ہفتہ وار کالمز

پرائی آگ میں جل کر۔۔۔۔

پاکستان کے معروف اخبار ڈان کے 8 مارچ کے شمارہ میں ایک کارٹون شائع ہوا ہے۔ ویسے تو ڈان اخبار ہر روز ہی حالات کے پس منظر میں کارٹون شائع کرتا ہے لیکن یہ کارٹون خاص طور پہ دلچسپ ہے اور حقیقتِ حال کی منہ بولتی تصویر بھی ہے جس میں دکھایا گیا ہے کہ انکل سام جو پاکستان کی اشرافیہ کے نزدیک سب سے بڑے اور معتبر مربی ہیں، پاکستان کے پیچھے کھڑے ہوئے ہیں ۔ ان کے ہاتھ میں بھری ہوئی بندوق ہے جسے وہ پاکستان کے شانے پر رکھے ہوئے کھڑے ہیں اور نشانہ لے رہے ہیں۔ کارٹون کے اوپر یہ عبارت لکھی ہوئی ہے جو انکل کی وزارتِ خارجہ کی طرف سے جاری کردہ بیان ہے کہ امریکہ اور پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف مفادات میں بڑی یگانگت ہے! ستم ظریفی، یا کہہ لیجئے کہ قدرت کی طرف سے پاکستان کے عوام کیلئے بدبختی کا نوشتہ، یہ ہے کہ ہمارے پاکستان پر قابض جو نام نہاد اشراف کا ٹولہ مسلط ہے، اس کیلئے انکل سام کیلئے آلہء کار بننے سے بڑھ کر کوئی اعزاز ہی نہیں ہے! یہ وہ اشرافیہ ہے جس کے نزدیک پاکستان کی عالمی برادری میں سرخروئی اور نیک نامی تب ہی ہوتی ہے جب وہ انکل سام کی کوئی خدمت بجالائے !
گذشتہ ہفتے امریکہ کے نئے صدر ٹرمپ نے، جن کی شطرنجی چالوں نے ایک دنیا میں تہلکہ مچایا ہوا ہے اور جن کا نزلہ اپنے پڑوسیوں کو سب سے زیادہ متاثر کر رہا ہے جن میں ہمارا وطنِ ثانی، کینیڈا سب سے بڑا شکار ہے، امریکی کانگریس کے دونوں ایوانوں کے مشترکہ اجلاس سے خطاب فرمایا جسے امریکی ریاستی نظام میں اسٹیٹ آف افیئرز، یعنی حالات کی نہج، کے عنوان سے خصوصی مقام اور اہمیت حاصل ہے۔ اپنے اس خطاب میں صدر ٹرمپ نے بہت سی اور باتوں کے علاوہ ایک تو یہ کہا ہے کہ وہ اس اسلحہ کو واپس لانا چاہتے ہیں جو 2021ء کی اگست کے مہینہ میں امریکی افواج افغانستان سے ناکام و نامراد پسپائی کے وقت وہاں چھوڑ آئی تھیں اور جس کا ٹرمپ صاحب کے خیال میں کوئی سات ارب ڈالر کی مالیت کا تخمینہ ہے۔ صدر ٹرمپ کیونکہ بنیادی طور پہ ایک کاروباری انسان ہیں اسلئے وہ ہر چیز کی قیمت ضرور جانتے ہیں اگرچہ اس کی اہمیت اور افادیت کا انہیں کم یا بالکل ہی کوئی اندازہ نہ ہو!
ایک اور بات انہوں نے وہی پرانی رٹ لگاتے ہوئے، جسے سن سن کر مہذب دنیا کے کان پک گئے ہیں، دہشت گردی کی بات کی اور پاکستان کی حکومت کا شکریہ ادا کیا کہ جس نے ایک مطلوبہ افغان دہشت گرد کو پکڑنے میں امریکہ کی مدد کی تھی! صدر ٹرمپ نے پاکستان کا شکریہ کیا ادا کیا کہ جیسے پاکستان پر مسلط اشرافیہ کی تو عید ہوگئی، نہیں، اس سے بھی بڑھ کر یوں لگا جیسے ٹرمپ نے ان مہروں اور کٹھ پتلیوں کو دنیا میں ہی اپنی طرف سے جنت کی بشارت دے دی ہو! وہ بغلیں بجائی ہیں کٹھ پتلی حکومت کے کارندوں نے کہ الامان و الحفیظ1 صدر ٹرمپ اپنے کانگریس کے خطاب میں پاکستانی اشرافیہ کا شکر ادا کریں یہ تو ایسے ہی ہے جیسے شکر خورے کو اس کی نیت سے بڑھ کر شکر مل جائے۔ پھولے نہیں سمارہے، شطرنج کی بساط کے کم اوقات اور بے وقعت مہرے!
