ہفتہ وار کالمز

پیرا شوٹرز

اونٹ رے اونٹ تیری کون سی کل سیدھی ، یہ محاورہ اس وقت بولا جاتا ہے جب کسی چیز میں بہت زیادہ نقائص ہوں ، اونٹ ایک بے ہنگم جانور ہے مگر پھر بھی صحرا کا جہاز تو ہے صحرا ریت سے بھرا ہوا ایک بیابان ہے، بیابان سے جڑے ہوئے بہت سے اسباب ہیں ریت، بگولے، تنہائی ، وحشت، پیاس ، سراب، تمازت اور نا امیدی ، شاعری میں ان ساری علامات کو خوبصورتی سے استعمال کیا گیا ہے، فارسی اور اُردو شاعری ان خیالات سے بھری پڑی ہے ان میں ایک کردار قیس کا بھی ہے جو وحشت ، در ماندگی ہجر یاس وحرماں کا استعارہ ہے، چونکہ ایران اور ہندوستان کے لوگ عسرت میں زندگی گزارتے تھے اور زندگی کے ہر قدم پر مایوسیوں اور تکالیف کا سامنا کرنا پڑتا تھا لہٰذاوہ شاعری اور نثر دل کو چھوتی جس میں ان کے دکھوں اور آلام کی جھلک ہوتی تھی میرؔ سے لے کر فرازؔ تک زیادہ تر ان اشعار کو پسند کیا جاتارہا جو یا سیت سے لبریز تھے یہ قنوطیت تھی مگر تنقید میں نقادین نے رجائیت کو ہی سراہا، عوام میں یہ خیالات مذہب سے بھی آئے صبر راضی بہ رضار ہنا، ہر حال میں شکر ادا کرنا، تصوف کے معیارات تھے یہ بھی بتادیا گیا کہ خدا جبار ہے اور تمہاری قسمتیں لکھ دی گئی ہیں بد دعا ہی قسمت بدل سکتی ہے اگر دعا کو قبولیت حاصل ہو یہ بھی بتایا کہ حالت اضطرار میں کی جانے والی دعا جلد قبول ہو جاتی ہے سولوگوں کو گڑ گڑانے کی عادت پڑ گئی وہ بادشاہوں اور حکمرانوں کے سامنے بھی عرض گزار ہوا کرتے تھے انگریز دور میں عرضی لکھی جاتی تھی اور مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ آج بھی اپنا حق لینے کے لئے عدالت جائیں تو عدالتی زبان میں آپ کو سائل ہی کہا جاتا ہے حکمراں طبقہ اس سماجی تہذیب سے خوش تھا کہ عوام اپنے حال میں مست ہیں اور حکمرانوں کی طرف نہیں دیکھ رہے اور ان کو کسی عوامی مزاحمت کا سامنا نہیں، ہر چند کہ آپ اکیسویں صدی میں سانس لے رہے ہیں مگر ذہنیت نہیں بدلی ، اور غلامی چھوڑنے پر عوام تیار نہیں اس صورتِ حال کی ذمہ ساری آپ جہالت پر ڈال سکتے ہیں تعلیم سوچنا سکھاتی ہے علم نہیں پھیلا تو سوچنے کا عمل بھی پروان نہ چڑھ سکا اور حکمران طبقہ بھی نہیں چاہتا کہ عوام اتنے باشعور ہو جائیں کہ سوچنا شروع کر دیں اور سوال کرنا شروع کر دیں ملک کے وسائل میں اپنا حق مانگنا شروع کر دیں، حکمرانوں کی سب سے بڑی طاقت عوام کی جہالت ہے جب تک جہالت باقی ہے حکمرانوں کی حکمرانی باقی ہے اور کسی نے کہا تھا کہ ADEMOCRATIC LEADER BY THE END OF THE DAY TRIES TO BECOME A DICTATORکو یہ مذہبی ، سیاسی ، سماجی طاقت ورثے میں ملی اور اٹہتر سال بعد بھی اس میں سر موتفاوات نہیں ، ماشا اللہ ہم ویسے ہی ہیں جیسے تھے اور شاید ہمیں بدلنے میں ایک صدی اور لگ جائے گی میرے ملک میں کوئی سیاست دان پیدا نہیں ہوا، انگریز کے دور میں جاگیرداری نظام تھا پہلے عشرے میں نوابین کا دور رہا، ان کا سیاست سے کوئی علاقہ نہ تھا مگر حکمرانی شوق تھا بس اتنا کیا کہ کبوتر بازی اور مرغے لڑانے کے لئے وقت نہ نکال پائے ، پہلے بھی عوامی فلاح سے کوئی غرض نہ تھی پاکستان کے حکمران بنے تب بھی نہ ملکی مسائل سے آگاہی نہ وسائل کی جانکاری، دوسرا عشرہ آمریت کا دور تھا، آمر سے جان چھڑانے کے لئے فاطمہ جناح کا انتخاب کیا گیا فاطمہ جناح بابائے قوم کی ہمشیرہ تھیں وہ سیاست دان نہیں تھیں مگر چالباز سیاست دانوں کے اصرار پر فاطمہ جناح نے سیاست دان بننا منظور کر لیا، انہوں نے نہیں کہا کہ میں سیاست دان نہیں ہوں ، سیاست دان