صدر ٹرمپ اور امریکہ کی عظمت ِرفتہ!
بیس جنوری کو ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکہ کے 47ویں صدر کی حیثیت سے حلف اٹھانے کے بعد کیپیٹل ہل میں دو مختلف تقاریب میں دو اہم تقاریر کیں۔ان دونوں خطابات میں انہوں نے کہا کہ امریکہ کے زوال کا دور ختم ہو چکا ‘ اب ترقی اور خوشحالی کا سفر شروع ہو گا اور امریکہ دیکھتے ہی دیکھتے اپنی عظمت ِرفتہ کو دوبارہ حاصل کر لے گا۔ اس منزل تک پہنچنے کا راستہ صدر ٹرمپ پہلے بھی کئی مرتبہ بتا چکے ہیں۔ آج سے دس برس پہلے انہوں نے جس سیاسی تحریک کا آغاز کیا تھا اسکا مقبول نعرہ Make America Great Again تھا۔ عرف عام میں MAGA کہلانے والے اس نعرے کا مطلب یہ ہے کہ امریکہ کو پہلے کی طرح عظیم بنانا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ یہ دعویٰ تو کر چکے ہیںکہ وہ امریکہ کو عظیم بنائیں گے مگر یہ وضاحت انہوں نے آج تک نہیں کی کہ وہ کس زمانے کے امریکہ کی بات کررہے ہیں۔ امریکی تاریخ کے مدو جزر میں اچھے برے وقت آتے رہے ہیں۔ ڈھائی سو برسوں کے اس سفر میں کئی مرتبہ امریکہ ترقی اور خوشحالی کے بام عروج پر تھا اور کئی مرتبہ وہ باقی دنیا سے کٹ کر ایک یکہ اور تنہا ملک تھا۔ صدر ٹرمپ نے آج تک کھل کر کبھی اس عظیم دور کی نشاندہی نہیں کی اس لئے کہا جاتا ہے کہ MAGA کا سرخ ہیٹ پہننے والے ہر شخص کے ذہن میں اس دور کا ایک الگ تصور ہے۔
گذشتہ سال پانچ نومبر کو صدارتی انتخاب جیتنے کے بعد صدر ٹرمپ نے جتنی بھی تقاریر کی ہیں ان میں انہوں نے کھل کر اپنے ایجنڈے کی وضاحت کی ہے۔ بیس جنوری کو حلف برداری کی تقریب میں بھی انہوں نے کئی ملین غیر قانونی تارکین وطن کی واپسی کے وعدے کو دہرایا۔ نظام تعلیم میں اہم تبدیلیوں اور تعلیمی اداروں میں پھلنے پھولنے والے Woke اور ٹرانس جینڈر کلچر کی بیخ کنی بھی انکے ایجنڈے کا اہم حصہ ہے۔ہیلتھ کئیر کے نظام میں بھی وہ انقلابی تبدیلیاں لانا چاہتے ہیں۔ ریاستی اداروں سے انہیں یہ شکایت ہے کہ وہ انکی مخالفت‘ تعاقب اور کردار کشی کرنے کے علاوہ انہیں سیاسی منظر نامے سے ہٹانے کی کوششیں بھی کرتے رہے ہیں۔ صدر ٹرمپ کی ڈیپ سٹیٹ سے مخاصمت کا عرصہ دس برس پر محیط ہے۔ اب ان اداروں کی ’’ اصلاح احوال‘‘ کے لیے وہ ایک نیا ادارہ بنائیں گے جسکا نام DOGE یعنی Department of Government Effeciency ہو گا۔ اسکا سربراہ Tech ارب پتی ایلون مسک ہو گا۔ یہ ادارہ ہزاروں کی تعداد میں پرانے ملازمین کو فارغ کرکے سرکاری خزانے کو فائدہ پہنچائے گا۔ میڈیا کہہ رہا ہے کہ اس محاذ پر کامیابی آسان نہ ہو گی کیونکہ بیوروکریسی ڈٹ کر مقابلہ کرے گی۔
