ہفتہ وار کالمز

جنگ بندی کا معاہدہ

حالیہ برسوں میں جتنی طویل جنگ غزہ میں ہوئی ہے ویسی دیکھی نہیں گئی ایک مبصر نے لکھا ہے کہ دنیا کے معدودے چند ملکوں کو چھوڑ کر کوئی ملک اتنی طویل جنگ نہیں لڑ سکتا جتنی طویل جنگ اسرائیل نے لڑی ہے اس ضمن میں بھارت کا نام بھی لیا گیا ہے کہ شائد بھارت بھی اپنے تمام فوجی وسائل کے باوجود اتنی طویل جنگ نہیں لڑ سکتا، میں نے یہ نہیں کہا کہ حماس اور حزب اللہ نے بھی اتنی ہی طویل جنگ لڑی ہے حماس اور حزب اللہ نے یہ جنگ نہیں لڑی مگر یہ ظاہر کیا ہے کہ وہ کوئی جنگ لڑ رہے تھے ، دنیا کی تاریخ میں کسی مزاحمتی گروپ نے کبھی ایسی جنگ نہیں لڑی جس میں اس کے سینتالیس ہزار شہری مارے جائیں ایک لاکھ سے زائد زخمی ہو جائیں جن میں ایک کثیر تعداد بچوں اور عورتوں کی ہو اور اسرائیل یک طرفہ طور پر غزہ کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک منظم طور پر اس پٹی کو اس طرح تباہ کر دیا جائے کہ وہاں بسنے کا تصور ہی نہ ہو ، اس تباہی میں وہ ادارے بھی شامل ہیں جو اقوام متحدہ اور ریڈ کراس کے تحت کام کر رہے تھے، اقوامِ متحدہ چیختی چلاتی رہی مگر جنگ جاری رہی، عالمی عدالت کے فیصلے بھی رڈی کی ٹوکری میں گئے ، ساری دنیا میں جنگ کے خلاف مظاہرے مگر تمام بڑے ممالک خاموش اور عرب ممالک تو ایسے جیسے یہ ان کا مسئلہ ہی نہ ہو، جیسے لقوے کا مارا ہوا کوئی مریض، مزاحمتی تحریک ہمیشہ چھاپہ مار جنگ لڑتی ہے اور اس کا اصول یہ ہوتا ہے کہ مزاحمتی گروپ کا کم سے کم نقصان اور ان لوگوں کا بھی جن کے لئے مزاحمتی گروپ جد و جہد کر رہا ہے،حماس ، حزب اللہ یا القاسم بریگیڈ اس اصول سے بے خبر تھے اور یہ کیسے ہو سکتا ہے کی مزاحمتی گروپ فلسطینیوں کو برباد ہونے کے لئے تنہا چھوڑ دیں اور وہ قطر میں محفوظ رہیں، میرے خیال میں یہ نام نہاد جنگ جنگ تھی ہی نہیں ایک UNANNOUNCED AGREEMENT تھا اسرائیل اور حماس کے درمیان جس کے حاشیے پر امریکہ موجود تھا، میں لکھ چکا ہوں کہ حماس، حزب اللہ اور القاسم بریگیڈ اتنی بڑی فوجی طاقت تھیں ہی نہیں جتنا مغربی دنیا نے ان کو میڈیا پر پینٹ کیا گیا اور دنیا سمجھی کہ یہ ایک بہت بڑا MILITARY MONSTER ہے، حماس اور حزب اللہ کو اتنی بڑی فوجی طاقت بنا کر نہ پیش کیا جاتا تو شائد اسرائیل کو اتنے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے کا جواز نہ ملتا، اس کو عام زبان میں نورا کشتی بھی کہا جا سکتا ہے، میرے خیال میں یہ ایک سازش تھی اس کے اہداف مقرر کر لئے گئے تھے اور یہ بھی طے کر لیا گیا تھا کہ کس مرحلے پر جنگ روکنی ہے اور جنگ بندی کے بعد غزہ کے بارے میں کیا پالیسی اپنانی ہے جنگ بندی معاہدے کے بعد