امریکہ کا سفید فام اندھیرا

امریکہ میں روشنی سنہری بالوں والے سفید فام امریکیوں کی وجہ سے نہیں ، بلکہ علم ، تحقیق اور ذہانت و قابلیت کے لیے یکساں مواقع کی فراواں دستیابی کے باعث رہی ہے۔ ایک سرمایہ پرست ریاست کے طور پر امریکہ کے اسلحے کی صنعت و تجارت پر انحصار نے امریکہ کے عالمی کردار کو اچھا خاصا داغدار کر رکھا ہے، اسلحے کی تجارت کے لیے دنیا کے مختلف ممالک میں جنگوں کا بازار سجانا پڑتا ہے، اور ایسا امریکہ نے کثرت سے کیا ہے ،عمومی طور پر یہ بات کہی جاتی ہے کہ امریکہ دنیا میں لڑی جانے والی بیشتر جنگیں ہار کر بھی جیت جاتا ہے۔اور اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ امریکی سرمایہ پرست اپنی توجہ ریاست کی عزت ، غیرت اور حمیت کی بجائے صرف اور صرف مالی منافع پر رکھتے ہیں ۔ صرف یہی نہیں ، امریکی معاشرت کی ان گنت خوبیاں بھی دنیا کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہیں۔امریکہ ایک فلاحی ریاست نہیں ہے ،اس کے باوجود یہاں اپنی اہلیت اور قابلیت کی بنیاد پر اپنی جگہ بنا لینا اور ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہو جانا ہر ایک کے لیے بلاامتیاز ممکن رہا ہے اور ہے بھی ۔یہی علم دوستی اور مواقع کی دستیابی دنیا بھر کے لوگوں کو امریکہ کی طرف متوجہ کرتی ہے۔لیکن امریکہ کے نو منتخب مگر "پرانے”صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جس حقارت آمیز طریقے سے تارکین وطن کو امریکہ بدر کرنے کا کام شروع کیا ہے ، وہ امریکہ کے لیے تازہ خون اور نئی ذہانت کے امکانات کو محدود کر دے گا۔ کولمبیا امریکہ کے ساتھ آزاد تجارتی معاہدے میں منسلک لاطینی امریکہ کا ایک اہم ملک ہے ، میکسیکو کے بعد جس ملک کو دیکھ کر ڈونلڈ ٹرمپ کو طیش آ جاتا ہے وہ کولمبیا ہے۔لاطینی امریکہ کی چوتھی بڑی معیشت کے طور پر کولمبیا امریکہ کی مارکیٹ کے ساتھ کوئی تنازعہ مول لینا پسند نہیں کرے گا۔لیکن کوئی بھی ریاست اپنی اور اپنے شہریوں کی توہین برداشت نہیں کر سکتی۔اور سچ بات تو یہ ہے کہ کوئی بھی باوقار ریاست کسی دوسری ریاست کی توہین نہیں کر سکتی ۔لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی قیادت میں امریکہ ایک باوقار ریاست کے طور پر اپنا ذہنی توازن کھو رہا ہے۔کولمبیا کو اپنے تارکین وطن کی واپسی پر کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا۔ہاں مگر جس طریقے سے دو سو تارکین وطن کو ہتھکڑیاں لگا کر اور ایک بدشکل و بد نہاد امریکی فوجی طیارے میں بھر کر کولمبیا بھیجا گیا ،وہ کسی باعزت ملک کے لیے قابل برداشت حرکت ہرگز نہیں تھی ۔