اچھی لگے ہیں مجھ کو تری بد زبانیاں!

یوکرین کے صدر ولادمیر زیلنسکی سے زیادہ کون جان سکتا ہے کہ امریکی سرپرستی میں نیٹو ممالک نے روس کو چٹکی کاٹنے اور گود میں بیٹھ کر داڑھی نوچنے کے لیے یوکرین کو کس بے رحمی سے استعمال کیا تھا۔یوکرین کو یورپی یونین میں شامل کرنے کا جھانسہ دینے والے انسان دوست ممالک نے یہ اندازہ کیوں نہیں لگایا تھا کہ روس اپنے کندھے کے پاس واقع ملک تک نیٹو کی توسیع کو کسی صورت برداشت نہیں کرے گا۔ہاں امریکہ سمیت یورپی ممالک نے یہ حساب تو لازماً لگا لیا ہو گا کہ جنگ کی صورت میں دونوں طرف سے مرنے والے یا تو یوکرینی ہوں گے ،یا پھر روسی۔اس میں انسان دوست امریکہ اور یورپ کے قیمتی شہری بالکل محفوظ رہیں گے۔روس یوکرین جنگ کے آغاز پر میں نے اپنے ایک کالم اکیسویں صدی میں بیسویں صدی کی جنگ میں امریکہ اور یورپ کے طرزعمل اور طریقہ واردات کے حوالے سے لکھا تھا کہ تو ایک بار پھر امریکہ اور نیٹو مکمل طورناٹی یعنی شرارتی لونڈے لپاڑے ہی نکلے ، خوامخواہ یوکرین کے ساتھ لگے روسی دروازے کی گھنٹیاں بجا بجا کر ، دروازہ کھلنے پر بھاگ نکلے ہیں ، اب روس ہے اور یوکرین۔ یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے گزشتہ رات اپنی تقریر میں دنیا کو بتایا ہے کہ یوکرین کو شمال ، جنوب اور مشرق تین سمت سے نشانہ بنایا گیا ہے ۔ اگرچہ امریکی اسی میں خوش ہیں کہ ہمیں تو پہلے سے علم تھا کہ روس حملہ کرے گا ۔ہم نے تو دنیا کو بتا دیا تھا ، پر امریکی یا یورپی اتحادی یہ نہیں بتاتے کہ انہوں نے یوکرین کو کیوں ناحق اتنا تپا دیا تھا کہ وہ بے چارے نیٹو کے آسرے پر قضیہ کھڑا کر بیٹھے ۔انہوں نے امریکہ کی گرم گفتاری پر اعتبار کر لیا ۔اور خطا کھائی۔یوکرین کے صدر نے غمزدہ ہو کر کہا ہے کہ مغرب نے ہمیں جنگ میں دھکیل کر تنہا چھوڑ دیا ہے ۔ اس وقت سے یوکرین اپنی حیثیت اور ہمت کے مطابق روس کا مقابلہ کر رہا ہے۔اور ظاہر ہے کہ خسارے میں ہے۔ امریکہ کی نیٹو کے راستے یوکرین میں رسائی کے خواب کے عقب میں اپنے واضح مقاصد تھے۔امریکہ کی قیادت میں نیٹو کے ڈیزائن کردہ اس محاربے نے اچھے بھلے خوشحال ملک یوکرین کو جنگ سے تباہ حال ملک میں بدل کر رکھ دیا ہے ، یوکرین کی بیس فی صد سرزمین پر روس کا قبضہ ہو چکا ہے۔یوکرین کے گلے میں پریشانی، پشیمانی اور حیرانی کا طوق پہنا کر ڈونلڈ ٹرمپ اینڈ کمپنی کا خیال تھا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ وہ تباہ حال یوکرین کے بیش قیمت معدنی وسائل پر ہاتھ صاف کرتے ہوئے اس ڈیزائن کردہ جنگ کا سارا منافع تنہا سمیٹ لیں۔اور وہ بھی یوکرین کے لیے کسی بھی قسم کی ضمانت کے بغیر ۔ ڈونلڈ ٹرمپ کاعشق پوٹن بھی ایک ایسا فریب ہے ،جس کے متعین مقاصد میں روس اور چین کے مابین فاصلہ پیدا کرنے کی کوشش کے علاوہ یوکرین سمیت پورے یورپ کو ایک دباو میں رکھنا شامل ہے۔ وائٹ ہاؤس کے اوول آفس نے جو مناظر حالیہ دنوں میں دیکھے ،ان کی مماثلت1814ء میں امریکہ اور برطانیہ کے مابین جنگ میں برطانوی فوجیوں کی طرف سے وا ئٹ ہاوس کو آگ لگا کر نقصان پہنچانے جیسی ہے۔اس سانحے کے بعد وائٹ ہاوس کی بحالی اور مرمت میں تین سال لگے تھےاور 1817ء میں تب کے امریکی صدر جیمز منرو وائٹ ہاؤس منتقل ہو سکے تھے۔سال 1902ء میں اس وقت کے امریکی صدر تھیوڈور روزویلٹ نے صدر کے دفتر کو وائٹ ہاؤس کے رہائشی حصے کی دوسری منزل کی بجائے نو تعمیر شدہ ایگزیکٹو آفس ،جس کو وائٹ ہاؤس کا ویسٹ ونگ بھی کہا جاتا ہے ، میں منتقل کر دیا تھا۔