اسی زعم بلکہ اسی نشہ میں اشرافیہ کا وہ مہرہ جسے دانشوری کا بھی دعوی ہے اور جس کی اصل شہرت یہ ہے کہ اپنے آبائی شہر نارووال کے شہریوں کے شناختی کارڈ اس بے غیرت نے اپنے کرائے کے غنڈوں کی مدد سے چوری کروالئے تھے لیکن پچھلے برس کے عام انتخابات میں اس دھاندلی کے باوجود یہ چھٹ بھیا، احسن اقبال نامی، بری طرح اپنے مقابل تحریکِ انصاف کے امیدوار سے پٹ گیا تھا لیکن پھر اس مہرے کو بھی ہمارے جمہور دشمن جرنیلوں کی سرپرستی میں عوام کے مینڈیٹ پر جو شبخون مارا گیا تھا اس کے نتیجہ میں یہ بدبخت بھی جیتا ہوا قرار دے دیا گیا اور چور حکومت میں وزیر بھی بن گیا اور وزیر بھی منصوبہ بندی کا ! تو یہ چھٹ بھیا، احسان اقبال اسی نشہء طاقت سے مغلوب آکسفورڈ یونین کے اس اجلاس میں شرکت کیلئے چلا گیا جہاں موضوعِ بحث یہ تھا کہ دنیا میں جمہوریت کے خلاف فسطائیت کا ظلم سر اٹھا رہا ہے جو دنیا بھر کیلئے ایک لمحہء فکریہ ہے !
یہ چھٹ بھیا، احسن اقبال، جمہوریت کے خلاف بولنے والوں میں شریک تھا لیکن اسے یہ اندازہ نہیں تھا کہ دنیا کی معروف ترین جامعہء آکسفورڈ کے طالبعلم عمران خان کی طرح، جسے یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ اس وقیع جامعہ سے فارغ التحصیل ہے، بیباک اور حق کے پاسدار ہوتے ہیں! تو ہوا یہ کہ وہاں ایک پاکستانی نوجوان طالبعلم نے اس رذیل کی حقیقت کھلے لفظوں میں بلا کم و کاست بیان کردی اور سامعین کی بھرپور تالیوں کے شور میں اس نڈر اور بہادر نوجوان نے کہا کہ یہ پاکستانی وزیر جو بے شرمی سے فسطائیت کا وکیل بنا ہوا ہے اس کی وکالت کا سبب یہ ہے کہ یہ اس حکومت کا کارندہ ہے جس نے کل ملاکے سترہ (17) نشستیں پچھلے برس کے انتخاب میں جیتی تھیں، 272 کے ایوان میں لیکن یہ حکومت میں بیٹھا ہے اسلئے کہ اس کے سرپرست وہ عسکری طالع آزما ہیں جو عوام کے بنیادی حق پر ڈاکہ ڈالنا اپنا حق سمجھتے ہیں! احسن اقبال اتنا بے شرم اور بے غیرت ہے کہ اس پر بھی دانت نکالے ہوئے کھسیانی ہنسی کے ساتھ وہیں بیٹھا رہا۔ غیرت کی ایک بوند بھی اس میں ہوتی تو وہیں شرم سے ڈوب مرتا! احسن اقبال کی آکسفورڈ یاترا تو بے سود رہی لیکن اس کے جو عسکری طاقتور سرپرست ہیں، اور جن کی نظرِ کرم سے یہ چھٹ بھیا وزیر بنا ہوا ہے اور دنیا بھر میں اپنی روسیاہی کے باوجود سرکاری خزانے کے بل بوتے پر سیر سپاٹے کرتا پھر رہا ہے، ان کے ہاں تو سنا ہے کہ خوشی کے شادیانے بج رہے ہیں اور اس زور شور سے بج رہے ہیں کہ راولپنڈی سے اسلام آباد تک جشن کا سماں ہے !
