ہفتہ وار کالمز

سید ضمیر جعفری کے چند خطوط

تب خط کا دور تھا،قلم سے کاغذپر لکھنے کا چلن ابھی باقی تھا۔سید ضمیر جعفری کے میرے نام صرف چند ہی خطوط ہیں۔زیادہ اس لیے نہیں کہ ایک شہر اور ایک محلے میں رہتے تھے اکثر ملاقات ہو جاتی۔تو خط لکھنے کی نوبت کیسے آتی۔جو چند خطوط لکھے ہیں ،نفس مضمون سے ان کی ضرورت (اور اہمیت) واضح ہو جاتی ہے۔مثال کے طور پر پہلا خط کہاں ہو؟ پر مشتمل تھا۔خط یوں ہے:
5 اپریل 87ء۔
کامران صاحب،السلام علیکم ، کہاں ہو؟ تمہاراضمیر
(سید ضمیر جعفری)
مدیر اعلیٰ
پروفیسر کامران ،
شعبہ اقبالیات
علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی ،
اسلام آباد ۔
یہ شاید دنیا کا مختصر ترین خط ہے ، جو بقول حضرت جبار مرزا اُردو مزاح نگاری کے کمانڈر ان چیف سید ضمیر جعفری نے 5 اپریل 1987ء کو لکھا تھا۔ اس وقت سید ضمیر جعفری اکادمی ادبیات پاکستان ،اسلام آباد میں مدیر اعلی کے طور پر مصروف کار تھے۔ سید ضمیر جعفری بنیادی طور پر شاعر تھے ، اپنے مافی الضمیر کے اظہار کے لیے ان کے پاس لغت کی کمی نہیں تھی ،وہ اختصار نویس بھی نہیں تھے، لیکن خط کے مضمون کو متعین معنی سے دور جانے نہیں دیتے تھے ۔ انہیں چراغ حسن حسرت کی تربیت نےسکھا اور سمجھا دیا تھا کہ ؛ طویل لکھنا آسان اور مختصر لکھنا مشکل ہوتا ہے ۔ جب انہیں بڑی مشکل سے یقین آگیا کہ میں شاعرنہیں ہوں،اور میری تمام تر توجہ نثر کی طرف ہے تو اُردو نثر میں میری دلچسپی کو دیکھتے ہوئے انہوں نے سال انیس سو پچاسی کے اواخر میں مجھے کہا کہ میرے پاس اپنے کالموں کا کچھ منتشر اور بے ترتیب ملبہ پڑا ہے۔اگر تم اسے کھنگال سکو اور اس ملبے سے کچھ نکال سکو، تو نادر کالموں کی ایک کتاب آسکتی ہے۔میری رضامندی دیکھ کر انہوں نے اپنے پرانے کالموں کے تراشوں کی کچھ فائیلیں میرے حوالے کیں۔اس کے بعد یہ سلسلہ اگلے دو برس تک وقفے وقفے سے جاری رہا ۔20 مئی 1987ء کو لکھا گیا ایک اور خط بھی کالموں کے ایسے ہی ایک ملبے کی خبر دے رہا ہے ،ملبے کی فائل اس خط کے ساتھ منسلک تھی۔
برادرم ،پروفیسر کامران صاحب!
السلام علیکم :- میں اپنے نظر غبارے سے تھوڑا سا ملبہ بھیج رہا ہوں۔
تو را نی حساب کم و بیش را
تمہارا ضمیر(سید ضمیر جعفری)
علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی،اسلام آبادکے وائس چانسلر ڈاکٹر غلام علی الانا نے سن پچاسی کے اوائل میں یونیورسٹی کو علمی اور ادبی سرگرمیوں کا مرکز بنانے کے لیے ایک فورم کی تشکیل کا ہدف مجھے دیا۔ ان کی توجہ اور دلچسپی کے نتیجے میں ہم نے ایک لٹریری فورم اوطاق کے نام سے قائم کیا ۔اور پھر وہ اوپن یونیورسٹی اسلام آباد کا سب سے بڑا علمی و ادبی مرکز بن گئی۔ سال1987ء کے اواخر میں طے پایا کہ سید ضمیر جعفری کے ساتھ ایک نشست رکھی جائے، حضرت سے رضامندی طلب کی گئی،بخوشی اجازت دیتے ہوئے پروگرام کی تیاری اور تفصیلات طے کرنے میں بھی دلچسپی لیتے رہے ۔ 4 دسمبر 1987ء کے ایک اور مکتوب میں انہوں نے اطلاع دی ہے کہ ان کے اعزاز میں ہونے والے پروگرام میں پروفیسر ڈاکٹر خورشید رضوی بھی کچھ پڑھیں گے ۔ساتھ ہی اپنے کالموں کا تازہ پلندہ بھیجنے کی خبر دی اور ہمارے اس وقت کے وائس چانسلر ڈاکٹر غلام علی الانا کے لیے اپنی ایک کتاب تحفتاً بھیجی ۔خط کچھ یوں ہے ۔
4/12/87
مکرمی پروفیسر کامران صاحب!