امریکی صدر ٹرمپ کے بیانات سے تو ایسا ہی لگتا ہے سب ایک اسکرپٹ کے تحت ہو رہا ہے، غزہ سے فلسطینیوں کی بے دخلی، ٹرمپ کا یہ اعلان کہ ہم غزہ کو اپنی ملکیت میں لے لینگے ، غزہ کو خرید لیں گے، اس کو ترقی دینگے اور فلسطینیوں کو روزگار فراہم کرینگے یا پھر چند اور ممالک کو اس منصوبے میں شریک کریں گے اور یہ بھی کہ بے گھر لوگ اردن یا مصر میں بسائے جا سکتے ہیں ایسا لگتا ہے کہ غزہ پر قابض ہونے کا پلان بہت ہوشیاری سے تیار کیا گیا اور اس کو EXECUTE کرنے کے لئے امریکہ نے اپنی توجہ یوکرین جنگ سے ہٹا کر غزہ پر مرکوز کر دی اور اسرائیل کو بے دریغ فوجی مدد فراہم کی کبھی کبھی تو ایسا لگا کہ امریکہ یہ جنگ خود لڑ رہا ہے اور اسرائیل کا نام استعمال ہو رہا ہے، مصر اور اردن نے فلسطینیوں کی آبادکاری کے اس منصوبے کو مسترد کر دیا ہے جو ٹرمپ نے دیا ہے اس کی وجہ یہ نہیں کہ وہ فلسطینیوں کو اپنے ملک میں بسانا نہیں چاہتے بلکہ یہ خدشات موجود ہیں کہ فلسطینی مصر اور اردن میں رہ کر بھی مزاحمتی ذہن رکھیں گے اور کبھی نہ کبھی وہ پھر کسی نہ کسی مزاحمتی تحریک کا حصہ بن جائینگے جس سے ان کا ملک DISRUPT ہوگا، وہ فلسطینیوں کے مزاج کو سمجھتے ہیں، بظاہر یہی لگتا ہے کہ پلان یہی تھا کہ بے تحاشا فوجی قوت استعمال کر کے پہلے مرحلے میں غزہ کو تباہ کرنا تھا فلسطینیوں کو بے دخل کرنا تھا اور پھر غزہ پر قابض ہونا تھا، جب اسرائیل غزہ پر بمباری کر رہا تھا تو ایسا لگتا تھا کہ وہ غزہ کے پورے انفرا اسٹرکچر کو تباہ کرنا چاہتا ہے جس میں ہسپتال،اسکول سرکاری عمارتیں، اور پورا شہری نظام تھا اس کے باوجود کہ سینتالیس ہزار فلسطینی ہلاک ہوئے ایک لاکھ کے قریب زخمی جن میں ہزاروں معذور ہو جائینگے ، یہ بھی ممکن تھا کہ وہ فلسطینی جو مصر، اردن یا دیگر سرحدی علاقوں کی طرف ان کو بھی قتل کر دیا جاتا مگر زیادہ تر توجہ شہری نظام کو تباہ کرنے پر رہی اور اب حال یہ ہے کہ غزہ کی کوئی عمارت رہنے کے قابل نہیں ایک اندازے کے مطابق غزہ سے ملبہ اٹھانے میں ہی چوبیس سال لگا جائینگے اور شائد تعمیر نو میں بھی اتنے ہی سال اس وقت تک فلسطینیوں کی وہ نسل معدوم ہو چکی ہوگی جس نے اس تباہی کو دیکھا، نئی نسل کن خیالات کی حامل ہوگی کون جانے ، یہ سب باتیں HYPOTHITICAL معلوم ہوتی ہیں مگر حقیقت سے بہت قریب ہیں ذرا اندازہ کیجیے کہ غزہ کی تباہی کا منصوبہ کن مقاصد کو سامنے رکھ کر بنایا گیا ہے جب امریکہ بہادر نے اپنی نیت ظاہر کر ہی دی ہے تو یہ باور کرنا کچھ مشکل نہیں کہ کم و بیش ویسا ہی ہوگا جیسا ٹرمپ فرما رہے ہیں، امریکہ کی مشرق وسطی پر گرفت بہت مضبوط ہے ہر چند کہ کچھ عرب ممالک نے ٹرمپ کے منصوبے کی