرنے اور اس پر تبصرہ کرنے پر مجبور ہوگیا!
اصل طاقت سچائی میں ہوتی ہے جو ہر بادِ مخالف کا رخ پھیرنے کی طاقت رکھتی ہے۔ بقول حکیم
الامت، حضرتِ ، جن کا ذکر بھی طالع آزماؤں کی طبعِ خبیث پر بار گذرتا ہے، پر نہیں طاقتِ پرواز
مگر رکھتی ہے۔تو اطہر من اللہ کے بیان کی سچائی اس کو الم نشرح کرنے کا سبب بن گئی۔ انہوں نے کوئی انوکھی بات نہیں کی بس اتنا ہوا کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار، عدالتِ عالیہ کی تاریخ میں پہلی بار، کسی جج میں اتنی اخلاقی جرا ٔت پیدا ہوئی کہ اس نے برملا یہ اعتراف کیا کہ ہر عسکری طالع آزما کے ہاتھ مضبوط کرنے میں اور اس کے غیر آئینی اور جمہور دشمن اقدام کو قانون کا لبادہ پہنانے اور اسے قانونی جواز فراہم کرنے میں عدالتِ عالیہ ہمیشہ پیش پیش رہی ہے اور اس جج-جرنیل گٹھ جوڑ نے پاکستان میں وہ تباہی پھیلائی ہے جس کی فصل پاکستان برسوں بلکہ عشروں سے کاٹتا آیا ہے اور حالیہ برسوں میں اس عمل نے اپنے وہ گھناؤنے روپ دکھائے ہیں جو اس بدنصیب قوم نے پہلے کبھی نہیں دیکھے تھے! پاکستان کی بربادی پر جب مستقبل کا مورخ اپنی رائے دے گا تو وہ یہ سچائی بلا کم و کاست بیان کردے گا کہ قائد کے پاکستان کی جڑیں کھودنے میں دو طاقتیں یا سلطنت کے ادارے ہمیشہ پیش پیش رہے: جج اور جرنیل۔ اور یہ بدبختی اس ملک کا نصیب بنی جسے بنانے والے بابائے قوم کا نظریہ بہت ہی سیدھا سادھا اور غیر مبہم تھا۔
قائدِ اعظم اپنے پاکستان کو ایسی فلاحی ریاست بنانا چاہتے تھے جہاں قانون اور آئین کی عملداری ہو اس لئے کہ ریاست کے ہر فرد کے حقوق کی ضمانت صرف اور صرف وہی معاشرہ فراہم کرسکتا ہے جس میں عدل اور مساوات ہو اور یہ مساوات کا عمل سب سے زیادہ انصاف کی فراہمی میں نظر آئے جب عدالت امیر اور فقیر، طاقتور اور کمزور کو ایک ہی نظر سے دیکھے اور انصاف کی کسوٹی پر ہر انسان کو برابر رکھ کرپرکھا جائے۔ لیکن پاکستان کی تاریخ پر عسکری طالع آزماؤں اور منافق، ضمیر فروش ججوں کی نحوست کا سایہ بابائے قوم کی رحلت اور ان کے دستِ راست، قائدِ ملت لیاقت علی خان کے سازشی قتل کے بعد، ایسا پڑا ایسا پڑا کہ آج تک آسیب کی طرح اس بدقسمت اور بداعمال قوم کی تقدیر کے ساتھ چمٹا ہوا ہے اور پاکستان کی بربادی اور تباہی میں اس شیطانی گٹھ جوڑ نے ہمیشہ کلیدی کردار ادا کیا ہے ! جسٹس منیر سے لیکر جسٹس فائز عیسیٰ جیسے ضمیر فروش ججوں نے ہمیشہ اپنے وقت کے طالع آزما کا ساتھ دیا اور اپنے عمل سے جمہوریت کی جڑیں کھودیں اور یہ گھناؤنا کام کرتے ہوئے ان ضمیر فروش ججوں نے کسی شرمندگی، کسی تاسف کا اظہار کرنا تو کجا ان منافقوں کے منہ سے ایک حرف نہیں نکلا قانون اور انصاف کی حمایت میں۔ حمایت انہوں نے کی تو صرف اور صرف طالع آزماؤں کی، فسطائیت کی اور جنگل کے قانون کی جہاں صرف طاقتور کا فرمان ہی قانون ہوتا ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے صاف اور غیر مبہم الفاظ میں یہ کہا، اور ان کی صاف گوئی اور جسارت کی داد دینی پڑتی ہے، کہ ملک میں جس ہائبرڈ یا آسان لفظوں میں مخلوط نظام کا ڈھنڈورا زور شور سے گذشتہ تین برس میں، عمران خان کی حکومت کو عسکری طالع آزماؤں کی سازش کے ذریعہ گرانے کے بعد سے، پیٹا جاتا رہا ہے وہ در اصل جمہوریت کی نفی اور فسطائیت کی تائید کے مترادف ہے! ان کے دوٹوک بیان سے پہلے کٹھ پتلی حکومت کا جو وہ ایک بھانڈ ہے، برائے نام وزیرِ دفاع خواجہ آصف، اس کا ایک بیان معتوب و مظلوم نیوز میڈیا میں بہت دن تک چلایا گیا تھا جس میں اس مسخرے نے مخلوط نظام کے دفاع میں زمین آسمان کے قلابے ملائے تھے اور ہرزہ سرائی کی تھی کہ یہ منافقت کا نظام (منافقت کا نظام تو ہم کہہ رہے ہیں ۔ اس بھانڈ آصف کی کیا مجال کہ وہ اپنے عسکری آقاؤں کو جس سے تکلیف ہو وہ بیان دے سکے ) ملک کو پائیداری کی سمت لیجارہا ہے ! ظاہر ہے کہ کٹھ پتلیاں تو وہی کہیں گی جو ان کے وردی پوش یزیدی آقا ان سےکہلوانا چاہتے ہیں۔ شہباز شریف جیسے چور کو تو یہ تمیز بھی نہیں کہ غیر ممالک میں دورہ کرتے ہوئے کسی سرکاری تقریب میں اس رنگ کا سوٹ نہیں پہناجاتا جو کسی گھریلو تقریب میں پہننے کا رواج ہے۔ اس نے بیجنگ میں چین کی دفاعی تیاریوں کی جو پریڈ منعقد کی گئی تھی اس میں جو آسمانی رنگ کا سوٹ زیبِ تن کیا اسے دیکھ کر ہماری نظریں شرم سے جھک گئیں کہ کس جاہل کو پاکستان کی نمائندگی کا شرف بخشا ہے جسے کپڑے پہننے کی بھی تمیز نہیں ہے !
پاکستان ان دنوں قیامت خیز سیلاب کی آماجگاہ بنا ہوا ہے جس کیلئے حکومت نے کوئی تیاری نہیں کی تھی، کوئی منصوبہ نہیں تھا ان عسکری طالع آزماؤں اور ان کے چھٹ بھئیے سیاسی گماشتوں کے پاس، اس کے باوجود کہ صرف تین برس پہلے، 2022ء میں بھی ایسا ہی سیلاب پاکستان جھیل چکا تھا جس میں معیشت کا جو نقصان ہوا اور ملک کے بنیادی اقتصادی ڈھانچہ کو جو مہلک زک پہنچی اس کا تخمینہ تیس ارب ڈالر لگایا گیا تھا! پنجاب کی حکومت ایک بلیک میلر ملکہ کے تصرف میں ہے جسے خود نمائی کا وہ جنون ہے کہ جس امدادی سامان پر مریم نواز کی تصویر نہ ہو اس کی تشہیر نہ ہو، اس سامان کو سیلاب زدگان تک نہیں پہنچایا جاتا۔ یہ ہیں وہ سیاسی گماشتے جو اپنے یزیدی آقاؤں کی خوشنودی کیلئے پاکستان
کے کڑوڑوں سیلاب زدگان کی زندگیوں کے ساتھ جوا کھیل رہے ہیں۔ اور رہی عسکری طالع آزما، خود ساختہ فیلڈ مارشل عاصم منیر کی بات، تو اس کی زندگی کا صرف ایک مقصد ہے اور وہ عمران دشمنی ہے!
