بھارت میں مسلم ورثہ نشانے پر، تاریخی مساجد اور مزاروں کو مٹانے کی مہم جاری

نئی دہلی: بھارت میں مودی حکومت کے دور میں مسلمانوں کی تاریخی عبادت گاہوں، ورثے اور ثقافتی شناخت کو شدید خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔ ہندو انتہا پسند تنظیمیں، بی جے پی کی پشت پناہی میں، پورے ملک میں مساجد کے خلاف تحریکیں چلا رہی ہیں۔وارانسی جیسے تاریخی شہروں میں ایک نیا مذہبی قوم پرستی کا رجحان پروان چڑھ رہا ہے۔ بابری مسجد کیس کے فیصلے کے بعد سے، مساجد کو نشانہ بنانے کا ایک منظم سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ ناگپور میں اورنگزیب کے مزار کو ہٹانے کا مطالبہ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔انتہا پسند گروہ، جیسے سناتن رکشا دل اور گروپ فار پروٹیکشن آف سناتن، اس مہم میں مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے میں پیش پیش ہیں۔ ان گروہوں کا دعویٰ ہے کہ مغل دور میں ہندو مندروں کو مساجد میں تبدیل کیا گیا تھا، اور اب وہ ان مندروں کو واپس لینے کی کوششیں کر رہے ہیں۔حال ہی میں اترپردیش کے شہر سنبھل میں ایک جامع مسجد کے خلاف عدالتی سروے نے فرقہ وارانہ فسادات کو جنم دیا، جس کے نتیجے میں پانچ افراد جاں بحق ہو گئے۔ دہلی کے قریب ایک قصبے میں ایک مسجد کو پولیس کی مدد سے زبردستی مندر قرار دے کر قبضہ کر لیا گیا، جہاں بعد میں پوجا بھی کی گئی۔ماہرین قانون خبردار کر رہے ہیں کہ اگر بھارت میں مسلم مخالف اقدامات نہ روکے گئے تو یہ ملک کے آئینی ڈھانچے اور اقلیتوں کے تحفظ کے لیے تباہ کن ثابت ہوں گے۔