السلام علیکم
شیخ الجامعہ جناب ڈاکٹر الانا صاحب کے لیے ایک کتاب بھیج رہا ہوں۔
2- نظر غبارے کا پلندہ بھی
3- اسلامی یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر خورشید رضوی بھی "اوطاق” میں کچھ س خاکسار کے بارے میں پڑھیں گے۔
والسلا م ضمیر۔۔
ڈاکٹر غلام علی الانا اوپن یونیورسٹی کے وہ محسن ہیں جنہوں نے اپنے ٹینیور میں یونیورسٹی کو "اللسان العربی” جیسے مقبول پروگرام سے آگے بڑھاتے ہوئے ایم اے، ایم بی اے، ایم فل اور پی ایچ ڈی سطح کی ایسی یونیورسٹی بنا دیا تھا کہ پھر جس میں داخلہ حاصل کرنے کے لیے طالب علم سفارشیں تک کروانے لگے تھے۔سید ضمیر جعفری کا 14 جون 1995ء کا ایک۔اور خط جس لیٹر پیڈ پر رقم کیاگیا ہے اس پر ” دی پاکستان رائٹرز فورم” لکھا ہوا ہے ، نیچے ایک طرف پتہ اور دوسری طرف اس فورم کے چیئرمین سید ضمیر جعفری نام رقم ہے ۔خط کچھ یوں ہے۔
14/6/95
پیارے کامران !
تم کہاں غائب ہو،
مسز قدوس ہماری شاگرد ہیں۔تمہاری طرح علامہ اقبال پر ‘ایم فل’ کرنا چاہتی ہیں۔ایک رقعہ میں نے ڈاکٹر شاہین کے نام کا بھی دیا ہے۔آپ کی توجہ کے لیے ممنون ہوں گا۔ کبھی ملو بھی۔
تمہاراضمیر
اس خط میں بھی کسی کی مدد کرنے کا کہہ رہے ہیں ، یاد رہے کہ ان کا کہنا ہمارے لیے حکم کا درجہ رکھتا تھا۔مارچ 1996ء میں سید ضمیر جعفری راولپنڈی اسلام آباد میں قریباً چھیالیس برس گزار کر اپنے آبائی گاؤں سے ہوتے ہوئے گوجرانولہ چھاؤنی کی طرف روانہ ہوئے ،جہاں ان کے فرزند برگیڈیئر کے طور خدمات سر انجام دے رہے تھے۔23 مارچ 1996ء کا یہ خط سید ضمیر جعفری نے راولپنڈی، اسلام آباد میں مقیم اپنے متعدد دوست احباب کو ارسال کیا ہو گا ۔
23 مارچ 1996ء
کامران اقبال صاحب
مکرمی بندہ! السلام علیکم!
تقریباً چھیالیس برس راولپنڈی اور اسلام آباد قیام کرنے کے بعد اب یہاں سے "خرام”کا مرحلہ آگیا۔ضلع جہلم میں اپنے آبائی گاؤں (چک عبدالخالق) کی طرف "کوچ” کرتے ہوئے پہلا پڑاو کچھ عرصہ گوجرانولہ چھاؤنی میں رہے گا۔میری بے شمار کمزوریوں کے باوجود آپ نے جس عالی ظرفی سے مجھے قبول کیا اور اپنی محبتوں اور شفقتوں سے مجھے نوازا،وہ میری زندگی کا بے حد قیمتی زاد سفر ہے۔ ہر چند مجھے ان الفاظ کی بے بضاعتی کا احساس ہے ۔بہرحال انہی چند سطور کو میں آپ کے حوالے سے اپنے جذبات،تشکر و امتنان کے اظہار کا وسیلہ بنا رہا ہوں۔پروردگار عالم آپ کو سدا شادماں و کامران رکھے۔
والسلام
آپ کا ضمیر
(سید ضمیرِ جعفری)
جب سید ضمیر جعفری یہ خط لکھ رہے تھے اس وقت خود پاکستان کی عمر انچاس برس تھی ۔اس خط کا مضمون اسلام آباد سے جاتے ہوئے ان کی اُداسی کی عکاسی کر رہا ہے۔اس نئے شہر کی صورت گری میں سید ضمیر جعفری کا ایک نمایاں کردار رہا ہے۔ان کا میرے نام نسبتاً طویل خط امریکہ سے آیا تھا ۔اس خط کے مندرجات ان کی وطن سے دوری کے احساس کی سطح کو نمایاں کرتےہیں۔سید ضمیر جعفری اسلام آباد کی رونق اور وقار کی علامت تھے۔خود پر ہنسنے کی طاقت سے مالامال شخص کے سامنے بونوں کا بازار لگا رہتا تھا ۔یہی بونے آج اس شہر میں دیو ،جن اور ڈائنوسار کے منصب پر از خود فائز ہیں۔وہ اس شہر کے ابتدائی منصوبہ سازوں میں شامل تھے،شاید یہی وجہ ہے کہ اس شہر کا کوئی کوچہ کوئی قریہ سید ضمیر جعفری کے اسم گرامی سے منسوب نہیں ہے۔سید ضمیر جعفری نے میرے نام اپنا آخری خط اپنی وفات سے دوسال ،تین ماہ اور پچیس دن پہلے نیویارک سے لکھا تھا۔سید ضمیر جعفری کا میرے نام آخری خط اس طرح سے ہے:
110,MONTGUE(STS)VALLEY STREAM(N. Y)NEWYORK(USA) 11580TELL(516)825-0811
15-1-1997
پیارے کامران !
