جھوٹ پہ قدغن اور طلسماتی کرپشن

پیکا آرڈی ننس کا شور گزشتہ ہفتے سے برپا مگر مثبت نتائج سے کوسوں دور ہے ابھی تک سمع خراشی کے علاوہ کوئی قابل ِ قدر تجویز یا تجاویز کی واضح شکل سامنے نہیں آسکی گو کہ جھوٹ کی بیخ کنی کرنا معاشرتی اہم پہلو ہے مگر وہ کون لوگ ہیں جو جھوٹی خبروں کی روک تھام پر سراپا احتجاج ہیں ؟ خبر اور صحافت چولی دامن کا ساتھ ٹھہرا لیکن جیسے سارے مسلمان سچ نہیں بولتے اور ایمانداری بھی عمل میں نہیں دکھاوے میں ہوتی ہے ایسے لوگوں میں سے کسی ایک کو وقت کے قاضی نے صادق اور امین کہا ہو تو اُس قاضی کو بھی جھوٹ پر سزا ملنی چاہیےکیا کیا جائے کہ پورا کے پورا ہمارا معاشرتی طرز ، عمل ہی جھوٹ کے تار ِ عنکبوت میں پھنسا ہوا ہے ہر کوئی اپنی سہولت کے لئے جھوٹ کا سہارا لیتا اُسے خوف ِ خدا یاد نہیں رہتا تو اس سے نکلنا ممکن نہیں لگتا یہ جھوٹ پہ قدغن کی قانونی شکل جو سامنے لائی جارہی ہے عام خیال میں اسے مخالفین کو پھنسانے کے لئے استعمال کیا جائے گا یعنی عدلیہ پر بچا کُچا اعتماد بھی خاکستر ہونے میں دیر نہیں لگے گی جیسے نیب کی تشکیل کے بعد اسے سیاسی طور پر استعمال میں لایا گیا اور مخالفین کو ناکردہ گناہ میں ملوث کر کے ذہنی و جسمانی کرب سے گزارہ گیا اس کی مثال ڈھونڈے سے نہیں ملتی ۔مذکورہ ایکٹ کا جنم تحریک ِ انصاف کے دور میں ہوا تو اس کی مخالفت میں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے بھر پور مخالفت کی پیپلز پارٹی نے تو اسے کالے قانون سے تشبیہ دی مگر آج اگر یہ قوم تھوڑی دیر کے لئے ماضی اور حال کا زمینی حقائق کو سامنے رکھ غیر جانبداری سے جائزہ لے تو اُسے چند ساعتوں میں معلوم ہو جائے گا کہ کل اس پیکا ایکٹ کی روح ِ رواں تحریک ِ انصاف تھی اور مسلم لیگ ن و پیپلز پارٹی مخالف لیکن آج تحریک ِ انصاف مخالفت میں اور نون و پیپلز پارٹی اس کی حمایت میں یکجاں دو قالب ہیں سیاسی جماعتوں کے ان فریبی چالوں کو اب عوام کو سمجھنا چائیے کہ اسی طرح اُن کے مسائل کے ساتھ بھی کھیلا جاتا رہا ہے اور اگر شخصیت پرستی و بےشعوری کی سطح عوام میں بلند رہی تو منافقانہ طرز ِ عمل کو پھیلنے سے روکنا ناممکن رہے گا صحافت سے وابستہ طبقے کا اعتراض بھی بجا ہے کہ جب پیمرا موجود ہے تو پیکا ایکٹ کا ظہور کس لئے کیا جا رہا ہے ؟ پھر پاکستان میں سوشل میڈیا کو کنٹرول کرنے کا قانون موجود ہے تو اسے حکومت آشکارہ کرنے سے گریزاں ہے یہ سوشل میڈیا ریگولیشن 2021تحریک ِ انصاف کے سابقہ دور ِ حکومت میں لایا گیا تھا ۔