ٰٰ یوں اکیس جنوری سے امریکہ کا داخلی محاذ خاصا گرم ہو گا۔ ہر اس گھر‘ دکان‘ دفتر‘ کھیت اور کھلیان پر چھاپہ پڑے گا جہاں تارکین وطن موجود ہوں گے۔ سوکھی لکڑیوں کے ساتھ گیلی بھی جلیں گی۔ ہر کالے اور گندمی رنگ کے شخص کو اپنی قانونی حیثیت ثابت کرنے کے لیے اپنے امریکی پاسپورٹ یا گرین کارڈجیب میں رکھنا ہو ں گے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کہہ چکے ہیںکہ وہ آئین میں تبدیلی کر کے برتھ رائٹ سٹیزن شپ کے قانون میں بھی تبدیلی کریں گے۔ ڈیمو کریٹک پارٹی اس ترمیم اور دیگر کئی اقدامات پر صدر ٹرمپ کی مخالفت پر کمر بستہ ہے۔ یوں ایکطرف سڑکوں اور بازاروں میں پکڑ دھکڑ ہو گی تو دوسری طرف کانگرس کے دونوں ایوانوں میں بھی ہنگامہ آرائی ہو گی۔
خارجہ معاملات میں صدر ٹرمپ نے جو محاذ کھولنے کا اعلان کیا ہے ان میں سرفہرست پاناما کنال کو طاقت کے بل بوتے پر امریکہ کی ملکیت بنانا ہے۔ اسکے بعد وہ اپنے دوسرے پڑوسی میکسیکو کا رخ کریں گے۔ اس ملک سے صدر ٹرمپ کو کئی شکایات ہیں۔ ان میں سر فہرست وہ گینگ ہیں جو ہر سال اربوں ڈالر کی منشیات امریکہ سمگل کرتے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ انکے خلاف فضائی طاقت استعمال کرنے کا عندیہ دے چکے ہیں۔ گویا قومی ریاستوں کی سرحدوں کے جس تحفظ کا وعدہ اقوام متحدہ نے دوسری جنگ عظیم کے بعد کیا تھا اب امریکہ اسے خاطر میں نہیں لائے گا ۔ ڈونلڈ ٹرمپ کینیڈا کو امریکہ کی 51ویں ریاست بنانے کی بات کئی مرتبہ کر چکے ہیں۔ جلد یا بدیر ڈنمارک سے متصل خود مختار علاقے گرین لینڈ کا نمبر بھی آ جائیگا۔ صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ یورپ کا یہ جزیرہ امریکہ کی قومی سلامتی کے لیے نہایت ضروری ہے کیونکہ اسکا ساحل بحرالکاہل کے ذریعے امریکی بندرگاہوں سے ملا ہوا ہے اور چین اور روس دونوں اسکی طرف للچائی ہوئی نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔ جرمنی اور فرانس امریکہ کو اس مہم جوئی سے منع کر چکے ہیں۔ چین کی برآمدات پر پچاس فیصد ٹیرف کی دھمکی پہلے ہی دو عالمی طاقتوں کے مابین مخاصمت کا سبب بنی ہوئی ہے۔ ایران میں حکومت کی تبدیلی بھی صدر ٹرمپ کی اہم ترجیحات میں شامل ہے۔
یوں اگلے چار برسوں میں صدر ٹرمپ داخلی اور خارجی دونوں محاذوں پر چو مکھی جنگ لڑتے نظر آ رہے ہیں۔ بعض مبصرین کے مطابق کچھ حاصل ہو یا نہ ہو ہنگامہ آرائی خوب ہو گی۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے ذہن میں امریکہ کی عظمتِ رفتہ کا جو تصور ہے اسکے حصول کے لیے ہر دشمن کا کچلا جانا ضروری ہے۔ اس خواب کی تعبیر پانے کے لیے اقوامِ عالم کے ساتھ بقائے باہمی کے اصولوں کی بنیاد پر تعلق قائم کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ فتح اور شکست ٹرمپ کے ویژن کے بنیادی عناصر ہیں۔ یہ ایک خوفناک ویژن ہے مگر اسکے ویژن ہونے سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اور کچھ نہ سہی اس میں جمود نہیں بلکہ ایکشن ہے اور MAGAکا نعرہ بھرپور ایکشن کی دعوت دیتا ہے۔اسے سکوت اور بے رونقی سے نفرت ہے۔