نیا سال مبارک ۔ہم پچھلے برس اپریل میں بچھڑے اور اب تک رابطہ نہ ہو سکا۔ مجھے یاد ہے تم ایک مرتبہ آئے۔میں نے بتایا میں اسلام آباد سے جا رہا ہوں۔تم نے کہا میں دو ایک روز میں پھر آوں گا ، مگر نہ آئے۔اور ہم وطن سے نکلے ہوئے اب تک واپس نہ آ سکے۔ اچھا اب اپنے حالات لکھو تاکہ پھر ہم اپنے حالات لکھیں۔ہاں تم نے کہا تھا میرے کالموں کو تم نے مرتب کر لیا ہے۔ اگر ایسا ہے تو اس کو اسلام آباد میں میرے پبلشر آصف محمود صاحب ( فون نمبر 822441 اور 823246) کے حوالے کر دیں۔نام ’’ضمیرچے‘‘ ۔اگر تم نے کوئی پیش لفظ لکھ لیا ہے تو مرتب کے طور پر اپنا نام دیدو۔یا میری طرف سے انتساب لکھ دوکامران اقبال کے نام جس نے ان کالموں کو مرتب کیا
مگر اب اس میں دیر نہ کرو۔کیونکہ میری آمدنی کا یہی ایک ذریعہ رہ گیا ہے ۔ خدا کرے تم بخیر و عافیت ہو۔ کہو گھریلو پریوار میں کتنا اضافہ ہوا۔ اپنی اہلیہ اور بچے ( بچوں) کو دعائیں ۔ کامران ! تمہارے خط سے مجھے بہت خوشی ہو گی۔یہاں دوستوں کے خطوط سے بہت سہارا ملتا ہے۔ڈاکٹر شاہین اور صدیق شبلی تک میرا سلام۔
والسلام
تمہارا اپنا ضمیر
(خط کے حاشیے میں سرخ پن سے لکھا تھا) آصف محمود دوست پبلی کیشن کا دفتر بلیو ایریا کے مظفر چیمبر کی دوسری منزل میں ہے ۔
سید ضمیر جعفری کے متفرق کالم جمع کرنے کا سلسلہ انیس سو پچاسی کے اواخر میں شروع ہوا تھا ،جو ان کے امریکہ جانے تک جاری رہا۔ میں ان کے منتخب اور نادر کالموں کا مجموعہ مرتب کر چکا تھا، اور "ضمیر کالمی یعنی بوڑھا اول درجے کا ” کے عنوان سے اس انتخاب کا پیش لفظ لکھ چکا تھا ۔سید ضمیر جعفری کی ہدایت کے مطابق کتاب کا مسودہ اصل کالموں سمیت پبلشر کے حوالے کر دیا گیا، میں نے پیش لفظ اور فہرست مشمولات کی فوٹو کاپی اپنے پاس رکھ لی تھی ۔کالم فوٹو کاپی نہیں کروائے۔ سید ضمیر جعفری اس کتاب کی اشاعت کے شدت سے منتظر رہے ، لیکن یہ کتاب شائع نہیں کی گئی۔کیا وجہ بنی اور اس پر سید ضمیر جعفری کا کیا ردعمل رہا، یہ علم میں نہیں ۔میرا نام اپنی اصل ترتیب کے ساتھ انہوں نے کبھی نہیں لکھا۔کامران کہہ کر پکارتے تھے ،لکھتے بھی عموماً یہی تھے ،یا پھر کامران اقبال۔پورا نام شاہد اقبال کامران میرے کم ہی دوستوں کو درست ترتیب سے یاد رہتا ہے ۔نیویارک میں انہیں دوست احباب کے مکتوبات کا انتظار رہتا تھا۔بقول ان کے
یہاں دوستوں کے خطوط سے بہت سہارا ملتا ہے۔

 

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button