اسی ویسٹ ونگ میں اگلے امریکی صدر ولیم ہاورڈ ٹفٹ نے "اوول آفس” تعمیر کرایا تھا،اس بڑے سے مخروطی کمرے کو امریکی صدر کے دفتر کے طور پر استعمال کیا جاتا ہےاور اسی میں غیر ملکی سربراہان مملکت سے ملاقات کا فوٹوسیشن بھی ہوتا ہے۔اور یہی وہ اوول آفس ہے جس میں ایک کمزور اور ہارتے ہوئے ملک کے صدر نے بزعم بزعم خود دنیا کے سب سے طاقتور سربراہ مملکت کے تمام تر دباو اور دھمکاووں کو پائے حقارت سے ٹھکراتے ہوئے ایک سرمایہ پرست اور منافع خواہ صدر کو اس کے زبان دراز نائب صدر جے ڈی وینس سمیت بے بس کر کے رکھ دیا ۔اب سفارت کاری کی تاریخ میں یہ اوول آفس جہاں ایک طرف بد لحاظی اور بے مروتی کی علامت شمار کیا جائے گا ،وہیں ولادیمیر زیلنسکی نے دنیا کو اچھی طرح سے سمجھا دیا ہے کہ
غیرت ہے بڑی چیز جہان تگ و دو میں
ستم ظریف کا کہنا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ اور جے ڈی وینس کے طریقہ واردات کو دیکھتے ہوئے امکان ہے کہ عنقریب اوول آفس میں صدور کے لیے رکھی دو کرسیوں کے عین پیچھے نظر آنے والے آتش دان کے اوپر اُردو کے بڑے شاعر میر تقی میر کا یہ شعر انگریزی ترجمے کے ساتھ لکھ کر لٹکا دیا جائے کہ
گالی سوائے مجھ سے سخن مت کیا کرو
اچھی لگے ہیں مجھ کو تری بد زبانیاں
اطلاعات کے مطابق وائٹ ہاؤس کے متعلقہ لوگوں کی طرف سے پروٹوکول کے نام پر صدر زیلنسکی کو اوول آفس میٹنگ میں سوٹ پہن کر آنے کا مشورہ دیا گیا تھا، لیکن مہمان صدر کی طرف سے کہا گیا تھا کہ ان کا ملک حالت جنگ میں ہے اور وہ اپنا جنگی لباس اس وقت تک تبدیل نہیں کریں گے جب تک جنگ ختم نہیں ہو جاتی۔ان کا کہنا تھا کہ وہ ایسا اپنے فوجیوں سے اظہار یک جہتی کے لیے کر رہے ہیں۔شنید ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کو زیلنسکی کے لباس سے کوئی مسلہ نہیں تھا۔لیکن ان کے نائب صدر جے ڈی وینس کو شاہ سے زیادہ شاہ کا وفادار بننے کا شوق اور شاید اپنے صدر سے زیادہ سمجھدار ہونے کا زعم تھا کہ وہ اپنے اور مہمان صدر کی گفتگو میں چھلانگ لگا کر کود پڑے۔ ہاں صدر زیلنسکی کا قصور یہ رہا کہ اس نے گفتگو کا کوئی وار خالی نہیں جانے دیا، بلکہ سوال کرنے والے کے منہ کے عین مطابق مناسب جوابات دیئے۔ امریکی نائب صدر کو اپنے ہاتھ میں پکڑی پٹرول کی وہ بوتل بالآخر چھوڑنی پڑے گی کہ جسے وہ حسب خواہش جاری گفتگو میں چھڑکتا رہتا ہے ۔اور اس وقت تک چھڑکتا رہتا ہے ، جب تک کہ شعلے بلند نہ ہو جائیں۔ کیا دنیا یہ بات بھول چکی ہے کہ یوکرین کو امریکہ اور یورپ نے مل کر یورپی یونین کا رکن بنانے کا لالچ اور جھانسا دے کر روس کی کمر پر چٹکی کاٹی تھی اور روس کے بارڈر کے ساتھ جنگ کے شعلے دھکا دیئے تھے۔ سوچنے والی بات یہ تھی کہ کیا روس اپنی سرحد کے ساتھ جڑے ایک افغانستان نما کو پسند اور برداشت کر سکتا تھا؟ جنگ روس اور یوکرین لڑیں، دونوں طرف تباہی ہو ، دونوں طرف کے فوجی مریں، اور یوکرین کے سارے معدنی وسائل پر قبضہ امریکہ کا ہوجائے؟ شکر ہے کہ زیلنسکی کسی نام نہاد "مارشل ریس” سے تعلق نہیں رکھتا، نہ ہی وہ بین الاقوامی شہرت کا محبوب کھلاڑی رہا ہے ، وہ ایک آرٹسٹ اور ایکٹر رہا تھا ، یہی وجہ ہے کہ وہ کسی ڈراوے میں نہیں آیا۔اوول آفس کی نمائشی میٹنگ میں ایک درباری صحافی کی طرف سے اس کے لباس اور حلیئے کی توہین کی گئی ۔ میڈیا کتنا بھی آزاد کیوں نہ ہو ، تمیز اور تہذیب کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیئے۔ اس ساری ملاقات میں زیلنسکی کے جوابات کو ذرا رک رک کر سننے اور سمجھنے سے دلاوری اور اعصاب کی مضبوطی کا صحیح مطلب سمجھ میں آ سکتا ہے ۔میرے نزدیک زیلنسکی یوکرین کو یورپی یونین کا حصہ تو نہیں بنا پایا،لیکن مستقبل میں امریکہ اور یورپ کے مابین تعلقات کی نوعیت کو طے کر گیا ہے۔