امریکہ انڈیا اتار چڑھائو!

یہ بات اس حد تک تو ٹھیک تھی کہ امریکہ اور پاکستان مل کر بلوچستان کے ساحلی علاقوں میں ملنے والے گیس کے نئے ذخائر کو بازیافت کریں گے۔ مگر صدر ٹرمپ نے یہ کیوں کہاکہ پھر بھارت اگر چاہے تو پاکستان سے گیس خرید سکے گا۔ یہ تو زخموں پر نمک چھڑکنے والی بات ہوئی۔لگتا تھا کہ اس بار نریندر مودی ضرور جواب دے گا،لیکن اسنے خاموشی ہی میں عافیت سمجھی۔ یہ پیر 28 جولائی کی بات ہے۔ اسوقت واشنگٹن میں انڈیا کے وزیر خزانہ پیوش گویال اور انکی ٹیم امریکہ کے معاشی ماہرین کیساتھ ٹیرف پر مذاکرات کر رہے تھے۔ ایسے میں اگر انڈیا کے وزیر اعظم صدر ٹرمپ کے ساتھ نوک جھونک شروع کر دیتے تو دونوں ممالک کے تعلقات مزید کشیدہ ہو جاتے۔مودی کی اس معنی خیز خاموشی کے باوجود صدر ٹرمپ نے انڈیا کی برآمدات پر پچیس فیصد ٹیرف عائد کر دیا۔ یہ اس لحاظ سے حیران کن ہے کہ چند روز پہلے صدر ٹرمپ جاپان‘ انڈونیشیا‘ ویتنام اور بنگلہ دیش کی برآمدات پر بیس فیصد اور پاکستان پر انیس فیصد تجارتی ٹیکس لگا چکے تھے۔ نریندر مودی کو صدر ٹرمپ کی دوستی پر بڑا ناز تھا پھر یہ کیا ہوا کہ انڈیا پر جنوبی ایشیا کے دوسرے ممالک کے مقابلے میں سب سے زیادہ ٹیرف لگا دیا گیا۔ ایک وہ وقت بھی تھا جب مودی اور ٹرمپ امریکہ اور انڈیا کے جلسہ گاہوں میں لاکھوں لوگوں کے سامنے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کرایک دوسرے کو سچا دوست کہتے تھے۔ فروری 2020 میں جب صدر ٹرمپ نے انڈیا کا دورہ کیا تو مودی کے شہر احمد آاباد میں ایک لاکھ سے زیادہ لوگ جمع ہوئے تھے اس جلسے کو ’’ نمستے ٹرمپ ‘‘ کا نام دیا گیا تھا۔ اسوقت انڈیا کے ایک تجزیہ نگار نے کہا تھا”They have extraordinary chemistry” ایک مبصر نے لکھا تھاکہ ’’ یہ دونوں جب سٹیج پر اکٹھے ہوتے ہیں تو یوں لگتا ہے کہ جیسے ہر طرف چکا چوندہو گیا ہو‘‘ مگر پھر یہ کیاہوا۔ اک ذرا سی دیر میں کیا ہو گیا زمانے کو۔ مودی کو جب ٹرمپ کی ضرورت تھی تو اس سچے دوست نے کیوں آنکھیں پھیر لیں۔
صدر امریکہ نے انڈیا پر بھاری بھرکم ٹیرف لگانے کے بعد اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم Truth Social پر لکھا "We have a massive trade deficit with India”نئی دہلی اور ماسکو کے تعلقات کے بارے میں صدر ٹرمپ نے اسی پوسٹ میں لکھا کہ ـ’’ انڈیا اور چین روس کی انرجی کے سب سے بڑے خریدار ہیںاور یہ ایک ایسے وقت میں روس کی معیشت کو تقویت دے رہے ہیں جب کہ وہ یوکرین میں قتل عام کر رہا ہے۔‘‘ جو بات صدر ٹرمپ نے نہیں لکھی وہ تحریر شدہ جملوں سے زیادہ اہم ہے۔ وہ یہ ہے کہ اگر انڈیا روس سے گیس نہ خرید رہا ہوتا تو روس کی معاشی حالت اتنی خراب ہوتی کہ وہ صدر ٹرمپ کے کہنے پرچھ ماہ پہلے ہی جنگ بندی کر چکاہوتا۔ اور یوں صدر ٹرمپ کا امریکی عوام سے کیا ہوا یہ وعدہ پورا ہو جاتا کہ وہ حلف اٹھانے کے بعد ایک دن میں یوکرین جنگ بندکرا دیں گے۔ اب اگر یہ وعدہ پورا نہیں ہوا تو اسکی وجہ انڈیا کا روس سے تقر یباً دو ملین بیرل روزانہ تیل خریدنا ہے۔اس جنگ کے جاری رہنے کی وجہ سے صدر ٹرمپ کو اس سال نوبل کا امن انعام بھی ملتا ہوا نظر نہیں آ رہا۔ صدر امریکہ کو اس سے زیادہ کیا نقصان پہنچایا جا سکتا ہے۔
یہاں اہم سوال یہ ہے کہ ٹرمپ اور مودی کی یہ عداوت وقتی ہے یا مستقل؟ میری دانست میں امریکہ کی دوستی اور دشمنی کسی کے ساتھ بھی طویل المیعاد نہیں ہوتی۔ اسکے رنگ موسموں کی طرح بدلتے رہتے ہیں۔ چھ ماہ پہلے جب جوزف بائیڈن وائٹ ہائوس کے مکین تھے تو وہ اسلام آباد میں کسی سے بات کرنا بھی گوارہ نہیں کرتے تھے۔ وہ امریکہ انڈیا دوستی کے عروج کا زمانہ تھا۔ ان دنوں انڈیا کو چین کا مقابلہ کرنے کے لیے تھپکیاں دی جا رہی تھیں۔ انڈو پیسیفک ریجن میں نئی دہلی کو بیجنگ سے پنجہ آزمائی کے لیے تیار کرنے کی پالیسی کا آغاز صدر ٹرمپ کی پہلی مدت صدارت میں ہوا تھا۔ مگر بھارت نے کچی گولیاں نہیں کھیلی ہوئیں۔ وہ آٹھ برس تک ڈونلد ٹرمپ اور جو بائیڈن کو غچہ دیتا رہا۔ ریپبلیکن پارٹی کو بالآخر سمجھ آ گئی کہ ان تلوں میں تیل نہیں ہے۔ اب صدر ٹرمپ انڈیا پر غیر معمولی ٹیرف لگا کر مودی کو اسکی چالاکیاں یاد دلا رہے ہیں۔ ان تمام حقائق کے باوجود یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ان دونوں ممالک کی یہ عداوت مستقل نوعیت کی ہے۔ انڈیا میں امریکی کمپنیوں نے اتنی سرمایہ کاری کی ہوئی ہے کہ اسے نکالنا آسان نہیں۔ گذشتہ کئی برسوں سے امریکی سرمایہ دار چین میں فیکٹریاں بند کر کے انڈیا اورویت نام کا رخ کر رہے ہیں۔انڈیا کی سوا ارب آبادی اور ایک بڑی مڈل کلاس بہر حال امریکہ کے لیے ایک پر کشش اور منافع بخش منڈی ہے۔امریکی میڈیا کے مطابق گذشتہ سال دونوں ممالک کی تجارت کا حجم 130 بلین ڈالر تھا۔ امریکی سماج‘ حکومت اور سیاست میںلاکھوں کی تعداد میں انڈین نژاد امریکی فعال کردار ادا کر رہے ہیں۔ صدر ٹرمپ بھی زیادہ دیر تک مودی سے کشیدگی برقرار نہ رکھ سکیں گے۔ انکا غصہ جلد یا بدیر ختم ہو جائیگا۔ اس لیے پاکستان کو صدر ٹرمپ کے دوستانہ رویے کے جواب میں محتاط رد عمل اختیار کرنا چاہئے۔ امریکہ سے دو تین سال کی یہ دوستی کسی بڑے نقصان کا پیش خیمہ بھی ہو سکتی ہے۔ اس لیے بلوچستان کے ساحلوں سے امڈنے والے خزانے کو کسی اور وقت کے لیے سنبھال رکھنا ضروری ہے۔