کولمبیا کے صدر گستاوو پیٹرو ،جن کا تعلق بائیں بازو کی سیاسی جماعت سے ہے ،نے اپنے شہریوں کو باوقار طریقے سے اور سویلین طیاروں پر واپس لینے پر آمادگی کا اظہار کرتے ہوئے ؛کولمبیا کے شہریوں کو واپس لانے والے 2 امریکی فوجی طیاروں کو واپس بھیج دیا تھا۔اس پر ڈونلڈ ٹرمپ کے بے مہار غرور اور بے انتہا تکبر نے جس طرح جوش مارا اور فوری طور پر کولمبیا کے خلاف جن اقدامات کا اعلان کیا۔وہ دنیا کے لیے کوئی اچھی خبر اور مثال ہرگز نہیں ہو سکتی۔اگر ٹرمپ کا خیال ہے کہ ان کے ان اقدامات نے امریکہ کے احترام اور وقار میں اضافہ کیا ہے ،تو ایسا ہرگز نہیں ہے۔تاریخ کھلی آنکھوں سے تارکین وطن کے ساتھ ایک ایسے ملک کی بدسلوکی کا مظاہرہ دیکھ رہی ہے ،جو آباد ہی تارکین وطن سے ہوا تھا ، امریکہ کے نائب صدر کی اہلیہ اگر بھارتی تارکین وطن کی دختر ہیں تو امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو کی اہلیہ بھی کولمبین نژاد امریکی ہیں۔ صرف یہی نہیں، امریکہ میں آباد گورے، گندمی اور گہرے رنگ کے سبھی امریکی دراصل ترک وطن کرکے ہی یہاں پہنچے اور آباد ہوئے تھے۔یہاں کے مقامی باشندوں میں سے کوئی ایک بھی امریکہ کا صدر نہیں بن سکا۔ایسے میں ڈونلڈ ٹرمپ کا تارکین وطن کے خلاف جنون بالآخر ان کے پاگل پن کا بڑا ثبوت بن کر سامنے آئے گا۔ یہاں تک کہ ؛ میرا گمان ہے کہ بالآخر ؛ ٹرمپ انتظامیہ اپنے اس فیصلے پر شرمسار ہوتے ہوئے رجوع کر لے گی۔میں نے ڈونلڈ ٹرمپ کو "پرانا” اس لیے لکھا ہے کہ وہ ایک بار پہلے بھی صدر منتخب ہو کر ایک ٹرم پوری کر چکے ہیں۔یہ ان کی کارکردگی ہی تھی کہ اگلے الیکشن میں ڈیموکریٹک پارٹی کے جو بائیڈن صدر منتخب ہوئے اور ضعف و پیری کے باوجود اپنی ٹرم پوری کرکے اپنی کارکردگی کے زور پر ریپبلیکن ڈونلڈ ٹرمپ کے جیتنے کی راہ ہموار بلکہ کشادہ کرتے ہوئے چلتے بنے۔اپنی انتخابی مہم میں ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی عادت کے مطابق کافی مزاحیہ قسم کے دعوے بھی کئے تھے، مثلاً کینیڈا کو صوبہ بناوں گا، گرین لینڈ کو کھا جاوں گا ، میکسیکو کی سرحد کے ساتھ فوج لگا دوں گا وغیرہ ۔لیکن ایک اچھی اور امید افزاء بات دنیا میں جنگوں کو ختم کرنے کا اعلان تھا۔وہ یوکرین ہو یا غزہ کا مظلوم ترین علاقہ ، ہر جگہ جنگ ختم کرنے کے عزم کے اظہار اور اعلان نے ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ کچھ اچھی امیدیں بھی وابستہ کر دی تھیں۔