موجودہ پیکا ایکٹ جو آصف علی زرداری کے دستخط کے بعد قانون کی شکل اختیار کر گیا ہے اس قانون کے مطابق جھوٹی خبر کی اشاعت یا پھیلانے پر 3سال قید اور 20لاکھ روپے جرمانہ ہو گا اس قانون کے تحت ایک ڈیجیٹل رائٹس پروٹیکشن اتھارٹی کو آن لائن مواد ہٹانے کا اختیار حاصل ہو گا اور ممنوعہ یا فحش مواد تک رسائی کا حق بھی حاصل ہو گا اس متنازعہ قانون سے زیادہ نالاں صحافی اور انسانی حقوق کی تنظمیںہیں جن کا موقف ہے کہ یہ متنازعہ قانون صرف سوشل میڈیا پر کام کرنے والوں کے لئے نہیں بلکہ پورے معاشرے کے لئے ایک خطرہ ہے دوسری جانب حکومت جو کل اس قانون کی مخالفت کر رہی تھی حکومت کو اس قانون کے مسودے پر مختلف تنظیموں سے سیر حاصل بات کرنی چائیے تھی نہ جانے کیوں اہمیت نہیں دی گئی اور یہ غلط اقدام ہے ۔ آج مسلم لیگ ن فرطِ انبساط میں اسے سود مند قرار دے رہی ہے حکومت کا یقین ہے کہ اس قانون سے فتنہ انگیزی و دروغ گوئی کے خاتمے میں مدد ملے گی تاریخ کا چہرہ دیکھیں تو حکومت کا جھوٹ کے خاتمے کا عندیہ ایک فلمی بڑھک سے بڑھ کر نہیں ہٹلر کے دور میں گوئبلز نے جھوٹ کی انتہا کی تو عصر ِ حاضر میں ایلون مسک نے بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی اس نے ٹرمپ کی کامیابی کے لئے اپنی دولت لٹائی اور آج اُس کا مشیر بن بیٹھا ہے لوگوں کو بڑے یقین سے یہ اطمینان دلاتا رہتا ہے کہ زمین ختم ہو رہی ہے یہ جھوٹ کی راہوں کے مسافرہیں جو اپنے مفادات کے لئے ساتھ چلتے کو بھی لوٹنے سے نہیں کتراتے ۔میرا یقین ِ کامل ہے کہ جھوٹ اور سود اگر ہمارے معاشرے کے رہن سہن ،لین دین سے ختم ہو گیا تو خالق ِ کائنات کی برکات کا بے تحاشہ نزول شروع ہو نے دیر نہیں لگے گی مگر ہم قصیدہ گوئی و مفادات کے اس قدر گرویدہ ہیں کہ اُن کی تعمیل کے لئے مذہبی احکامات پس ِ پُشت ڈال دیتے ہیںمذہبی پہناوے کو اوڑھ کر خدمت ِ خلق کی چادر میں لپٹے بہت سی اشکال ہیں جو سیاست میں وارد ہو کر بدعنوانیوں کی مرتکب ہوئیں موجودہ دور بھی ایسی تربیت کے لوگ سیاست کی چھتری لئے مفادات سے جھولیاں بھر رہے ہیں اس طلسماتی کرپشن کا ایسا سحر ہے کہ لوگ اب بھی سیاست میںاپنے مسائل کی نجات ڈھونڈتے ہیں بیشک جمہوریت بہترین نظام ہے مگر میرے ملک میں سیاست کو بہتر لوگ ہی میسر نہیں تو جھوٹ پہ قدغن کے باوجود جھوٹ کی روانی ہو گی اور طلسماتی کرپشن کے نئے دیگر طریقے بھی متعارف ہونگے اس طرح کے معاشرے میں بہتری یا اچھائی کی اُمید کرنا بےشعوری کے معنوں میں آئے گا ضرورت اسلامی نظام کی ہے جسے ہم نے نظر انداز کیا ہوا ہے ۔