مذمت کی ہے مگر ان کے پاس مذمت کے سوا اور کچھ ہے بھی نہیں، کچھ وقت بیتا اور کچھ دھند چھٹی تو یہ ممالک طوعاً کرہاً امریکہ کے منصوبے کا حصہ بن جائینگے ٹرمپ نے کہا کہ وہ سعودی عرب سے کہیں گے کہ وہ امریکہ میں ایک کھرب ڈالرز کی سرمایہ کاری کرے اور سنا ہے کہ پرنس محمد بن سلمان اس سے نصف پر راضی ہو گئے ہیں ٹرمپ نے از راہِ مذاق یہ بھی کہا کہ ان کے پاس اتنی دولت کہاں سے آئی اور وہ اتنی دولت کا کیا کرینگے ، اشارہ دیا جا رہا ہے کہ ARM TWISTING بھی ہو سکتی ہے اور بہت آسان ہے کہ سعودی عرب میں انسانی حقوق کے حوالے سے دباؤ ڈالا جائے یا پھر جمہوری نظام کا تقاضا کیا جائے یہ دونوں حربے بہت کار گر ثابت ہوتے ہیں، نیتن یاہو نے کہا تھا کہ وہ مشرق وسطی کی شکل بدل دینگے سو شکل بدل دی گئی، اور اب لگتا ہے کہ مشرق وسطی کی سب سے بڑی طاقت اسرائیل ہی ہوگی اور دیگر ممالک کے پاس اور کوئی چارہ نہیں ہوگا کہ وہ اسرائیل کی سرداری قبول کر لیں گے ایران پر دباؤ بڑھ جائیگا اور پھر شائد پاکستان پر ، چین کو اس خطے پر اثر انداز ہونے سے روکنے کے لئے شائد یہ بہت ضروری ہوگا، ایران کی معاشی حالت بہت پتلی ہے مگر ان احالات میں بھی ایران اگر جوہری دھماکہ کر دیتا ہے تو بہت کچھ تبدیل ہو جائیگا مگر یہ بھی امکان ہے کہ ایران کے اندر سے ہی حکومت کے خلاف کوئی تحریک شروع ہو جائے چین اپنے لئے کیسے راستہ نکالتا ہے یہ تو وقت بتائے گامگر یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ ایک EXECUTIVE ORDER کے تحت بحیرہ عرب کا نام بحیرہء امریکہ ہو جائے یا بھارت کو استعمال کرنا ہے تو بحیرہ عرب کو بحیرہ، بھارت کے نام سے پکارا جائے، یہ بات از راہِ تفنن کی جا رہی ہے مگر عالمی سیاست میں اب سنجیدگی ختم ہو گئی ہے حماس کبھی سعودی عرب کے اشاروں پر کام کرتی تھی پھر سعودی عرب کی دلچسپی ختم ہو گئی پھر حماس کا تعلق ایران سے بن گیا، میرا محتاط اندازہ ہے کہ اس جنگ میں حماس استعمال ہو چکی ہے اور وہ اس پلان کا حصہ ہے مجھے یہ بھی شبہ ہے کہ ایران اور حماس کے اپنے لیڈروں کے قتل میں حماس کو اعتماد میں لیا گیا ہوگا، اگر حماس نے اسرائیلی یر غمالیوں کی رہائی مؤخر کی تو مزید بر بادی کا سامنا ہوگا وہ بربادی کیسے ہو گی کہاں ہوگی یہ غیر واضح ہے کیا اگلا نشانہ قطر ہو گا اگر ایسا ہوا تو یہ بہت ہولناک ہوگا، اور اس کی ذمہ دار بھی حماس ہی ہوگی میری نظر میں جنگ کی صورت میں جو ڈرامہ اسٹیج کیا گیا ہے وہ ایک بڑے منصوبے کا حصہ ہے جس میں عالمی طاقتوں کو اعتماد میں ضرور لیا گیا ہوگا، ہم سمجھتے ہیں کہ حماس اسرائیل کی پراکسی ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button