پیکا قوانین

پیکا قوانین

ہم نے کہیں پڑھا تھا کہ یونان کے ایک قصبے میں ایک ذہین شخص تھا مگر بہت کمزور تھا طاقت ور اسکو ستاتے بھی تھے زود و کوب بھی کرتے تھے مگر وہ کہتا پھرتا کہ ایک قانون ہونا چاہیے جو سب پر لاگو ہو، پہلے پہل لوگوں نے اس کو نظر انداز کیا مگر رفتہ رفتہ کچھ لوگ اس کے ہم نوا ہو گئے اور پھر بہت سے اس کے ساتھ ہو گئے بات اس علاقے کے حکمران تک پہنچی حکمران نے اس کو طلب کر لیا وہ شخص بڑی تعداد میں لوگوں کو لے کر اس حکمران کے پاس پہنچا اپنی بات کہی لوگوں نے تائید کی حکمران کے درباری بھی اس کے ساتھ ہو گئے تجویز نئی تھی مان لی گئی اور اس طرح قانون کی پیدائش ہوئی قانون بنانے کی تراکیب بعد کی بات ہے کہ قانون کیسے بنایا جائیگا پھر یہ بھی طے ہو گیا کہ قانون کون بنائیگا، اس کہانی میں ایک خاص بات ہے اور وہ یہ کہ قانون کمزور آدمی کی ضرورت تھی تاکہ اس کو تحفظ مل سکے ، ایسا وقوع پذیر ہوا کہ نہیں اس بات سے علاقہ نہیں بات اتنی سی ہے کہ کمزور انسان کو طاقت ور لوگوں کی بے جا دست درازیوں سے محفوظ رہنا ضروری ہے، قانون کی وجہ سے معاشرے میں امن رہتا ہے جدید دور میں ملکوں، کمپنیوں ، اور اداروں کو چلانے کے قوانین بننے لگے اب ایک مہذب معاشرے کا تصور قانون کے بغیر ممکن نہیں مگر یہ بھی سچ ہے کہ قانون ضروری ہے مگر قانون کو عام طور پر پسند نہیں کیا جاتا لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ قوانین شخصی آزادی چھین لیتے ہیں اور انسان پابند ہو جاتا ہے یہ کرو یہ نہ کرو، مگر مہذب دنیا قانون کے بغیر نا مکمل ہے ایک شاعر تھا ALEXERDER POPEمذ ہبی انسان تھا سادہ سا انسان وہ دلچسپ بات کہتا ہے وہ کہتا ہے کہ قانون ہمیشہ مجرموں کے لئے بنتا ہے شریف انسان کے لئے نہیں ، ایک POUIS انسان نہ کسی کو تنگ کرتا ہے نہ جرم کرتا ہے وہ قانون بنتے ہیں تو بنتے رہیں اسے اس سے کیا غرض اگر UPRIGHT CHARACTER ہو تو قانون کا خوف نہیں رہتا اور نہ ہی آپ کو STATE LAW پر چلنے کی ضرورت ہے کیونکہ آپ تو پہلے ہی سلامتی کی راہ پر ہیں،ALEXANDER POPE کی بات تو پتے کی ہے نیو یارک پولیس نے FLOYD LOYDD کی گردن پر اپنا گھٹنا رکھ دیا تھا کیونکہ اس نے گرفتاری دینے سے انکار کیا تھا مگر نیو یارک میں کتنے ہیں جو قانون کا احترام کرتے ہیں اور وہ اس تجربے سے کبھی نہیں گزرے پاکستان کی بات الگ ہے ہمارے بہت سے ہیرو ایسے ہیں جن کی پوجا اس لئے کی جاتی ہے کہ