تو ایوب خان بھی نہیں تھا مگر اس کی پشت پر دس سالہ Administration کا تجربہ تھا، اس نے ملک کو صنعت کاری کی راہ پر ڈال دیا تھا، دو پانچ سالہ منصوبے مکمل کر کے دکھائے تھے اور پاکستان کا دنیا میں وقار بھی تھا، عوام نے یہ سب نہیں سوچا، عوام کو یہ بتایا گیا کہ ملک میں جمہوریت نہیں ہے، محترمہ نے بھی نہیں کہا کہ جمہوریت آئی تو غریب سونے کے پیالے میں پانی پینے لگے گا، پاکستانی سیاسی تاریخ میں پہلی بار عورت کارڈ نہیں sister card کھیلا گیا دیانت داری سے تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ محترمہ کے پاس سب سے بڑی خوبی قائد اعظم کی بہن ہونا ہی تھا یا یہ کہ وہ تحریک پاکستان میں اپنے بھائی کے ساتھ ساتھ رہیں، کیا اس کا مطلب یہ لیا جائے کہ سیاست میں کسی بلند مرتبہ لیڈر کا قریبی رشتہ دار ہونا ہی حکمرانی کے سب گر سکھا دیتا ہے اور کیا یہی بات کافی ہے اپنے آپ سے یہ سوال ضرور پوچھیں کہ بالفرض محال محترمہ الیکشن جیت جاتیں ملک کی صدر بن جاتیں اور ملک نہ چلا پاتیں تو کیا ہوتا ؟ کیا کسی نے بھی محترمہ کی انتظامی اہلیت کے بارے کوئی سوال کیا تھا ؟ محترمہ پر کیا موقوف پاکستان کی عوام، میڈیا یا سیاسی جماعتوں نے کسی بھی نام نہاد لیڈر میں نہ انتظامی حیثیت دیکھی نہ یہ دیکھا کہ وہ سیاست دان ہے بھی ہے یا نہیں، لیاقت علی خان سے لے کر عمران تک ایک ہی کہانی ہے بھٹو کے عدالتی قتل کے بعد نصرت بھٹو اور پھر بے نظیر کا سیاست میں آنا ایک سیاسی مجبوری تھی مگر نواز شریف کی نام نہاد جلا وطنی کے بعد کلثوم نواز کی سیاست میں انٹری کوئی سیاسی مجبوری نہیں تھی ، اسی طرح مریم نواز کی سیاست میں آمد بھی کوئی مجبوری نہ تھی پارٹی میں کئی نامی گرامی شخصیات موجود تھیں مگر عوام کی ہمدردیاں حاصل کرنے کے لئے مریم نواز کو سیاست میں اتارا گیا، یہ تجربہ کامیاب رہا اور صدی کے بدترین سیلاب میں مریم نواز نے اپنی اہلیت ثابت کی ہے ہر چند کہ ان کا Exposure ابھی تک ایک سماجی کارکن کا ہی ہے وہ بے نظیر کی طرح تمام لوگوں کا سامنا نہیں کرتیں مریم کو ایک لیڈر کی طرح لوگوں کے سامنے آنا چاہیئے
پی ٹی آئی کی باگ ڈور کئی بار خواتین کے ہاتھ میں آئی بشری بی بی متحرک رہیں اور پی ٹی آئی کا سوشل میڈیا ان کو سپورٹ کرتا رہا آج کل یہی میڈ یا علیمہ خان کو سپورٹ کر رہا ہے دونوں کی لائین ایک ہے وہ ہے خان کی رہائی سوشل میڈیا اور علیمہ خان جانتی ہیں کہ خان کی رہائی عدالت سے ہی ممکن ہے مگر دونوں خان کی رہائی طاقت اور احتجاج کے ذریعہ چاہتے ہیں یہ کیسے ممکن ہوگا کچھ کہا نہیں جا سکتا، جیل میں عمران سے ملاقات کر کے جب علیمہ خان پریس ٹاک کرتی ہیں تو ان سے سوالات بھی ہوتے ہیں دو دن پہلے ایک صحافی طیب بلوچ نے علیمہ خان سے ان کی جائیداد کے حوالے سے ایک سوال کیا نعیم حیدر پنجو تھہ بھی وہاں موجود تھے ان کی موجودگی میں پی ٹی آئی کے کارکنوں نے طیب بلوچ کوز و دکوب کیا یہ انتہائی شرمناک ہے، مگر اب یہ گلی کوچوں کا ایک معمول بن چکا ہے پی ٹی آئی سوشل میڈیا اعلان کر چکا ہے کہ کوئی معتبر نہیں سوائے سوشل میڈیا کے ورژن کے ایک activist نے کہا کہ عمران خان بھی عمران خان کے متبادل نہیں ایک اور مہا گرو نے کہا کہ اگر عمران خود کہیں کہ ان سے غلطیاں ہوئی تو بھی ہم نہیں مانیں گے سیاست فاشزم کی طرف بڑھ رہی ہے اور ان پر قبضہ گیر ریاستی طاقتوں کا ہو چکا ہے بہر حال یہ بات طے ہے کہ عمران اپنے ہی سوشل میڈیا کا اسیر ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button