ہفتہ وار کالمز

لاہور چاچا اور اسلام آباد میں نصب کئے گئے دو مجسمے، حکومت کیلئے ہر روز نئی ندامت، نئی پشیمانی!

کہتے ہیں کہ جب بُرا وقت آتا ہے تو اونٹ کے اوپر بیٹھے ہوئے شخص کو بھی نیچے سے کتا کاٹ لیتا ہے۔ یہ تو خیر ایک محاورہ ہے مگر گزشتہ ہفتے پاکستان سمیت پوری دنیا میں جہاں جہاں پاکستانی رہتے ہیں’’ کتی ‘‘کی بات ہوتی رہی ہے اور دوسری جانب دو ہاتھوں کی ہتھیلیوں میں دو بالز کا تذکرہ ہوتا رہا۔ کچھ تو ان جنرلوں کی لائی ہوئی جعلی حکومت کی گھٹیا حرکتیں ہیں جس پر لوگ منہ بھر بھر کے گالیاں نکال رہے ہیں تو دوسری طرف جنرل عاصم منیر کے وہ چاپلوس ہیں جو ان پر ہنسی او کھلی اڑانے کا موقع دیتے ہیں۔ پچھلے ہفتے لاہور میں گھنٹوں گھنٹوں کھڑے پانی میں کھڑے ایک موٹر سائیکل سوار کی ویڈیو نے حکومت اور ملٹری کے ایونوں میں ہلچل مچا دی۔ اس شخص نے ٹک ٹاک وزیراعلیٰ مریم نوز کی ایک تشہیری ویڈیو جس میں کہا گیا تھا کہ ’’وہ سب کی ماں آگئی ہے‘‘کی پیروڈی کرتے ہوئے ویڈیو میں کہہ دیا کہ ’’ وہ سب کی کتی ماں آگئی ہے‘‘ جبکہ اس نے پھر فیلڈ مارشل (نام نہاد) جنرل عاصم منیر پر بھی منہ بھر کر لعنت بھیج دی جو اِس قسم کے کتوں کو اقتدار میں لانے کا سبب ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے لاہور چاچا کی وہ ویڈیو دنیا بھر میں وائرل ہو گئی اور لوگوں نے میمز بنا بنا کر پوری حکومت کی بولتی بند کر دی۔ یک نہ شد دو شد۔ اس شخص نے نہ صرف پنجاب کی جعلی وزیراعلیٰ کو کتی ماں کہہ دیا بلکہ سپہ سالار پر بھی منہ بھر کر لعنت بھیج ڈالی۔ بس پھر کیا تھا، آن واحد میں ویگوڈالے حرکت میں آگئے اور لاہوری چاچا کو اغواء کر کے نامعلوم مقام پر لے گئے۔ ان کو برہنہ کیا گیا، معمول کے مطابق تشدد کیا گیا اور اس شخص کو مجبور کر کے نئی ویڈیو بنوائی گئی جس میں لاہور چاچا تشدد آمیز چہرے اور سوجی ہوئی آنکھوں کیساتھ کہہ رہا ہے کہ مریم نواز زندہ باد، عاصم منیر زندہ باد، پاک فوج زندہ باد اور اسے منظر سے ویگو ڈالے والوں نے غائب کر دیا۔ اب بے وقوف مریم نواز اور احمق حافظ جی کو شاید یہ علم نہیں کہ اس ردعمل کی پیشگوئی تو سوشل میڈیا پر پہلے ہی کر دی گئی تھی اور تعریفی ویڈیو کی تو توقع حسب معمول تھی۔ سوال یہ ہے کہ کیا ان جعلی حکمرانوں اور جنرلوں نے اس واقعے سے کوئی سبق سیکھا کہ نہیں، لاہوری چاچا کا تعلق نہ تو PTIسے تھا اور نہ ہی وہ عمران خان کی پرستش کرتا تھا، وہ ایک ظلم و ستم، فسطائیت اور مہنگائی کا ماراہوا ایک عام پاکستانی تھا جس نے پیروڈی کے ذریعے بارشوں سے تباہ حال، مہنگائی سے بے حال اور جنرلوں کی فسطائیت کے شکار ایک عام پاکستان کے خیالات کی ترجمانی کی تھی جو کہ اس کا حق بھی بنتا ہے۔ جرنیلوں اور کرنیلوں سے یہ عوامی رائے بھی برداشت نہ ہو سکی اور کسی آرمی کے عقوبت خانے میں اسے غائب کر ادیا۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ سارے مظالم ڈھانے کے بعد کیا لاہوری چاچا کی ویڈیو UNDOہو جائے گی؟ چار دن بعد اسے مظالم کرنے کے بعد چھوڑنے کے بعد کیا وہ الفاظ واپس ہو جائیں گے جس میں سارے پاکستان کی ترجمانی کر دی تھی؟ یہ کون لوگ ہیں؟ کہاں رہتے ہیں اپنی ہی دنیا میں مگن؟ چیک کرایا جانا چاہیے کہ یہ جنرلز کہیں AUTISM، ڈپریشن یا بائی پولر ڈس آرڈر کا شکار مریض تو نہیں ہیں۔ کمپنی والوں اپنی کنویں کی دنیا سے باہر نکل کر دیکھوکہ !کہتی ہے تجھے خلق خدا غائبانہ کیا۔
پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف کو قومی اسمبلی میں کھڑے ہو کر اپوزیشن ممبر ثناء اللہ نے کہا تھا کہ خواجہ آصف تم حکومت میں اٹھا کر آئے ہو جبکہ ہم عوامی رائے سے منتخب ہو کر آئے ہیں۔ ثناء اللہ کے اس تاریخی جملے کو جنرل عاصم منیر کے چند چاپلوسوں نے عملی جامہ پہنانے کا تہیہ کر لیا اوراسلام آباد میں دو عدد قدر آور پچاس پچاس فٹ اونچے مجسمے لگا دئیے گئے جن میں دکھایا گیا تھا کہ دو ہاتھوں کی بند ہتھیلیوں میں دو عدد بالیں پکڑی ہوئی ہیں جس طرح سے کوئی بال کو کیچ کرتا ہے، بس پھر کیا تھا سوشل میڈیا میں ثناء اللہ کے جملے کو لگا لگا کر اس قدر ٹرولنگ کی گئی کہ بس ہو گئی، کہا گیا کہ آج پاکستان میں صرف بالیں اٹھا کر ہی رہا جا سکتا ہے اور اقتدار میں آیا جا سکتا ہے وگرنہ پھر اڈیالہ کی سیر۔ سوشل میڈیا پر اس طوفان بدتمیزی کو دیکھتے ہوئے جنرل عاصم منیر نے فوراً حکم دیا کہ یہ مجسمے فوراً ہٹا دئیے جائیں۔ آرڈر اس قدر شدومد کے ساتھ آیا تھا کہ پہلے مرحلے میں جلدی جلدی ان مجسموں پر چادریں ڈال دیں اور پھر اس کے بعد انہیں توڑ کر حسب معمول راتوں رات کسی نامعلوم مقام پر پہنچا دیا گیا۔ اس بات سے یہ بات تو غلط ثابت ہو گئی کہ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ سوشل میڈیا پر بکواس کرنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا وہ غلط ہے ۔ جس طرح سے پاکستان کے 24کروڑ عوام سوشل میڈیا کی خبروں کو سنجیدگی سے لیتے ہیں، ذہن میں رہے کہ ہماری فوج کے 7لاکھ جوان بھی سوشل میڈیا کو دیکھتے ہیں۔ اب ہمارے سجیلے جوانوں کو بھی اندازہ ہو گیا ہو گا کہ ان کے جرنیلوں اور کرنیلوں کو لوگ کس قدر گھٹیا کردار کا مالک گردانتے ہیں۔ مگر ہم اپنے جوانوں کی دل سے قدر کرتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ جلد از جلد ان کرپٹ جرنیلوں سے چھٹکارا حاصل کیا جا سکے تاکہ پھر سے وہ عام فوجی جوان اپنی وردیاں پہن کر اپنے سویلین بھائی بہنوں میں گھل مل جائیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button