انہوں نے قانون توڑا یا وہ ریاست کے مجرم تھے ہزاروں فلمیں بنیں جن میں ہیرو ایک مجرم تھا امیتابھ بچن نے انڈین فلموں میں ANGRY MAN کا رول کیا اور لوگ اس کے دیوانے ہو گئے ان کا معاشرے پر اثر پڑا اور اتنا اثر پڑا کہ لوگوں نے دانستہ قانون توڑنا شروع کر دیا کراچی کے ایک آئی جی ہوا کرتے تھے اسد اشرف ملک زمانہ طالب علمی میں اچھے DEBATER تھے بعد میں پولیس فورس جوائن کر لی تھی وہ کہا کرتے تھے کہ لوگوں کو قانون توڑنے میں مزا آتا ہے، اور شائد یہ ان کا نفسیاتی مسئلہ ہے بہر حال قانون کی عملداری طاقت سے ہی ممکن ہے اسی لئے پولیس بنائی جاتی ہے پاکستان میں پولیس بہت کمزور ہے اس لئے شہروں میں امن قائم کرنے کے لئے رینجرز سے بھی مدد لی جاتی ہے رینجرز فوج کا ہی حصہ ہے، سوشل میڈیا پر آکر تو SUBSCRIBERS نے یہ سمجھ لیا کہ انہیں مادر پدر آزادی مل گئی ہے اور وہ جو چاہیں لکھیں اس کی باز پرس نہیں ہوگی FIFTH GENERATION WAR کے جو داعی تھے ان کے فلسفہ نے ان کو بہت ڈھارس دی اور عمران نے یہ فصل کاٹنے میں ذرا دیر نہیں لگائی سوشل میڈیا پر وہ طوفان بد تمیزی برپا ہوا کہ الامان و الحفیظ، مغلظات ہی آداب سیاست ٹھہریں کہ اس سے ملک کا کوئی بھی ادارہ محفوظ نہ رہ سکا یہاں تک کہ آرمی چیف کو بھی نہیں بخشا گیا وزیر اعظم تو چیز ہی کیا، اس کوکہیں تو رکنا تھا لہٰذا قانون سازی کی گئی ، فائر وال بھی لگائی گئی پیکا قوانین نواز شریف دور میں ہی متعارف ہوئے تھے جن کو عمران نے بھی استعمال کرنے کی کوشش کی گئی مگر بہت زیادہ مزاحمت ہوئی شہباز حکومت نے بھی پیکا قوانین کو سخت کر دیا اس پر ہاہا کار مچی ہوئی ہے صحافتی انجمنوں نے ملک گیر احتجاج کی کال دے دی ہے آبرو کس کو عزیز نہیں ہوگی ہزار کہہ لیں کمین کی گالی، ہنس کے ٹالی مگر پھر بھی تسلسل سے گالی گفتاری ہوتی رہے تو مزاج پر گراں گزرتی ہے خواہ آپ کتنے ہی متحمل کیوں نہ ہوں مجھے نہیںمعلوم کہ الیکٹرانک میڈیا کو ان پابندیوں پر اعتراض کیوں ہے جو سوشل میڈیا پر لگائی جا رہی ہیں ہم نیوز کی معروف اینکر عاصمہ شیرازی جو خود بھی شدید ٹرولنگ کا شکار رہی ہیں کہہ رہی تھیں کہ تین سال قید اور دس لاکھ جرمانہ بہت زیادہ ہے، عاصمہ شیرازی ان صحافیوں کو کیوں نہیں سمجھاتی جو فیک نیوز اور مس انفارمیشن پھیلاتے ہیں جو ڈس انفارمیشن سے لطف لیتے ہیں کس کو نہیں پتہ کہ کچھ شرارتی صحافی یو ٹیوب پر جا بیٹھے ان کو معلوم تھا کہ چینل کی تنخواہ سے کچھ نہیں بننا لہٰذا انہوں نے یوٹیوب پر عمران کی حمایت شروع کر دی اور لاکھوں لائکس مل گئے اور پھر ڈالرز کی بارش، عمران پر تنقید کرتے تو گالیاں کھاتے، پیسہ تو عمران کی حمایت میں تھا اس لئے عمران کی حمایت ملکی مفاد پر حاوی ہو گئی، اب اگر میں ALEXANDER