اس دشمنی میں یہ طالع آزما پچیس کڑوڑ پاکستانیوں کے جمہوری حقوق اور ان کے مستقبل کے ساتھ کھلواڑ کر رہا ہے اور اس یقین کے ساتھ یہ گھناؤنا کھیل جاری اور ساری ہے کہ پاکستان کی عدلیہ مکمل طور پہ یزیدی جرنیلوں کے تابع فرمان ہے اور ہر غیر آئینی اور غیر قانونی اقدام پر عدالت کی مہر لگنے میں لمحوں کی دیر بھی نہیں لگے گی ! ملک کے رگ و پے کو مفلوج کرنے ولا فسطائیت کا یہ زہر اب بیرون ملک بھی اپنا رنگ دکھا رہا ہے۔ ہم برسوں سے فی سبیل اللہ کیلیفورنیا سے نکلنے والے ایک انگریزی زبان کے پاکستانی اخبار کیلئے لکھتےآئے ہیں۔ ہمیں حیرت ہوئی کہ ہمارا تازہ ترین کالم ، جو ہم نے گذشتہ ہفتہ ہی تحریر کیا تھا اس اخبار کی تازہ اشاعت میں شامل نہیں کیا گیا۔ استفسار کرنے پر اخبار کے مدیر نے بہت معصومی سے بتایا کہ اخبار کا مالکان کو ہم سے یہ شکایت ہے کہ ہم پاکستان پر قابض عسکری طالع آزما کوبونا پارٹ کیوں کہتے ہیں۔ ہم نے جواب میں کہا کہ میاں، عسکری طالع آزماؤں
کیلئے جدید فرہنگ اور لغت میں یہی اصطلاح استعمال ہوتی ہے! اصل بھید یہ کھلا کہ مالکان کے ضمیر کو پاکستان کےحساس ادارے نے خرید لیا ہے۔ فسطائی کلچر کا یہی آزمودہ ہتھیار ہے کہ جس کو اپنا مخالف یا ناقد سمجھو اسے زر سے خرید لو یا اگر وہ بکنے کو تیار نہ ہو تو اسے خاموش کردو۔
تو ہمیں اس انگریزی اخبار کیلئے خاموش کردیا گیا ہے کیونکہ اخبار کے مالکان کے برعکس ہم اپنے قلم کا سودا کرنے کیلئے نہ آج تیار ہیں نہ کبھی ہوسکتے ہیں۔ اس صورتِ حال میں ہمیں وہ قدیم لیکن معروف شعر یاد آگیا :
؎اپنے بھی خفا مجھ سے ہیں بیگانے بھی ناخوش
میں زہرِ ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند!
تو ہم نے بیچارے، مہر بہ لب، مدیر کو اپنا برسوں پرانا یہ شعر سنایا اور کہا کہ برادر، ہم اپنے اس شعر کی تفسیر نہیں بننا چاہتے:
شب و روز عصمتِ فن سرِ عام بیچتی ہیں
یہ طوائفیں قلم کی ، یہ ادب کی بیسوائیں!
صحافت کو تجارت اور دھندا بنانے والےصفِ اول کے منافق ہوتے ہیں جنہیں یہ احساس بھی نہیں ہوتا کہ قلم اور آزاد صحافت کا سودا کرکے وہ کتنے بڑے جرم کا ارتکاب کر رہے ہیں!