اسلامی جمہوریہ پاکستان کے حکمران

کسی انسان کی ذاتی زندگی اور شخصیت اس کا اور رب کا ذاتی معاملہ ہے لیکن دیکھا یہ جاتا ہے کہ بطور حکمران اس کے فیصلے ، سوچ ، رویہ ، منصوبے، پالیسیاں ، ملک و قوم پر کیا نتائج مرتب کرتے ہیں۔ حکمران اپنی جیب سے قیمتی ملبوسات زیب تن کرتاہے۔ ذاتی کمائی سے محل بناتا ہے لیکن عوام کی بنیادی ضروریات کا خیال رکھتا ہے۔ انصاف ، روزگار اور بنیادی سہولتیں فراہم کرتا ہے تو ایسا حکمران عوام کے دلوں کا بادشاہ ہے حکمران کی روحانیت تسبیح پھیرنے کا نام نہیں۔حکمران کی روحانیت عوام کے حالات پھیرنے کا نام ہے۔سادگی کا پہلا ثبوت احتساب ہے جواپنی ذات سے اپنی کابینہ تک سب پر لازم ہوجاتا ہے۔حکمران مذہبی گفتگو سے عوام کو جذباتی طور پر بہلا تو سکتا ہے لیکن یہ عارضی فارمولے دیر پا نہیں ہوتے۔ عوام جلد بیزار ہوجاتے ہیں ۔ کابینہ اگر قابلیت و صلاحیت پر بنی ہو توحکومت نوے دنوں میں ڈیلیور کرتی ہے۔دین کے رول ماڈل ہستیوں نے عملی طور پر ڈلیور کر کے امت مسلمہ میں مثال قائم کر دی۔امیرالمومنین حضرت علی کرم اللہ وجہ کو بمشکل وفادار ساتھی میسر تھے اور مسلسل ساتھیوں کے مخالف کیمپ میں جانے کا خطرہ تھا۔ مگر اسکے باوجود احتساب کی روایت مکمل طور پر قائم رہی۔
معمولی سی بد احتیاطی بھی برداشت نہیں کی گئی۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری جیسے صحابہ بھی نان پرفارمنس پر برطرف ہوئے۔ ایک اہم مثال حضرت عبدللہ ابن عباس کی ہے جو حضرت علی کے شاید سب سے قریبی تھے۔حضرت علی بیت المال کے سلسلے میں اتنے ہی سخت تھے جتنے کہ حضرت عمر، چنانچہ ایک مالی بے ضابطگی کی شکایت پر تمام تر سیاسی احتیاط طاق پر رکھتے ہوئے ان سے سخت بازپرس کی گئی۔ پاکستان میں احتساب کے لیے قوانین بنتے رہتے ہیں۔ مالی و انتظامی ، بد دیانتی ، کرپش کرنے والے محفوظ طریقے سے بچ جاتے ہیں معاملہ وہیں کا وہیں رہتا ہے۔خلیفہ دوم سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ جب کسی کو عامل ( حکومتی عہدیدار ) مقرر کرتے تو شرائط عائد کرتے کہ وہ ترکی گھوڑے پر سوار نہیں ہوگا باریک کپڑے نہیں پہنے گا۔چھنے ہوئے آٹے کی روٹی یعنی سفید روٹی نہیں کھائے گا۔لوگوں کے کاموں سے بچنے کے لیے اپنا دروازہ بند کر کے نہیں بیٹھے گا اور دربان مقرر نہیں کریگا۔
ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ مدینہ منورہ میں کسی مقام سے گزر رہے تھے کہ اچانک ایک شخص نے بآوازِ بلند کہا کہ کیا آپ صرف شرطیں عائد کر کے اللہ کے ہاں سے بچ جائیں گے جب کہ مصر میں آپ کا مقرر کردہ عامل عیاض بن غنم باریک کپڑے پہنتا ہے اور اس نے دربان مقرر کر رکھا ہے ؟اس پر آپ نے محمد بن مسلمہ کو بلایا جن کو آپ عمال کی جانب سفیر بنا کر بھیجا کرتے تھے اور ان سے کہا کہ جاؤ اور عامل مصر عیاض بن غنم جس حال میں بھی ہو اسے میرے پاس لے آؤ۔ چنانچہ جب محمد بن مسلمہ وہاں پہنچے تو دیکھا کہ دروازہ پر دربان موجود ہے اور اندر گئے تو دیکھا کہ عیاض باریک قمیص پہنے بیٹھے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ امیر المومنین نے آپ کو طلب کیا ہے۔ اس نے کہا کہ مجھے موقع دو کہ قبا پہن لوں۔ محمد بن مسلمہ نے کہا نہیں ، اسی طرح چلنا ہوگا۔ اور وہ اسی حال میں لے کر حضرت عمر کے پاس آ گئے۔ حضرت عمر نے انہیں (گورنر مصر کو) دیکھ کر فرمایا کہ یہ قمیص اتار دو۔ اور آپ نے اون کا جبہ اور بکریوں کا ریوڑ اور لاٹھی منگوائی اور کہا یہ اونی جبہ پہنو، لاٹھی اٹھاؤ اور بکریاں چراؤ۔ اور اس کا دودھ خود بھی پیو اور جو تمہارے پاس سے گزرے اسے بھی پلاؤ اور جو افزائش ہو اسے ہمارے لیے محفوظ کر لو۔ کیا تم نے سن لیا ؟ اس نے کہا جی ہاں ، لیکن اس زندگی سے موت بہتر ہے۔حضرت عمر دہراتے رہے کہ کیا تم نے سن لیا اور وہ یہی کہتے رہے کہ ایسی زندگی سے تو موت بہتر ہے۔ پھر آپ نے پوچھا کہ تمہارے پاس کچھ مال ہے ؟ اس نے کہا کہ جی ہاں اے امیر المومنین آپ نے کہا وہ ہمیں لادو۔اس کے بعد آپ کے کسی عامل نے کوئی ایسی حرکت نہیں کی۔حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا یہی طرزِ عمل تھا جس نے ان کے زمانے کی بیورو کریسی کو اصول و قواعد کا پابند بنا کر ان کی وسیع سلطنت کو امن و امان کا گہوارہ بنا رکھا تھا۔ آج بھی کرپٹ معاشروں میں ایسے ہی حکمرانوں کی ضرورت ہے جو معاشرے سے ظلم و انصافی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکے۔
حقیقت یہ ہے کہ پاکستان ہر چیز سے محروم ہے۔ اس ملک کو ایک مومن حکمران کا انتظار ہے۔ یہ ملک ہر خوشی اور نعمت سے محروم ہوتا جا رہا ہے۔ بجلی بند کر دی جاتی ہے تاکہ جب آئے تو لوگ خوش ہو جائیں۔ پٹرول بند کر دیا جاتا ہے تاکہ جب مل جائے تو لوگ خوش ہو جائیں۔ سوئی گیس بند کردو کہ جب تھوڑی بہت مل جائے تو لوگ راضی ہو جائیں۔ ڈالر آسمان تک پہنچا دو کہ جب گرے تو لوگ خوش ہو جائیں۔ مہنگائی سے کمر توڑ و پھر چار روپے سستا کر دو کہ لوگ خوش ہو جائیں۔
اگر کوئی حکمران سادہ ہے۔سادہ رہن سہن ہے۔سادہ کھانا پینا ہے۔سادہ لباس ہے۔سادہ مزاج ہے۔ دیندار ہے نمازی ہے۔ عاجز ی پسند ہے وغیرہ وغیرہ لیکن عوام کو ڈیلیور نہیں کرسکا تو اس کے ذاتی اوصاف بحیثیت حکمران بے فائدہ ہیں۔ کسی انسان کی ذاتی زندگی اور شخصیت اس کا اور رب کا ذاتی معاملہ ہے لیکن دیکھا یہ جاتا ہے کہ بطور حکمران اس کے فیصلے ، سوچ ، رویہ ، منصوبے، پالیسیاں ، ملک و قوم پر کیا نتائج مرتب کرتے ہیں۔