POPE کا حوالہ دوں اور یہ کہوں کہ اگر آپ فیک نیوز نہیں پھیلاتے ، مس انفارمیشن نہیں پھیلاتے یا ڈس انفارمیشن کا حصہ نہیں تو آپ کو ڈر کیا ہے مگر کہا جاتا ہے کہ نیوز بعض اوقات فیکٹ ہو جاتی بہت میں نے سوشل میڈیا پر یہ TWEET دیکھی کہ پاکستان نے حماس کو چھ ایٹم بم دے دئیے ہیں تو کیا اس بات کو قبول کر لیا جائے اور کہا جائے کہ آئین پاکستان کے مطابق FREEDOM OF SPEECH ہمارا آئینی حق ہے کوئی پوچھے کہ آئین کو ماننا آپ کا فرض ہے کہ نہیں،
علی ظفر پی ٹی آئی کے رہنما ہیں وہ فرما رہے تھے کہ پیکا قوانین اظہارِ رائے پر پابندی ہے اگر اظہار رائے پر پابندی ہوگی تو کہاں ہو گی جمہوریت، علی ظفر جنرل ایوب خان کے وزیر قانون ایس ایم ظفر کے صاحبزادے ہیں ان کے دور میں کبھی جمہوریت نہیں رہی علی ظفر کو انہوں نے بتایا تو ہو گا کہ ہم مارشل لاء کی حمائیت کرتے رہے ہیں ایس ایم ظفر نے ضیاء مارشل لاء کی حمائیت بھی کی اور علی ظفر کو یہ بھی معلوم ہے کہ پاکستان میں کبھی جمہوریت رہی نہیں مگر علی ظفر کو پتہ ہے کہ ان پڑھ عوام کو کیسے خواب دکھائے جا سکتے ہیں میں جب نیویارک آیا تو سپر اسٹورز میں سیکیورٹی گارڈ بھی نہیں ہوتے تھے جب SHOP LIFTING ہونے لگی تو پہلے گارڈز آئے پھر CODED BARS لگائے جانے لگے قیمتی اشیاء پر LOCKS لگائے جانے لگے پھر کیمرے اور اب سپر اسٹور میں ایک SECURITY SYSTEM ہوتا SHOP LIFTINGکے قوانین بدل گئے سزائیں سخت ہو گئیں یہ بتانے کا مقصد یہ ہے کہ قوانین حالات کے مطابق بدل جاتے ہیں ساری دنیا میں سوشل میڈیا کو ریگولیٹ کرنے کے لئے قوانین بن رہے ہیں اور ان کی پابندی کی جاتی ہے مگر پاکستان میں بے سند صحافیوں کو مادر پدر آزادی چاہیے یعنی وہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ ہمیں جھوٹ پھیلانے دو، فیک نیوز پر پابندی نہیں ہونی چاہیے حالانکہ ان کو فیک نیوزمس انفارمیشن، ڈس انفارمیشن کا خوب علم ہے، یہ کبھی ملائیت کے ناسور کے بارے میں بات نہیں کرتی ،مافیاز کو برا نہیں کہتے ملک میں جہاں گڑ بڑ ہو وہاں کوئی صحافی نہیں جاتے،جاتے بھی ہیں تو فوج کی حفاظت میں اور مزے کی بات یہ کہ کوئی ان سے حساب نہیں لے سکتا، ہر ایک چینل نے بھانڈوں کو اکٹھا کرکے ایک پروگرام شروع کر رکھا ہے، مزاح کے نام پر مگر ان میں جگت باز موجود ہیں جو کسی بھی سیاست دان کی پگڑی اچھال دینگے جس کو میڈیا ہاؤس پسند نہیں کرتا، یہ سوسائٹی کے بد قماش لوگ ہیں جو کنگ میکر بن گئے ہیں، اس موذی مرض کا سد باب ہونا چاہیے۔

Ejaz Farooqi

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے