گرمی بہت ہے !

برسات کا موسم تھوڑی سی ٹھنڈی ہوائیں دینے کے بعد جب تھک جاتا ہے تو تو اُس کی بہکی بہکی سانسوں سے خاصا حبس پھیل جاتا ہے گرمی کی شدت بڑھنے سے بدن کسی کپڑے کو برداشت نہیں کرتا مگر برہنہ ہونے سے بھی گرمی کی شدت کسی صورت کم نہیں ہوتی جب تک کہ کسی ٹھنڈے ماحول میں بندہ خود کو قید نہ کر لے ماحول کو یکسر بدلنے کے آلات ائیرکنڈیشنڈز ،روم کولرز تو اس فانی دنیا میں موجود ہیں لیکن انھیں خریدنے کے وسائل اور بجلی سے چلنے والے ان آلات کے ماہانہ بل ہر محدود معاش کا بندہ کہاں ادا کر سکتا ہے اسی لئے مخلوق ِ خداپروردگار ِ عالم سے پناہ مانگتے ہوئے چیخ و پکار کرتی رہتی ہے کہ گرمی بہت ہے سیاسی سرگرمیاں بھی ایوانِ بالا و ایوان زیریں کے یخ بستہ ماحول میں جہاں حکومت و اپوزیشن کے عوامی نمائندے کوٹ ،واسکٹ پہنے اپنے اندر کی گرمی دکھاوے کے لئے نکال رہے ہوتے ہیں اُن کو عوام کے دیگر دیرینہ مسائل کیطرح یہ بھی محسوس نہیں ہوتا ہے کہ گرمی بہت ہے اور وہ غریب ریڑھی والے ،رکشہ چلانے والے ،گرین ہیلمٹ پہنے موٹر سائیکل کو مزدوری کے لئے استعمال کرنے والے پسے طبقات کے لوگ جنھیں ائیر کنڈیشنڈ کی سہولت بوجہ شدید غربت میسر ہی نہیں تو اُن پر بجلی کی گھنٹوں بندش انصاف کی کون سی شکل ہے ؟یعنی عوامی نمائندے تو موسموں کی شدت سے محفوظ رہیں اور عوام جلتی بھی رہے اور ٹھٹہرتی بھی رہے ہونا تو چائیے تھا کہ برسوں سے جاری بجلی لوڈ شیڈنگ کا مناسب انتظام ہوتا اور اس کا خاتمہ کرنے کے یقینی اقدامات ہوتے لیکن حکومت و اپوزیشن کے ان سارے حکمرانوں نے نہ بجلی کی لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ کیا بلکہ گیس کی بھی لوڈ شیڈنگ جاری رہنا معمول سا ہو گیا ہے بجلی و گیس کی لوڈ شیڈنگ کے بہت سے عوامل ہیں جن میں سب سے بڑی وجہ طبقاتی فرق کی خلیج کا حد سے بڑھ کر وسیع ہونا ہے امیر و غریب کے تناسب سے ریاست ِ پاکستان غریبوں کا ملک ہے مگر اس پر اجارہ داری چند مؤثر خاندانوں کی وڈیروں کی ،صنعت کاروں کی ،نجی بینک مالکان کی ہے جو ملک کے دستیاب وسائل پر قابض ہو کر عوام کو غربت کی لکیر سے نیچے رہنے پر مجبور کر رہے ہیں جن کی بنیادی ضرورتوں کو پورا کرنے کی بجائے ہر سال قومی بجٹ میں قیمتوں کو بڑھا کر محرومیوں کی عملی شکل میں اضافہ کر دیا جاتا ہے حالیہ چینی کی قیمتوں میں بلاجواز اضافے سے چینی مافیاز کو اربوں روپے کا فائدہ پہنچایا گیا ہے حکومتوں کا مافیاز کے کسی بھی اقدام پر صرف واویلا کرنے سے بے شعور عوام کو محسوس کرنا چائیے کہ حکومت کو اگر موسم کی شدت کا اندازہ نہیں توچلو خیر ہے مگر کم از کم وہ موجودہ مہنگائی سے پیٹ کی بڑھتی آگ کو تو سینکے تا کہ اُسے احساس ہو کہ مہنگائی سے گرمی بڑھتی بہت ہے!!!مگر تشویشنانہ پریشانی کی بات یہ ہے کہ مہنگائی کی یہ گرمی حکومتیں محسوس کرنے کے باوجود کوئی قابل قدر اقدام عوامی سطح پر کیوں نہیں اٹھاتیں ؟نظراندازی کی یہ طویل سیریز دیکھتے ہوئے دل یہ ماننے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ ان مافیاز کے ساتھ حکومتوں کے مفادات بھی مشترکہ ہے اسی لئے یہ گرمی کم نہیں ہو رہی ہے جہاں معاشرے میں بنیادی سہولتوں کا گراں ہونے کے ساتھ ناپید ہونا روایت بن جائے تو گرمی بہت ہے کی آوازیں آنا یقینی ہو جاتا ہے سمجھ سے بالا ہے یہ بات کہ معاشی ماہرین کی فوج در فوج ہونے کے باوجود ہم دیرینہ مسائل کی آگ میں جل رہے ہیںلیکن ان کا کوئی منصفانہ حل جسے عمل پذیر کیا جا سکے ابھی تک سامنے آنے سے قاصر ہے اس ناکامی کو دیکھتے ہوئے سوال اُٹھتا ہے کہ حکومت کب ایسے اقدامات متعارف کرائے گی کہ امیر طبقات کی طرح یہ پسے ہوئے طبقے کے لوگ بھی گرمی میں سردی کا مزہ لے سکیں بجلی اتنی ارزاں نرخوں پر ہو کہ وہ بھی سار ا دن کی مشقتوں کے بعد آرام و سکون والی شام کا لطف اُٹھا سکیں بجلی کے بلوں کی وجہ سے اکثریتی لوگ پنکھے کو بھی کم استعمال کرنے کو ترجیح دیتے ہیں کیونکہ بجلی کا استعمال 200یونٹ سے بڑھ جائے تو بجلی کے بل کا بلڈپریشر بہت اونچا چلا جاتا ہے جسے ادا کرنے کی سکت یہ دیہاڑی دار مزدور ،رکشہ چلانے والے ڈرائیورز ،پرائیویٹ بسوں کے ڈرائیورز ،ورکشاپوں میں کام کرنے والے اور گندگی کے ڈھیروں سے چیزیں ڈھونڈنے والے نو عمر بچے نہیں رکھتے ان کو انسان جانتے ہوئے حکومت کو چائیے کہ روزمرہ اشیائے صرف کے ساتھ ساتھ بجلی کی قیمتوں کو ارزاں کرے تا کہ ایک غریب بھی ائیر کنڈیشنڈ کے استعمال سے مستفید ہو جانتا ہوں کہ درخواست میری رد کر دی جائے گی ہمارے معاشی ماہرین نے کبھی اس غربت کی لکیر سے نیچے رہنے والوں کے لئے سوچا ہی نہیں کہ جو برسوں سے کہہ رہے ہیں کہ گرمی بہت ہے تو انھیں بھی زندگی گزارنے کے لئے پُر تعیش سامان ِ زندگی مہیا کیا جانا چائیے ہمارا معاشرہ عبدالستار ایدھی جیسے درد مندوں سے خالی ہو چکا ہے اسی لئے اخلاقیات ،رواداری ،دلی ہمدردی کے سائے بھی ہٹ چکے ہیں جس سے گرمی بہت ہے کی صدائیں سماعتوں سے ٹکرا کر ناکام لوٹ آتیں ہیں۔