لیکن صدر بننے کے بعد سفید فام ڈونلڈ ٹرمپ کی شخصیت کے اندھیرے واضح ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ اور وہ جو علامہ اقبال نے 1923ء میں امریکہ کے کندھوں پر روایات کا بوجھ نہ ہونے کی وجہ سے امید ظاہر کی تھی کہ امریکہ کا اجتماعی وجدان نئے اثرات قبول کرنے کی صلاحیت سے بہرہ ور ہوگا،وہ پورا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔یہ بات درست ہے کہ دنیا کی دیگر اقوام اور ممالک کی طرح امریکہ کے کندھے تاریخ اور قدیم روایات و تعصبات کے بوجھ سے آزاد دکھائی دیتے تھے ،لیکن یہ کون اندازہ لگا سکتا تھا کہ امریکہ جیسی "نوزائیدہ” ریاست اور تہذیب اپنے کندھوں پر سامی سلسلہ مذاہب کی "حقیقت” کو روایات کی خرافات میں غرق کرنے والی یہودیت کے ہتھے چڑھ جائے گی اور اپنے آذاد ضمیر کو صیہونیت کے تعصبات کے حوالے کر دے گی۔غزہ میں جنگ بندی کے وعدے اور پیہم اعلانات والا ٹرمپ جب غزہ کو وہاں رہائش پذیر فلسطینیوں سے پاک کرنے کا منصوبہ پیش کرتے ہوئے یہ کہتا ہے کہ تباہ حال غزہ کے فلسطینی آدھے مصر چلے جائیں اور آدھے اردن کی راہ لیں ،تو گویا وہ غزہ کو فلسطین سے چھین کر ہزاروں فلسطینیوں کے قتل میں ملوث اور مصروف اسرائیل کو اس کی بے رحم نسل کشی کے انعام کے طور پر پیش کرنے کا سوچ رہا یے ۔اسی پر بس نہیں، اب غزہ میں جنگ بندی کی آرزو میں بےچین اور دنیا میں جنگوں کے خاتمے کے دعوے کرنے والے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیل کو 2 ہزار پاؤنڈ وزنی بم فوری طور پر فراہم کرنے کا اعلان کر دیا ہے ۔ ٹرمپ نے ہر قسم کی شرم و حیا کو بالائے طاق رکھتے ہوئے یہ کہنا بھی ضروری خیال کیا ہے کہ ہم یہ بم آج ہی اسرائیل کے حوالے کریں گے،کیونکہ اسرائیلی ایک طویل عرصے سےان ہلاکت خیز بموں کا انتظار کر رہے تھے۔ٹرمپ کی اس حرکت اور حکم کو غزہ کو ملبے کا ڈھیر بنانے والے اسرائیل کے لیے دو ہزار پونڈ وزنی شاباش سمجھنا چاہیئے ۔یاد رہے کہ اس سے پہلے دو ہزار پونڈ وزنی بم فروخت کرنے پر پابندی جو بائیڈن انتظامیہ نے لگائی تھی۔اس پابندی کا ہٹایا جانا جنگ گریز ٹرمپ کے مشرق وسطی کے بارے میں حقیقی ارادوں کی پردہ کشائی کر رہا ہے ۔دنیا جانتی ہے کہ جو بائیڈن نے غزہ میں شہریوں پر اسرائیل کی تباہ کن بمباری کی وجہ سے دو ہزار پونڈ کے بموں کی فراہمی پر پابندی لگا دی تھی۔ ستم ظریف دو ہزار پونڈ وزنی بموں کی ترسیل کو اسرائیل کی طرف سے ایران کی تنصیبات پر حملے کی تمہید خیال کر رہا ہے۔اس کے مطابق اس ممکنہ حملے کو جدید دنیا میں امن کے داعی اور جنگوں کے مخالف ڈونلڈ ٹرمپ کی مکمل تائید و حمایت حاصل ہو گی۔اس کا خیال ہے کہ ؛اگر امریکہ کا سفید فام ضمیر ہلاکت خیز اسلحے کی تیاری اور فروخت پر انحصار سے باز نہ آیا، اگر ڈونلڈ ٹرمپ سفید فام برتری کی نفسیاتی بیماری سے صحت یاب نہ ہو سکا ، اگر امریکہ صیہونیوں کے برتر ہونے کی تاریخی بیماری کے اثرات ، تصرفات اور طلسم سے آزادی حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہو پایا ،تو پھر امریکہ جانے اور امریکہ کا سفید فام اندھیرا جانے، دنیا تو کسی نہ کسی طور چلتی ہی رہے گی۔