شادیانے یوں بج رہے ہیں کہ یزید عاصم منیر اور دیگر وردی پوش طالع آزماؤں کا خیال ہے کہ انکل سام کی نظرِ کرم ایکبار پھر جی ایچ کیو کی جانب ہونے کی امید پیدا ہوگئی ہے! وردی پوش، جمہور دشمن، ملت فروش ٹولہ کا گمان یہ ہے کہ انکل سام نے ایک تو دہشت گردی کا نعرہء مستانہ پھر سے گھسے ہوئے ریکارڈ کی طرح لگایا ہے لیکن طالع آزماؤں کی خوشی اس سے زیادہ اس بات سے ہے کہ چچا سام یہ کام ان کی مدد اور اشتراک سے کرنا چاہ رہے ہیں۔ اگر یہ نہ ہوتا تو صدر ٹرمپ کانگریس سے اپنے خطاب میں پاکستان کا یوں کھل کے شکریہ کیوں ادا کرتے ؟ تو اندھے کو کیا چاہئے ؟ دو آنکھیں اور پاکستانی طالع آزماؤں کو کامل امید ہے کہ چچا سام کی نظر عنایت اگر ان کی طرف اٹھ گئی تو پھر سے ان کے وارے نیارے ہوجائینگے اور امریکہ سے پھر ڈالروں کی رسد آنی شروع ہوجائے گی! گویا طالع آزماؤں کو دنیا میں ہی جنت مل جائے گی۔ اگلی دنیا کس نے دیکھی ہے۔ جن کیلئے اس دنیا کی چمک دمک ہی سب کچھ ہو انہیں اگر یہیں چچا سام وہ سب کچھ دے دیں جس کا اللہ نے اپنے بندوں سے وعدہ کیا ہے تو پھر انکل ہی طالع آزماؤں کے خدا ہیں، مائی باپ ہیں، پالن ہار ہیں، رزاق ہیں وغیرہ وغیرہ!
پاکستان کی بدقسمتی کی تاریخ میں جو سب سے نمایاں پہلو ہے وہ یہی ہے کہ ہمارے بدمست، طاقت کے نشہ سے مغلوب، جرنیل ملک و قوم کی غیرت اور حمیت کا سودا کرتے آئے ہیں اور ستم بالائے ستم یہ حقیقت ہے کہ اس عالمی طاقت کے ساتھ کرتے آئے ہیں جس نے پاکستان کو ہمیشہ ایک ٹشو پیپر، یا عام زبان میں ناک پونچھنے والے کلینیکس کی طرح استعمال کیا ہے اور استعمال کرکے اسے کچرے کے ڈبہ میں ڈال دیا ہے! عقل کے اندھوں کو یہ دکھائی نہیں دیتا کہ جو اپنی تاریخ سے کوئی سبق نہیں لیتے وہی اس تاریخ کو بار بار دہراتے رہتے ہیں اور اس نابغہء روزگار آئنسٹائن کا یہ قول تاریخ کے ہر سبق کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ پاگل پن کی ناقابلِ تردید شہادت یہ ہے کہ ایک ہی تجربہ کو ہر باراس امید کے
ساتھ دوبارہ کیا جائے کہ اس بار نتیجہ پہلے سے مختلف ہوگا! نتیجہ کبھی مختلف نہیں ہوتا لیکن اس کو بھگتنے والے پاکستان کے عوام ہوتے ہیں جو بار بار اپنے طالع آزماؤں کی ہوس کے ناگ سے ڈسے جاتے ہیں!
