ہفتہ وار کالمز

غزہ کے سر فروش صحافی !

پیر کی صبح اسرائیلی طیاروں نے غزہ کے ایک اسپتال پر دو فضائی حملے کر کے بیس افراد کو ہلاک کر دیا۔ان میں پانچ فلسطینی صحافی بھی شامل تھے ۔ اس سے پہلے دس اگست کو اسرائیل نے ایک خیمے پر فضائی حملہ کر کے سات صحافیوں کو ہلاک کیا تھا۔ فلسطینی صحافی اس خیمے کو ایک دفتر کے طور پر استعمال کرتے تھے۔ ان صحافیوں میں اناص الشریف بھی شامل تھا جو دو برس سے جاری اس ہولناک جنگ میں بڑی دلیری کیساتھ رپورٹنگ کر کے اپنے ہموطنوں کی بھوک‘ بے سرو سامانی اور ہلاکتوں کی خبریں الجزیرہ چینل کے ذریعے دنیا تک پہنچا رہا تھا۔ اٹھائیس سالہ اناص الشریف خلیجی ممالک میں اتنا مقبول تھا کہ لوگ اسے غزہ کی آ ٓواز کہتے تھے۔ گیارہ اگست کو وزیر اعظم بنجا من نتن یاہو کی حکومت نے الشریف کی ہلاکت کی ذمہ داری قبول کرتے ہوے کہا کہ وہ حماص کی جنگی تنظیم القسام بریگیڈ کا ممبر تھا۔ الجزیرہ نے اس الزام کی تردید کرتے ہوے کہاہے کہ اناص الشریف اپنی جان پر کھیل کر غزہ کی تباہ حالی کی خبریں دیتا تھا۔اس جرأت مندانہ رپورٹنگ پر اسے 2024 کا Pulitzer Prize بھی ملا تھا۔
دس اور پچیس اگست کو ہلاک ہونیوالے بارہ فلسطینی صحافی اس لئے اسرائیل کی آنکھ میں کھٹکتے تھے کہ وہ اپنی جانیں ہتھیلی پر رکھ کر غزہ میں ہونیوالی نسل کشی کو بے نقاب کر رہے تھے۔یہ صحافی ایسوسی ایٹڈ پریس‘ رائٹر، الجزیرہ اور مڈل ایسٹ آئی جیسے معروف خبر رساں اداروں کے لیے کام کرتے تھے۔ نیتن یاہو حکومت نے غزہ میں بین الاقوامی صحافیوں کے داخلے پر پابندی لگائی ہوئی ہے اس لیے وہاں ہر روز برپا ہونیوالے سانحات کی خبر رسانی کی تمام تر ذمہ داری نوجوان فلسطینی صحافیوں نے اٹھائی ہوئی ہے۔ یہ دلیر اور سرفروش صحافی دو برس سے پرنٹ‘ الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر مسلسل رپورٹنگ کر کے دنیا بھر کو غزہ میں بھوک‘ قحط‘ نقل مکانی اور ہلاکتوں کی خبریں دے رہے تھے۔ اسرائیل ان توانا آوازوں کو دبا کر اپنے جنگی جرائم چھپانا چاہتا تھا لیکن غزہ کے صحافیوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر کے ایک ایسی تاریخ رقم کر دی ہے جو پیشہ ورانہ صحافت کے باب میں سنہرے حروف سے لکھی جائیگی۔ یہ صحافی اپنے اہل خانہ سمیت آئے روز نقل مکانی بھی کر تے تھے اور اپنی صحافتی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ بھی ہو تے تھے۔ انہوں نے اپنے بچوں کے لیے دو وقت کی روٹی بھی کمانی تھی اور غزہ کے کھنڈروں میں چھپی ہوئی لاشوں کی تصویریں بھی دنیا کو دکھانی تھیں۔ ان جانباز صحافیوں میں فری لانس جرنلسٹ ابو عزیز بھی شامل تھا جو دو برسوں سے ایک برطانوی میڈیا ویب سائٹ اور ٹی وی چینل مڈل ایسٹ آئی کے لیے رپورٹنگ کر رہا تھا۔ وہ کمر میں لگے ایک زخم کی وجہ سے سخت تکلیف میں مبتلا ہو نے کےباوجود اپنے فرائض ادا کرتا رہا۔ مڈل ایسٹ آئی کے ایڈیٹر ڈیوڈ ہرسٹ نے ابو عزیز اور اپنے ادارے کے دوسرے شہید صحافی محمد سلاما کے بارے میں لکھا ہے کہ یہ دونوں ایسے غیر معمولی صحافی تھے جنہوں نے نا ممکن حالات میں اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں نبھائیں۔ بین الاقوامی اداروں کے لئے کام کرنے والے یہ دونوں صحافی پچیس اگست کو نصیر اسپتال پر ہونیوالے دو حملوں میں ہلاک ہوے تھے۔ ان حملوں میں تینتیس سالہ مریم دیگا بھی شہید ہوئی۔ وہ ایسوسی ایٹڈ پریس اور دوسرے خبر رساں اداروں کے لیے فری لانس جرنلسٹ کے طور پر کام کرتی تھیں۔ AP کے ریجنل نیوز ڈائریکٹر Jon Gambrell نے کہا ہے کہ مریم دیگا ایک انتھک اور نڈر صحافی تھیں اور انکی رحلت APکے سٹاف کے لیے سخت صدمے کا باعث ہے۔ قطر کے الجزیرہ ٹی وی چینل نے غزہ کے صحافیوں کی ہلاکتوں کے بارے میں کہا ہے Israel has targeted and assassinated journalists as part of a systematic campaign ۔صحافیوں کی تنظیم Committee For The Protection Of Journalistsکی ایک رپورٹ کے مطابق اسرائیل اب تک غزہ میں192 صحافیوں کو ہلاک کر چکا ہے۔
پون صدی پہلے اسرائیل کے قیام کے موقع پر فلسطینیوں کی پہلی اور سب سے بڑی نقل مکانی جسے نقبہ کہا جاتا ہے کے بعد فلسطینی قیادت اور دانشوروں نے سب سے زیادہ توجہ اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت پر مرکوز کی۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے خیموںمیں اور کھلے آسمان تلے اسکول بنائے۔ بعد ازاں پختہ عمارتوں میںا سکول اور کالج بنا کر فروغ تعلیم کے سلسلے کو جاری رکھا گیا۔ ان تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل ہونیوالے طالبعلموں میں سے اکثر نے یورپ اور امریکہ کی یونیورسٹیوں میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ Human Rights Measurement Initiative کی ایک رپورٹ کے مطابق غزہ اور ویسٹ بینک میں پرائمری اور سیکنڈری ایجوکیشن میں داخلہ لینے والے بچوں کی تعداد کل آبادی کا 92.9 فیصد ہے۔ اسرائیل فلسطینیوں کو پسماندہ‘ جاہل اور بے شعور رکھنا چاہتا ہے۔ اسے یہ خوف لاحق ہے کہ فلسطینی تعلیم کے زیور سے آراستہ ہو کر اسکی بقا کے لیے خطرہ بن جائیں گے۔ اسی لیے آج غزہ میں تمام تعلیمی اداروں کی عمارتیں ملبے کا ڈھیر بن چکی ہیں۔ اب غزہ کو دوبارہ آباد کرنے اور ان تعلیمی اداروں کی از سر نو تعمیر کے لیے ایک طویل وقت اور سخت محنت درکار ہو گی۔ معروف فلسطینی صحافی اور مصنف ڈاکٹر رمزے با رود نے کہا ہے کہ فلسطین کی آزادی ایک ایسا خواب‘ تصور اور آیئڈیا ہے جسے مٹایا نہیں جا سکتا۔ یہ خواب کبھی نہ کبھی اپنی تعبیر ضرور حاصل کرے گا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button