ہماری تاریخ تو یہ ہے کہ جب ضیا الحق نے بھٹو کا تختہ الٹا تھا تو وہ چچا سام کی نظر میں اچھوت ٹھہرے تھے لیکن جیسے ہی روس نے افغانستان کے خلاف جارحیت کی وہی اچھوت ضیا الحق امریکہ کیلئے دلنواز ہوگئے اسلئے کہ امریکہ کو پاکستان کی ضرورت تھی۔لیکن سوویت یونین کی افغانستان میں ناکامی اور پھر انتشار ہوا اس کے ساتھ ہی پاکستان کی افادیت ختم ہوگئی اور پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے خلاف اسی امریکہ نے سخت ترین پابندیاں عائد کرنے میں ایک منٹ کی دیر نہیں لگائی!پرویز مشرف نے جب نواز شریف کی حکومت ختم کی تھی تو وہ بھی امریکہ کیلئے اچھوت ٹھہرے تھے لیکن پھر چمتکار ہوا کہ چچا سام کو دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں پاکستان کی پھر مدد درکار ہوئی اور مشرف راتوں رات امریکہ کے محبوب ہوگئے۔ لیکن جیسے ہی پاکستان کی ضرورت چچا سام کو نہیں رہی تو پھر پاکستان کا وہی حشر ہوا جو استعمال شدہ کلینکس کا ہوتا ہے! یزیدی ٹولہ کے ہاں شادیانے بجنے کی ایک اور وجہ یہ ہے کہ صدر ٹرمپ کے متعلق جو یہ اندیشہ تھا کہ وہ کہیں عمران خان کی رہائی کیلئے مطالبہ نہ کربیٹھیں تو وہ خدشہ بھی فی الحال ختم ہوگیا۔ تو یزیدیوں کی خوشی دوبالا ہے کہ ایک تو ڈالروں کی ریل پیل کی امید ہے پھر اس کے ساتھ ساتھ عمران کی رہائی کا مطالبہ بھی لگتا ہے کہ چچا کی سرد مہری کا شکار ہوگیا ہے!
تو یزیدی ٹولہ پھر سے تیار ہے، بلکہ چشم براہ ہے کہ انکل سام کب اس کی مدد مانگیں اور وہ آمنا و صدقنا کہتے ہوئے چچا کی خدمت کیلئے صف آراء ہوجائے۔ یزید اور حواریوں کو کوئی ہوش نہیں ہے کہ ٹرمپ کی شہرت اور ساکھ کیا ہے؟ بے مروت کے متعلق یہ عام کہا جاتا ہے کہ فلاں فلاں کی آنکھ میں سور کا بال ہے لیکن ٹرمپ کے ڈسے ہوئے تو یہ کہتے سنے گئے ہیں کہ سور کی آنکھ میں ٹرمپ کا بال ہے! اور چچا سام نے اس روایتی بے مروتی، بلکہ دوغلے پن ، کا ثبوت تو فراہم کردیا ہے۔ ہاتھ کنگن کو آرسی کیا ہے کے مصداق واشنگٹن سے یہ اشارے بھی مل رہے ہیں کہ پاکستان کو بھی ان ممالک میں شامل کرنے کا قوی امکان ہے جن کے شہریوں کے داخلے پر امریکہ میں پابندی لگادی جائے گی!
یزیدی طالع آزماؤں کو اس امکان سے کوئی پریشانی نہیں ہے کہ ان کی آنکھیں تو ڈالروں کی چمک دمک سے چکا چوند ہیں اورچندھیائی جا رہی ہیں۔ انہیں اس سے کیا غرض کہ ان کے مقبوضہ پاکستان کے شہری چچا سام کے ترکش سے چلائے ہوئے تیروں سے کیسے چھلنی ہوتے ہیں۔ اس کالم کو لکھتے ہوئے ہمیں بے اختیار شاعرِ طرحدار، نصیر ترابی کا یہ شعر یاد آگیا۔ آپ بھی سنئے اور سر دھنئے کہ ایک لائق و فاضل باپ، علامہ رشید ترابی، کے ہنر مند بیٹے نے اپنے باپ کی شہرت کا کیسے پاس رکھا تھا:
پرائی آگ میں جل کر سیاہ پوش ہوئے
خود اپنی آگ میں جلتے تو کیمیا ہوتے!
کیمیا کی طلب کم نظروں کو کہاں ہوتی ہے۔ یہی پاکستانی قوم کا المیہ ہے !

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button